مکرم محمد اعظم طاہر صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مارچ 2010ء میں مکرم محمد اعظم طاہر صاحب شہید احمدیت کا ذکرخیر اُن کے چھوٹے بھائی مکرم محمد ایوب صابر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ مرحوم کی شہادت کا ذکر قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 15جون 2012ء کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ شہید مرحوم بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ مقامی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد ربوہ طبیہ کالج اور بہاولپور طبیہ کالج میں حکمت کی تعلیم حاصل کی۔ حکمت کی ڈگری لینے کے بعد کوشش کرکے اوچ شریف میں فری طبی ڈسپنسری قائم کروائی اور وہاں کا پہلا معالج مقرر ہوئے۔ فنڈز ختم ہونے کی وجہ سے یہ ڈسپنسری بند کر دی گئی تو مرحوم نے شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان سے دو سال کا ٹیکنیشن کا کورس کیا اور پھر مختلف دیہی ہیلتھ سینٹروں میں 24 سال تک کام کرتے رہے۔ اکثر علاقے انتہائی پسماندہ ، غریب اور چھوٹی موٹی برائیوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن مرحوم کے اخلاق اور کردار کی وجہ سے وہاں کے لوگ آپ کے گرویدہ ہوگئے۔اپنے گھروں کے مسئلے اور مشورے تک آپ سے کرتے حتیٰ کہ الیکشن کے دنوںمیں پوچھتے کہ کس کو ووٹ دیں۔ غرض جہاں بھی رہے محبت کرنے والوں کا ایک حلقۂ احباب بناتے گئے۔
ہمارا ایک بھائی پیدا ہوا جو کچھ دن بعد فوت ہو گیا اس کا نام ’’محمد محسن‘‘ رکھا گیا تھا۔ بھائی اعظم کی جب شادی ہوئی تو آپ نے اپنے پہلے بیٹے کا نام بھی محمد محسن رکھا۔ خاندان میں سے بعض عورتوں نے یہ نام رکھنے سے روکا لیکن مرحوم نے اللہ پہ توکل کرکے یہ نام رکھا۔ خدا کی قدرت کہ ان کا یہ بیٹا بھی کچھ دن بعد بیمارہو کر فوت ہو گیا۔ آپ نے پھر اپنے دوسرے بیٹے کا نام بھی محسن رکھا اور کہا کہ چاہے کچھ ہوجائے میںیہ نام ضرور رکھوں گا۔ اب اللہ کے فضل سے وقف نو کی تحریک میں شامل یہ بیٹا چارسالہ ہومیوپیتھک کا کورس مکمل کرنے کے بعد ایم ایس سی سائیکالوجی کر رہاہے۔
خدمت دین کو ایک فضل الٰہی جانتے ہوئے ہمہ وقت سرگرداں رہتے۔ وقار عمل ہوتا تو خود بھی خوب کام کرتے اور ہم سے بھی کراتے۔ پرانی مسجد بیت الحمد (اوچ شریف) کی تعمیر کے وقت بنیادوں کی کھدائی اور ملبے کو وہاں سے ہٹانے کا کام بخوبی سرانجام دیا۔
مرحوم نماز باجماعت کی ہرممکن پابندی کرتے اور دوسروں کی بھی نگرانی کرتے۔ سیکرٹری مال کے فرائض سرانجام د ے رہے تھے اور جماعتی چندہ کی خاص طور پر احتیاط کرتے کہ کہیں ناجائز خرچ نہ ہو اور اگر کوئی بل زیادہ محسوس کرتے تو وضاحت طلب کرتے کہ کس وجہ سے یہ خرچ زیادہ ہوا ہے۔ شہادت سے دو دن قبل خاکسار والد صاحب کو علاج کے لئے بہاولپور لے جارہا تھا تو مرحوم نے اپنے بیٹے کو ساتھ بھیجا تاکہ امیر صاحب کو چندہ جمع کروادے۔
مرحوم مشورہ دیتے وقت ہمیشہ صحیح حقائق پیش کرتے۔ عاملہ میں بھی اپنا مشورہ دیتے اور اگر اکثریت قبول نہ کرتی تو اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے۔
مرحوم خوبصورتی اور خوب سیرتی کا اعلیٰ امتزاج تھے۔ خوش لباس، خوش خوراک اور خوش گفتار طبیعت تھی۔ آپ نڈر اور دلیر تھے۔ دیہی علاقوں میں رہے راتوں کو لوگوں کے علاج کے لئے بے باک ہوکر چلے جاتے۔ گرمیوں کی ایک رات ڈاکو آپ کے گھر آئے تو مرحوم نے فوراً اپنا لحاف لے کر ایک ڈاکو پر چھلانگ لگا دی۔ ڈاکو اچانک گھبرا گئے اور باہربھاگے تو آپ نے بھی باہر تک ان کا پیچھا کیا حالانکہ ان کے پاس اسلحہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور سب محفوظ رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں