مکرم ماسٹر منصور احمد بٹ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 مارچ 2010ء میں مکرم عرفان احمد بٹ صاحب نے اپنے والد محترم منصور احمد بٹ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 27فروری 2009ء کی شب فیصل آباد میں وفات پاگئے۔
ابا جان ایک شفیق باپ، اچھے شوہر، ایماندار اور محنتی ٹیچر اور ملنسار وجود تھے۔ خلیفہ وقت سے والہانہ عشق تھا۔
ابا جان نہ صرف ایک اچھے استاد اور نافع الناس وجود تھے بلکہ جماعت کے لئے بھی مخلص تھے۔ آپ نے اپنی اولاد سے پیار کیا مگر احسن رنگ میں تربیت کی۔ لڑنے، جھگڑنے یا شکایت کی صورت میں ہمیشہ اپنے بچوں کی حوصلہ شکنی کی۔ غصہ نام کا بھی نہ تھا۔ گھر کے کام کاج میں باقاعدگی سے اپنی بیوی کا ہاتھ بٹاتے۔
ایک بار ابا جان ایک مالی بحران کی زد میں آ گئے لیکن آپ نے حوصلے اور صبر کے ساتھ وقت گزارا۔ آپ صابر اور شاکر تھے۔ سفید شلوار قمیص پہنتے۔ آپ نے آخری عمر تک سائیکل کی سواری کی۔ سکول میں بچوں کو محنت سے پڑھاتے اس لئے آپ ہر دلعزیز تھے۔ بہت سے غیرازجماعت ضرورتمند طلباء بغیر معاوضے کے ٹیوشن پڑھتے رہے۔ ابا جان گھر کا سودا سلف مہینہ بھر کا پہلے سے لے آتے۔ ادھا ر کو ناپسند کرتے اور کبھی لیا بھی تو مقررہ مد ت کے اندر اندر ادا کر دیتے۔
ابا جان کے مورث اعلیٰ نور محمد بٹ نے 1750ء کے قریب کشمیر سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ہجرت کی اور آپ کی اولاد میں سے اکثر پنجاب اور کچھ سرحد کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ نور محمد بٹ اہل سنت تھے اوران کی گیارویں پشت میں میرے والد منصور احمد بٹ یکم اپریل 1942ء کو لاویری والا ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ابا جان کے والد محمد یوسف بٹ 1914ء میں پیدا ہوئے اور 1929ء میں مع اپنی والدہ حسین بی بی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی (مدفون بہشتی مقبرہ ) ۔ ایک روایت کے مطابق ابا جان کے دادا غلام رسول بٹ بھی احمدی ہو چکے تھے۔ تاہم ابا جان کا ننھیال بہت پہلے احمدی ہو چکا تھا۔ ابا جان کے دادا قادیان دارالامان جاتے اور جماعتی کتب خریدتے اور الفضل بھی لگوائی اور الفضل کا بہت بڑا ذخیرہ سنبھال کر رکھا تھا۔
ابا جان نے پرائمری کی تعلیم اپنے گاؤں لویری والا جبکہ میٹرک M.B.High School وزیر آباد سے کیا۔ ابا جان اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے اور بہنوںکے اکلوتے بھائی تھے۔ دادا جان اکثر بیمار رہتے تھے اس لئے ابا جان پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کا بھی سہارا بنے اور اپنی اولاد کے جوان ہونے تک تعاون کرتے رہے۔
ابا جان محکمہ تعلیم میں استاد مقرر ہوئے جس گاؤں تقرری ہوئی وہ بوجوہ جاری نہ رہ سکی۔ آپ ملازمت ترک کرکے پھر گاؤں واپس آ گئے۔ پھر جون 1962ء میں دارالنصر ربوہ میں کمیٹی کے سکول میں تقرری ہوئی اور بعد ازاں گورنمنٹ ٹی۔ آئی۔ ہائی سکول سے 1999ء میں ریٹائر ہوئے۔
