مکرم محمد انور سراء صاحب شہید (خادم مسجد بیت النور لاہور)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جولائی 2010ء میں مکرم محمد فہیم ملک صاحب ایڈووکیٹ نے 28مئی کے سانحہ میں شہادت کی سعادت پانے والے مسجد بیت النور لاہور کے خادم مکرم محمد انور سراء صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مسجد بیت النور میں داخل ہونے والے دہشتگردوں کے لئے مکرم محمد انور صاحب پہلی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ انہوں نے ایک دہشتگرد کو بیت النور میں داخلے کے وقت زخمی کیا۔ چونکہ اس کے لئے انہیں اپنی پناہ گاہ سے باہر آنا پڑا اس لئے ایک دوسرے دہشتگرد نے انہیں اپنی گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔
مکرم محمد انور شہید خلافت احمدیہ اور جماعت سے بے حد محبت کرنے والا انسان تھا۔ رمضان کے ایام میں معتکفین کی ہر خدمت کے لئے تیار رہتا۔ تہجد گزار، نمازو روزہ کا پابند تھا۔ ہر احمدی کا احترام کر تا تھا۔ مسجد بیت النور کو صاف ستھرا رکھنا پسند کرتا تھا۔ اپنی ڈیوٹی کے علاوہ جو احمدی بہن بھائی اسے کوئی کام کہتے، کبھی ہم نے اُسے ’نہ‘ کہتے نہیں سنا۔ ہر احمدی جو مسجد کسی کام سے آیا وہ اس کے اخلاق کا گرویدہ ہو کر گیا۔
مکرم محمد انور شہید نے ایک بار خاکسار کو بتایا کہ جب وہ فوج میں تھا تو ایک دفعہ اس کا پاؤں ایک بارودی مائین پر آ گیا جس کی وجہ سے اس کا بوٹ اتر گیا مگر پاؤں بالکل محفوظ رہا۔ دوسری دفعہ جب وہ ڈیوٹی پر تھا اور اس کے چند ساتھی بھی اس کے ساتھ تھے آسمانی بجلی گری۔ اس کے ساتھیوں کا نقصان ہوا مگر یہ بالکل محفوظ رہا۔ وہ کہتا تھا کہ میرے ساتھی کہا کرتے تھے کہ یہ عجیب آدمی ہے اس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ آج میں سوچتا ہوں کہ خداوند کریم نے اسے 28 مئی 2010ء کا ہیرو بنانے کے لئے زندہ رکھا ہوا تھا۔
شہید مرحوم کے بوڑھے والد جب بھی اس کے پاس آتے مَیں نے ہمیشہ ان کا بہت ادب اور احترام کرتے ہوئے دیکھا۔
محمد انور شہید کا بڑا بیٹا عطاء الحیٔ جو 28 مئی 2010ء کو ڈیوٹی دے رہا تھا، وہ بھی فائرنگ سے زخمی ہوا۔ اللہ تعالیٰ اُسے لمبی زندگی عطا کرے۔