مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب کا ذکرخیر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 2جون 2010ء میں مکرم ماسٹر احمد علی صاحب کے قلم سے محترم ماسٹر بشارت احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم ماسٹر بشارت احمد صاحب بنیادی طور پر بطور ایف اے سی ٹی کرکے 1960ء میں ٹیچر تعینات ہوئے تھے۔ مگر ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر تیاری کرکے بی اے، پھر ایم اے اور ایم ایڈ کرلیا۔ آپ ایک خاموش طبع، منکسر المزاج وجود تھے۔ کلاس میں ساری توجہ اپنے سبق کو آسان طریقہ سے طلباء تک پہنچانے میں صَرف ہوتی۔ انگریزی اور اردو دونوں میں بہت خوش نویس تھے۔ اکاؤنٹ کے شعبہ کے بھی ماہر تھے۔ ہائی سکول میں ہر ہیڈماسٹر کے دست راست رہے۔ سکول کے فنڈز اور حسابات پر عبور تھا۔ جب بھی سکول کے آڈٹ کے لئے آفیسرز سکول میں آتے تو آپ کے سامنے تمام حسابات کا نہایت مہارت سے آڈٹ کراتے۔ کلرک صاحبان اور ہیڈ ماسٹر صاحبان ان کی مہارت کے قائل تھے۔ سٹاف کی سروس بکوں کی تکمیل بھی کلرک صاحبان آپ کی راہنمائی اور مدد کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قومیائے جانے کے بعد جتنے بھی غیر از جماعت ہیڈماسٹر تعینات ہوئے، سبھی آپ کی صفات حسنہ کے معترف رہے۔ محکمانہ سرکلرز کے جواب کی تیاری میں بھی ہیڈماسٹر صاحبان آپ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
مرحوم اپنی پیشہ ورانہ خوبیوں اور اوصاف کے علاوہ بہت نرم خو اور تمام سٹاف میں ہردلعزیز تھے۔ ہر غریب اور کمزور ٹیچر کے ساتھ دلی ہمدردی اور غمگساری آپ کا شیوہ تھا۔ کوئی ٹیچر بیمار ہوتا تو آپ نہ صرف عیادت کے لئے جاتے بلکہ علاج معالجہ کے لئے انہیں ہسپتال بھی لے جاتے۔ بلکہ درجہ چہارم کے ملازمین کی بھی ہر ممکن خیرخواہی اور امداد کیا کرتے۔ چنانچہ ایک کارکن کی بیٹی کی شادی میں تمام اساتذہ سے رقم جمع کرکے بطور سلامی بچی کو بھجوائی۔ اسی طرح سکول کا ایک بیلدار بیمار ہوگیا تو آپ نے تمام اساتذہ سے ایک معقول رقم جمع کرکے اُسے دی۔
محترم بشارت صاحب دوستوں کے بااعتماد اور وفادار دوست تھے۔ 1961ء میں جب مَیں ربوہ کے سکول میں تعینات ہوا تو کچھ عرصہ آپ کے ساتھ مقیم رہا۔ اپنے گاؤں سے نیا نیا باہر نکلا تھا اور کھانا پکانے اور دیگر لوازمات سے لاعلم تھا۔ مگر آپ نے کبھی نہیں کہا کہ تم بھی ہمارے برابر کام کرو بلکہ نہایت خاموشی اور خندہ پیشانی سے میرے حصہ کا کام بھی خود کر دیتے تھے۔ رمضان میں ہمیں دارالنصر سے مسجد مبارک تراویح پڑھنے کے لئے لے جایا کرتے۔ مجھے انگریزی لکھنا پڑھنا انہوں نے سکھایا اور میٹرک کا امتحان پاس کرایا اور ایف اے کے لئے بھی تیاری کرائی بلکہ میرے ساتھ سرگودھا جا کر کمرۂ امتحان میں داخل ہونے تک ضروری سوالات یاد کراتے رہے۔ میرے سارے بچوں کو بورڈ کے امتحان سے پہلے ایک ڈیڑھ مہینہ انگریزی کے پرچہ کی تیاری کرایا کرتے تھے۔
اپنے رشتہ داروں سے بھی صلہ رحمی کیا کرتے۔ کئی رشتہ داروں کو اپنے پاس رکھ کر تعلیم دلوائی اور ربوہ میں اُن کی آبادکاری میں مدد دی۔ بعض کو بیرونِ ملک جانے میں مدد دی۔ ہر ایک کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے۔
آپ بچپن سے نماز تہجد کے عادی تھے جو (بشرط صحت) کبھی قضا نہیں کی۔ نماز مسجد میں ادا کرتے۔ محلہ کی مسجد میں قرآن کریم باترجمہ کی کلاسز بھی سالہا سال لیتے رہے۔ مالی قربانی میں بھی بڑے فراخ دل تھے۔ جب بھی کسی طوعی قربانی کا مطالبہ ہوا، ہمیشہ خندہ پیشانی سے نمایاں حصہ لیا۔
آپ لمبا عرصہ سے شوگر کے مریض تھے۔ انسولین کے انجکشن لگاتے تھے۔ نہایت صبر اور حوصلہ سے اس موذی بیماری کا مقابلہ جاری رکھا مگر گردے کمزور ہو کر ناکارہ ہو چکے تھے۔ بغرض علاج اپنے بیٹے کے پاس لندن بھی گئے مگر 15 نومبر 2009ء کو وفات پاگئے۔ پسماندگان میں چھ بیٹیاں، ایک بیٹا اور اہلیہ شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کے ایک بہترین استاد ہونے کا نہایت محبت سے ذکر فرمایا۔ بوجہ موصی ہونے کے قطعہ موصیان میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں