مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب مرحوم
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جولائی 2010ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر کے قلم سے مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ مرحوم کے بارہ میں ایک مضمون قبل ازیں 24 جنوری 2014ء کے شمارہ کے اسی کالم میں شائع ہوچکا ہے۔ چند اضافی امور ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ماسٹر بشارت احمد صاحب ولد چراغ دین صاحب 15 نومبر 2009ء کو لندن میں لمبی علالت کے بعد وفات پاگئے۔ آپ کی تدفین لندن میں ہی ہوئی۔ 1954ء میں میٹرک کا امتحان عارفوالہ سے پاس کرنے کے بعد تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں فرسٹ ایئر میں داخل ہوئے۔ہم دونوں کلاس فیلو تھے۔
آپ کو خلافت سے بہت پیار تھا۔ فروری 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیمار ہوگئے۔ دعا کی غرض سے اعلان ہوا تو حضورؓ کی خیریت معلوم کرنے کے لئے بڑی بے چینی میں مجھے ساتھ لے کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری پہنچے اور مسجد مبارک میں نماز عشاء میں بڑی تضرّع سے حضورؓ کی شفایابی کے لئے دعا میں شریک ہوئے۔ آپ نماز تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے۔ جھنگ کے سفر کے دوران بھی رات قیام ہوتا تھا تو تہجد ضرور ادا کرتے۔ سر پر ہمیشہ ٹوپی رکھتے تھے۔
ایف اے؛ سی ٹی کرنے کے بعد یکم ستمبر 1960ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں تقرر ہوا۔ دوران ملازمت آپ نے بی اے بی ایڈ اور ایم اے بھی کیا اور پھر ترقی کرکے بی اے بی ایڈ کی آسامی پر منتقل ہوگئے۔ علاوہ تدریسی کام کے دفتر میں کلرک صاحبان کی معاونت کے لئے بھی مقرر تھے اور مالی معاملات میں خوب مہارت تھی۔ سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ بھی مقرر ہوئے۔ نہایت شفقت کے ساتھ بچوں کے معاملات طے کرتے اور بچوں کی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے تھے۔ سکول قومیائے جانے کے بعد گورنمنٹ کی طرز پر دفتری معاملات چلانے پڑے تو آپ نے خوب مہارت سے سارے معاملات طے کئے۔ ایک دفعہ ڈی سی او آفس کے ایک کلرک نے مجھے بتایا کہ میں نے سارا دفتری کام بشارت صاحب سے ہی سیکھا تھا۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی اَور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ مرحوم کی حسن کارکردگی اوراخلاق کی وجہ سے غیرازجماعت ہیڈماسٹر صاحبان بھی آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔
مکرم بشارت صاحب ربوہ میں رہائش کو نعمت سمجھتے تھے۔ ربوہ سے باہر ملازمت کو پسند نہ کرتے تھے۔ دینی خدمت کا موقعہ کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ خدام کے سالانہ اجتماعات میں بڑی دلجمعی کے ساتھ ڈیوٹی دیتے۔ جلسہ سالانہ میں مہمان نوازی کی ڈیوٹی بھی بڑی ذمہ داری سے ادا کرتے رہے۔
دسمبر 1995ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وقف جدید میں اعزازی طور پر کام کرتے رہے۔ پنشن کیس یا سروس بک کا کام بلامعاوضہ کرتے۔ آپ کے والد صاحب 1973ء میں وفات پاگئے تھے جس کے بعد آپ نے اپنے بہن بھائیوں کی پرورش میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اپنے ساتھی مرحوم اساتذہ کے بچوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت سے پیش آتے۔