دوران سروس ابا جان نے پرائیویٹ F.A اور C.T کیا۔ ربوہ آنے سے قبل دادا جان نے ابا جان کو چند نصائح کیں یعنی سگریٹ وغیرہ ہرگز نہیں پینا، تاش نہیں کھیلنا، سینمابینی سے بچنا ہے اور تمہارے لئے نمونہ خلیفہ وقت ہو تاکہ ٹھوکر نہ لگے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مندرجہ بالا نصائح پر ساری زندگی کار بند رہے۔
ابا جان بتاتے تھے کہ جب میں نیا نیا ربوہ آیا تواس وقت حضرت مصلح موعود بیمار رہتے تھے میں جب بیت المبارک میں نماز کے لئے جاتا تو اکثر حضور اقدس کی صحت و سلامتی کے لئے دعائیں ہوتیں۔ تو اس روز ساری بیت سے دوران نماز رونے اور آہ وبکاہ کی آوازیں آتی تھیں اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہہ جاتے۔ آپ بتاتے تھے کہ اس وقت سے خلیفہ وقت کے مقام و مرتبہ کا علم ہوا۔ آپ شروع سے ہی صبح کی نماز پڑھتے، قرآن پاک پڑھتے ۔ آپ والی با ل کے اچھے کھلاڑی تھے۔
جب ابا جان نئے نئے آئے تو سب سے پہلے منتظم اطفال بنے اور چند روز بعد معتمد مجلس خدام الاحمدیہ محلہ بنے اور پھر تو ساری زندگی مختلف جماعتی عہدوں پر خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ شروع سے ہی لوگ ابا جان کے پاس گھر یلو روز مرہ کے مسائل لے کر آتے اور آپ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ تحمل سے بات سنتے۔ تشحیذالاذہان کے کسی شمارے میں اطفال کے ساتھ وقار عمل کرواتے ہوئے تصویر بھی آئی۔
آپ کی شادی احمد نگر کے کشمیری گھرانے میںہوئی۔بیوی بھی پنجوقتہ نمازی اور انتہائی دعا گو ملیں جو حضرت میاں محمد عیسیٰ صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کی پوتی اور خواجہ محمدیوسف صاحب سابق کارکن بہشتی مقبرہ کی بیٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ ابا جان نے اپنی زندگی میں دارالامان قادیان کا بھی دیدار کر لیا اور بیماری کی حالت میں جلسہ سالانہ قادیان 2007ء میں شامل ہوئے۔ ابا جان محلہ کے قریباً 13سال صدر رہے۔
آپ کے ایک شاگرد خاکسار سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں ربوہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا تو ماسٹر صاحب نے مجھے میرے سگے والد سے زیادہ پیار کیا۔ میری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تو ماسٹر صاحب مجھے کبھی کندھے پر یا کبھی سائیکل پر بٹھا کر سکول لے جاتے اور اپنی کرسی پر بٹھاتے اور گفتگو کے دوران آپ کی آنکھیں نم تھیں۔ ابا جان کی وفات پر آپ کے اسی شاگرد نے کہا کہ آج میں یتیم ہو گیا ہوں۔
کئی بار ایسا ہوا کہ ابا جان جب کبھی سفر پر جاتے تو آپ کے شاگرد سیٹ چھوڑ دیتے اور کرایہ ادا کر دیتے۔ ایک بار ابا جان کسی کے ساتھ موٹر سائیکل پر نزدیکی گاؤں گئے۔ رستہ میں وہ صاحب پٹرول پمپ سے پٹرول لینے لگے تو پٹرول پمپ والے نے محض ابا جان کی وجہ سے ان صاحب سے پیسے نہ لیے۔
