مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 اپریل 2012ء میں مکرمہ ر۔امجد صاحبہ اپنے والد محترم مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب کا اختصار سے ذکرخیر کرتی ہیں۔
مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب دسمبر 1924ء میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ ابتدائی تعلیم شیخوپورہ سے حاصل کی اور 1942ء میں فوج میں بھرتی ہوگئے۔ 1943ء میں جب محاذِ جنگ پر جانے کا حکم ملا تو روانگی سے پہلے ایک دن کی رخصت لے کر قادیان پہنچے۔ جلسہ سالانہ کے ایّام تھے۔ آپ کے پوچھنے پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ انفرادی ملاقاتیں نہیں ہوسکتیں۔ آپ نے بہت منت سماجت کی مگر وہ نہ مانے۔ تب آپ دفتر سے الگ ایک کونے میں جاکر نصف گھنٹہ دعا کرتے رہے اور پھر دوبارہ سیکرٹری صاحب سے کہا کہ میں فوج سے بڑی مشکل سے چوبیس گھنٹے کی رخصت لے کر آیا ہوں … لیکن جواب وہی ملا کہ انفرادی ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس پر آپ خاموشی سے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں اوپر سے حضورؓ کا فون آگیاکہ جو ملاقاتی سیڑھیوں پر کھڑا ہے اُسے اوپر بھیج دو۔
یہ ملاقات واقعی ایک معجزہ تھا۔ آپ دو زانو ہو کر حضورؓ کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بہت روئے اور بصد مشکل یہ کہہ سکے کہ حضور میں محاذ پر جا رہا ہوں، میری سلامتی کی دعا کریں۔ حضورؓ کی دعا کی قبولیت کا اعجاز اُسی روز سے شروع ہوگیا۔ چنانچہ واپس آکر جب محاذ پر جا رہے تھے تو رستہ میں ہی علم ہوا کہ جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جب کلکتہ پہنچے تو جاپان نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور جنگ ختم ہوگئی۔
حضورؓ کی سلامتی کی دعا پھر ساری زندگی آپ کے ساتھ رہی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں جب سابق فوجیوں کو بلوایا گیا تو آپ بھی حاضر ہوگئے۔ لیکن دونوں مرتبہ یہی ہوا کہ محاذ کی طرف جاتے ہوئے جب رسالپور تک پہنچے تو جنگ ختم ہونے کا اعلان ہوگیا۔
1947ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر حفاظتِ مرکز کے لئے بھی حاضر ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں ڈیوٹی دینے کی سعادت پائی۔ 1949ء میں محمد آباد سٹیٹ (سندھ) میں بطور ٹریکٹر مکینک ملازمت مل گئی۔ وہاں حضرت مصلح موعودؓ کی تشریف آوری کے مواقع پر حضورؓ کو دبانے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ لیکن سانس کی تکلیف ہوجانے کے باعث ڈاکٹروں کے مشورے پر پھر پنجاب آنا پڑا۔ سندھ میں پانچ سال رہے۔
پھر تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں سرکاری ملازمت مل گئی۔ کئی مقامات پر تعینات رہے۔ شدید مخالفت میں بھی آپ نے کبھی اپنے احمدی ہونے کو نہیں چھپایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حفاظت کی اور دشمن ناکام رہے۔ آپ کی عادت تھی کہ جب بھی وقت ملتا تو نوافل ادا کرتے۔ خدمت دین میں ہمیشہ سرگرم رہے۔ لیّہ میں 9سال تک سیکرٹری مال رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ آغازِ خلافت میں دو سال لیّہ کے علاقہ میں شکار کھیلنے تشریف لے جاتے رہے تو آپ کو بھی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ضلع مظفرگڑھ میں قائمقام قائد ضلع خدام الاحمدیہ اور قائمقام امیر ضلع کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کیں۔ 1970ء میں قائد آباد (ضلع سرگودھا) میں تبادلہ ہو گیا۔ یہاں سیکرٹری مال اور امام الصلوٰۃ کے فرائض ادا کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سرگودھا میں رہائش پذیر ہو ئے اور محترم مرزا عبدالحق صاحب کی صحبت میں وقت گزارا۔ جماعت کے مختلف شعبوں کے علاوہ زعیم انصاراللہ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 1998ء سے ربوہ میں رہائش اختیار کرلی اور یہاں بھی اپنے محلہ کے بارہ سال تک سیکرٹری تحریک جدید اور دو سال قائمقام صدر بھی رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب دَورِاوّل کے مجاہدین کے کھاتے ازسرنَو جاری کرنے کا ارشاد ورثاء فرمایا تو آپ نے پہلے اپنے بھائی محترم منشی محمد نذیر صاحب کا 1934ء تا 2034ء تک کا چندہ ادا کیا اور پھر دیگر احباب کو تلقین شروع کی۔ آپ خود بھی تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے آنے والی ہر تحریک میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ موصی بھی تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بے حد خیال رکھنے والے، منکسرالمزاج، صلہ رحمی کرنے والے، ملنسار، مہمان نواز اور خلافت سے بے پناہ محبت کا جذبہ رکھنے والے تھے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ تمام زندگی خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ایسا سلوک رہا ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کی انگلی پکڑ کر چلاتا ہے۔ آپ نے ’’کاروان حیات‘‘ کے نام سے اپنے حالاتِ زندگی مرتّب کئے ہیں جن کے آخر میں یہ نصیحت کی: ’’اے میرے عزیزو! خلیفہ وقت سے دلی وابستگی جاں نثاری ہر دکھ درد کا مداوا بن جاتی ہے۔ اے میرے پیارو! خلافت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا اسی میں تمہاری فلاح اور اسی میں تمہاری دین و دنیا کی بے پناہ دولت کا راز ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ بے حد شوق سے کرتے، انہیں بہت سنبھال کر رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتے۔ آپ ایک بھرپور زندگی گزار کر 18ستمبر 2011ء کو نماز فجر ادا کرنے کے بعد بعمر 86 سال اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