مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی شہادت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اپریل 2012ء میں شائع ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب صدر محلہ نصرت آباد ربوہ پولیس اہلکاروں کے تشدّد کے باعث 30مارچ 2012ء کو بعمر 43سال راہ مولیٰ میں شہید ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق کچھ عرصہ قبل ربوہ کے محلہ نصرت آباد کے اشٹام فروش احمدیوسف کے قتل کے الزام میں پولیس نے ماسٹر صاحب کو حراست میں لیا تھااور ان سے اس قتل کا زبردستی اعتراف کرانے کی کوشش میں تھانہ ربوہ کے سفّاک پولیس اہلکاروں نے انہیں انسانیت سوزوحشیانہ تشدد کا بے دریغ نشانہ بنایا۔ حالت غیر ہونے پر ماسٹر عبدالقدوس صاحب کے لواحقین کو ڈرا دھمکا کر سادہ کاغذ پر دستخط لئے گئے اور اس کے بعد ان کو رہا کر دیاگیا۔ شدید تشدد کا نشانہ بننے کے باعث ان کے جسم سے خون کا اخراج خطرناک حد تک ہو رہا تھا۔ مقامی ہسپتال میں ان کی جان بچانے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں لیکن وہ ان جان لیوا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔
مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ نیک، خادم سلسلہ ، خاموش طبع ، ملنسار ، غریبوں کے دکھ درد میں ان کے کام آنے والے اور ہمہ وقت خدمت دین میں مصروف رہتے تھے۔ چھوٹی عمر سے ہی جماعتی کاموں میں آگے آگے رہتے۔ منتظم اطفال ، زعیم خدام الاحمدیہ ، شعبہ حفاظت مرکز اور مجلس صحت کے شعبہ کشتی رانی میں خدمات نیز بطور صدر محلہ آپ کی خدمات یادر کھی جائیں گی۔ آپ نے لواحقین میں بزرگ والدین ، اہلیہ اور چار بچے عزیزم عبدالسلام (عمر 14سال)، عزیزم عبدالباسط (عمر 13سال) ، عزیزہ عطیۃ القدوس (عمر 10سال) اور عزیزم عطاء الوہاب (عمر 5سال) یادگار چھوڑے ہیں۔
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے برادرم محترم عبدالقدوس صاحب کی دردناک شہادت کا تفصیل سے ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍اپریل 2012ء میں کیا اور اس پیارے بھائی کو نہایت پیار سے خداتعالیٰ کے سپرد فرماتے ہوئے اُس کے سفّاک قاتلوں کا معاملہ بھی خداتعالیٰ کی تقدیر کے حوالے کردیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید نہایت اچھے اور خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ خدمتِ خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ دریائے چناب میں جب کبھی کوئی ڈوب جاتا تو احمدی یا غیر احمدی کا فرق کئے بغیر اُس کی لاش تلاش کرنے میں اپنے ساتھیوں کی نگرانی کرتے ہوئے دن رات محنت کرنے لگ جاتے، اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ نعش کو تلاش نہ کرلیں۔ بچپن سے وفات تک مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ شہید مرحوم اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک نمونہ تھے اور جماعتی عہدیداران کی عزت و احترام کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔ طالبعلمی کے دَور سے ہی ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لینے کا اُنہیں بہت شوق تھا۔ کبڈی، ہاکی، فُٹبال، کرکٹ وغیرہ کے اور کشتی رانی کے اچھے پلیئر تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی انہوں نے ڈیوٹیاں دی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ کبھی سامنے آ کر ڈیوٹی دینے کا شوق نہیں تھا۔ کوئی نام و نمود نہیں تھی۔ باوجود انچارج ہونے کے پیچھے رہتے تھے اور اپنے ماتحتوں کو آگے رکھتے تھے۔