ایک صاحب جو غیراحمدی تھے ابا جان کے پاس آئے اور کہا کہ میں قرآن شریف نہیں پڑھا ہوااگر آپ پڑھا دیں تو میں آ جایا کروں۔ ابا جان نے کہا ہاں اور پھر باوجود مصروفیت کے قرآن پاک باقاعدگی سے پڑھایا اور مکمل کروایا۔ابا جان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سکول میں ایک یادگاری بورڈ نصب کیا گیا جس پر آپ کا نام لکھا گیا جو آپ کی دیانتدارانہ پڑھانے کی ترجمانی کرتا تھا۔
ایک غیراحمدی ٹیچر جن کا تبادلہ ابا جان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوا۔ ایک دن ابا جان کسی کام سے سکول گئے۔ جب ان ٹیچر سے تعارف ہوا تو اس ٹیچر نے کہا کہ میں نے آپ کی نیک نامی اور شہرت کا اتنا سنا تھا کہ مجھے خواہش ہوئی کہ منصور احمد بٹ ہے کون؟ اس سے ملا جائے۔
ابا جان سکول اسمبلی سے قریباً آدھ گھنٹہ پہلے جاتے اور یہ آپ کی روٹین تھی۔ ایک بار آپ لیٹ ہو گئے اور جب سکول پہنچے تو PTI صاحب نے بتایا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ منصور بٹ کبھی لیٹ نہیں ہوا۔ آج اللہ خیر ہی کرے۔ ریٹائر منٹ کے بعد ابا جان ایک نجی سکول سے وابستہ ہو گئے اس کا سارا انتظام آپ کے سپرد تھا جب آپ سکول سے وابستہ ہوئے اس وقت سکول کی تعداد کل 55تھی اور کئی سال سے اتنی ہی چلی آ رہی تھی۔ لیکن آپ کی کاوشوں سے طلباء کی تعداد250سے بھی تجاوز کر گئی۔
ایک عورت گھر آئی اس نے کہا کہ آپ کے والد پرنسپل ہیں (اس وقت ابو جان ہسپتال میں داخل تھے بوجہ بیماری اور پرائیویٹ سکول سے منسلک تھے) میں نے جماعت سے بچے کا وظیفہ لگوانا تھا تو وہ تصدیق کر دیں۔ جب انہیں پتا چلا کہ آپ بیمار ہیں تو وہ رو پڑیں اور کہا کہ میرے بیٹے کے پاس یونیفارم نہیں تھی توآپ کے والد نے بچے کو دو یونیفارم لا کر دئیے تھے۔
ابا جان کی ریٹائرمنٹ کے بعد محکمہ تعلیم کی طرف سے ایک نگرانی کمیٹی بنائی جاتی تھی جس کا کام سکول میں اساتذہ کی نگرانی تھا کہ بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ نہیں (بعد میں محکمہ نے ملتوی کر دیا) اس وقت ٹی ۔ آئی۔ ہائی سکول کے تمام اساتذہ ابا جان کے نام پر متفق ہوئے۔
خاکسار نے کچھ عرصہ پہلے الفضل بند کروا کر ایک ہفت روز رسالہ لگوایا۔ ابا جان نے وفات سے کچھ روز قبل سخت تاکید کی کہ رسالہ بند کروا کر الفضل لگواؤ کیونکہ جو الفضل کا مقام ہے وہ کسی اورکا نہیں۔ خاکسار نے رسالہ تو بند کروا دیا لیکن الفضل لگوانا بھول گیا۔ ابا جان نے پھر تاکید کی۔ آپ کی وفات کے تین دن بعد دوبارہ الفضل لگوائی۔
ایک مرتبہ محلہ والوں کے ساتھ ابا جان دعوت الی اللہ پر گئے تو وہاں لوگوں نے ابا جان کی خوب خاطر تواضع کی۔ واپسی پر وفد کے لوگوں نے کہا کہ ماسٹر صاحب کو آئندہ ہر وفد کے ساتھ ضرور لے کر جانا ہے۔ ان کی تو واقفیت ہی بہت زیادہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں