مکرم مبارک احمد محمود صاحب مربی سلسلہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16جون 2011ء میں مکرم عمر علی طاہر صاحب مربی سلسلہ نے اپنے بھتیجے مکرم مبارک احمد محمود صاحب مربی سلسلہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم مبارک احمد محمود صاحب نے وفات سے قبل ایک طویل بیماری کا نہایت جوانمردی اور صبر سے مقابلہ کیا۔ کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں آیا بلکہ بیماری کے باوجود دوسروں کی خوشی میں شامل ہوتے رہے۔
آپ دسمبر 2007ء سے وکالت تصنیف میں متعین تھے۔ اپنی دفتری ذمہ داریوں کی ہر وقت فکر لگی رہتی۔ جب بیماری دوبارہ حملہ آور ہوئی تو کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ تکلیف کی وجہ سے یا دوائیوں کے لئے جلد گھر آنا پڑتا تو دفتر کا کام گھر لے آتے۔ دفتر میں بھی بڑی جانفشانی سے کام کرتے۔ محترم چوہدری محمد علی صاحب وکیل التصنیف نے مرحوم کے والد سیف علی شاہد صاحب کو تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’ نہایت محنت، تندہی اور فکر مندی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ خاموش طبع تھے لیکن خوش ذوق تھے۔ نہایت قیمتی وجود تھے۔ ایک واقف زندگی کا اتنی جلدی ہم سے جدا ہو جانا ہم سب کے لئے دکھ کا باعث ہوا تاہم
’راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو‘۔‘‘
مرحوم نے اپنی والدہ صاحبہ سے یہ اظہار کیا تھا کہ دعاکریں اللہ مجھے صحت دے تو مَیں اپنے خرچ پر تنزانیہ جاکر سواحیلی پر عبور حاصل کروں تا میں جماعت کے لئے زیادہ مفید وجود بن سکوں جس پر ان کی والدہ محترمہ نے ان کو سفر کے اخراجات دینے کا وعدہ کیا ۔
مرحوم میدان عمل میں بڑی فکرمندی سے کام کرتے تھے۔ جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوئے تو آپ کی پہلی تقرری عنایت پوربھٹیاں ضلع جھنگ میں ہوئی۔ وہاں کے ایک دوست، محترم رائے اللہ بخش صاحب، بتاتے ہیں کہ ایک شام وہ مسجد گئے تو ملحقہ کمرہ میں مرحوم مبارک کو افسردہ اور روتے ہوئے پایا۔ انہوں نے پوچھا کیا کسی سے جھگڑا ہوا ہے یا گھر کی یاد آرہی ہے ؟۔ مرحوم نے بتایا کہ ایسی بات نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ جولوگ نماز پر نہیں آتے اور جب میں ان کو نماز کا کہنے جاتا ہوں تو وہ مجھے چھوٹا سمجھتے ہوئے میری بات دھیان سے نہیں سنتے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ مئی 2011ء میں مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’مکرم مبارک محمود صاحب مربی سلسلہ 4؍مئی کو بڑی لمبی علالت کے بعد 42سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اناللہ و انّا اِلیہ راجعون۔ 1989ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوئے تھے۔ 9سال تک پاکستان کے مختلف شہروں میں مربی رہے پھر تنزانیہ چلے گئے 1998ء میں ۔ 8سال وہاں خدمات انجام دیں ۔ تنزانیہ میں ان کو کینسر ہوگیا تھا۔ وہاں سے وہ واپس پاکستان آئے۔ ان کا علاج ہوتا رہا اور پھر سواحیلی ڈیسک وکالت تصنیف میں کام کیا۔ باوجود بیماری کے بڑی جانفشانی سے کام کرتے رہے اور اس تکلیف کا بھی ،بڑی تکلیف دہ تکلیف ہے، بڑے صبر سے مقابلہ کرتے رہے۔ ناشکری یا بے صبری کا کلمہ زبان پر نہ آیا۔ مسکراتے رہتے تھے۔ خندہ پیشانی سے ہمیشہ ہر ایک سے بات کرتے رہے اور موصی تھے۔‘‘