مکرم برگیڈیئر (ر) محمد وقیع الزمان خان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 جولائی 2012ء میں مکرم کیپٹن (ریٹائرڈ) ماجد احمد خان صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم محمد وقیع الزمان خان صاحب کا مختصر ذکرخیر شاملِ اشاعت ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے ابّا کی قبر کے سرہانے پر لگے کتبے پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کا ارشاد تحریر ہے کہ: ’’جب مَیں انگلستان آیا ہوں تو میرے ساتھ جو دو شخص جماعت کی طرف سے نمائندہ تھے ان میں ایک برگیڈیئر وقیع الزمان صاحب تھے۔ اتنا مَیں جانتا ہوں کہ بڑے فدائی انسان تھے ، بہت ہی بزرگ والد، خوش نصیب ہیں وہ بچے اور خوش نصیب ہے وہ بیوی جن کو وقیع الزمان نصیب ہوئے‘‘۔
ابّا کی پیدائش 1922ء کی تھی۔ ہمارے دادا خان رفیع الزمان خان قائم گنج (اُتّرپردیش) کے رہنے والے تھے۔ اپنے قصبہ میں واحد احمدی شدید مخالفت کے باعث چھ سالہ وقیع الزمان کو لے کر کراچی آکر آباد ہوگئے اور یہیں 1965ء میں وفات پائی۔
ابّا نے زیادہ تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ دورانِ تعلیم حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تحریک پر فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے۔ تعلیم چونکہ ایک عام سپاہی کی نسبت کہیں زیادہ تھی اس لئے جلد ہی اپنے افسروں کی نظروں میں آگئے۔ ایک انگریز افسر نے جوہر کو پہچان لیا۔ اسی کے کہنے پر انڈین آرمی میں بطور افسر کمیشن کے لئے درخواست دی۔ سلیکشن اور ٹریننگ کے بعد 1943ء میں کمیشن حاصل کیا۔ ابّا غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک فوجی افسر تھے۔ نڈر سپاہی، دلوں پر حکومت کرنے والا کمانڈر اور بہترین مقرر، ابّاکی وفات پر بیشمار لوگوں نے تعزیت کے خطوط لکھے۔ اس وقت کے گورنر سرحد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف بنگش نے خاکسار کو لکھا:
I can say with confidence that not only he was the best commanding officer I served with, he was also one of the best person I was ever associated with. A man with big heart and sharp mind. I have learnt so much from him; in fact what I am today is due to him.
فوج کی سروس کی آخری اسائنمنٹ بطور لاگ ایریا کمانڈر لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس 1974ء کو آرگنائز کرنا تھا جو نہایت احسن طریقے سے انجام پائی۔ خداداد صلاحیتوں کے مالک فوجی افسر ہونے کے باوجود 1971ء میں میجر جنرل کے عہدہ پر ترقی سے روک لیا گیا۔ ناعاقبت اندیش لوگوں نے یہ کہہ کر محروم کردیا کہ احمدی ہے۔ یہ غالباً اپریل 1971ء کا واقعہ ہے۔ پاک بھارت سرحد پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ ترقی نہ ملنے پر فوج کی اچھی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا استعفیٰ تحریر کیا لیکن پھر مجھے کہنے لگے کہ ملک اور قوم پر کڑا وقت ہے ایسے میں فوج کو چھوڑنا مناسب نہیں اس کا میرے پر قرض ہے اس لئے مَیں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اپنے سے جونیئر کمانڈر کے ماتحت کے طور پر بھی سروس جاری رکھوں گا۔ یہ ایک بہادر احمدی افسر کا جواب تھا اُن کو جنہوں نے اسے ترقی کے قابل نہیں سمجھا۔
1984ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے موقع پر پلاننگ کے تمام امور میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مجھے کہتے تھے کہ یہ میری 30 سالہ سپاہیانہ زندگی کا نچوڑ ہے۔ میرا ایمان ہے کہ خدا نے مجھے صرف اسی مقصد کے لئے فوج میں بھیجا تھا۔
اپنے بچوں کی تربیت پر خاص نظر رکھتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور دعا مانگنے کے طریق کے بارہ میں ایک بیٹی کو خط میں لکھا: ’’تمام رشتے بالواسطہ اور عارضی ہوتے ہیں۔ صرف ایک خدا اور بندے کا رشتہ ہے جو حقیقی ہے۔ وہ تمہارا مالک اور تم اس کی ذاتی ملکیت ہو۔ اس کا تم پر لامحدود حق ہے۔ سب سے اوّل مانگنے کی چیز اس کی رضا ہے۔ جہاں تک دنیاوی نعمتوں کا تعلق ہے اس سے عرض کرو کہ وہ سب کچھ دے جو اس کو تمہارے لئے پسند ہو۔‘‘
تربیت کے حوالہ سے اکثر بڑے ہی لطیف انداز میں سبق پڑھا دیا کرتے تھے۔ اپنے دامادوں اور بہو سے بہت پیار کرتے۔ بیٹی سے کہتے کہ اپنے خاوند کا کھانے پر انتظار کیا کرو اور میری بیوی کو کہتے کہ کھانا کھالو اور ماجد کے لئے رکھ دو۔ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو بچپن میں کہا کرتے تھے کہ امتحان میں کبھی نقل نہ کرنا۔ جب اَور بچے نقل کر رہے ہوں تو تم صرف اللہ سے مدد مانگنا، اللہ جب دیکھے گا کہ یہ بچی میرے سے مدد مانگ رہی ہے اور باقی نقل کر رہے ہیں تو وہ ضرور کامیاب کرے گا۔ اس بیٹی نے بعد میں B.Sc. اور M.Sc. میں ٹاپ کیا اور یونیورسٹی سے میڈل حاصل کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر ہمیشہ آواز بھرّا جاتی اور آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات میں اپنے محبوب کا ذکر لے آیا کرتے تھے۔ کدّو کی سبزی بالکل پسند نہیں تھی لیکن جب بھی کھانے کی میز پر کدّو آتا تو یہ کہہ کر پلیٹ میں ڈالتے کہ یہ میرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یوں تو ہر لمحہ ڈوبا ہوا لگتا ہے لیکن رمضان کے مہینہ میں تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ اہل ذوق تھے اور رمضان کے مہینہ میں کئی دفعہ نعت کہتے۔
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق کی وجہ سے ہماری امّی کو اپنے گھر کا تبرّک کہا کرتے۔ ایک دفعہ لنڈے کے کپڑے استعمال ہونے پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ مَیں تو استعمال کرسکتا ہوں لیکن تمہاری امّی حضرت مسیح موعودؑ کی پوتی ہے اُنہیں استعمال نہیں کرنے دوں گا۔
خلافت سے بے پناہ عقیدت تھی۔ ہر مشکل میں سب سے پہلے خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے لکھتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کا امتحان دے کر ٹرین سے واپس آرہا تھا۔ ایک پیپر اچھا نہیں ہوا تھا۔ خیال تھا کہ فیل نہ ہوجاؤں۔ پریشانی کے عالم میں ٹرین میں ہی بیٹھے بیٹھے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو خط لکھا۔ لفافے میں بند کیا اور چلتی ٹرین سے کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ کہتے تھے کہ نہ صرف مَیں امتحان میں پاس ہوگیا بلکہ اس پیپر میں ٹاپ بھی کیا۔ کہا کرتے تھے ہرمشکل وقت میں خلیفۂ وقت کو خط لکھ دیا کرو۔ پہنچے یا نہ پہنچے ، اللہ نے اس تعلق میں برکت رکھی ہوئی ہے۔ وہ اسی برکت کی وجہ سے مشکل دُور کردیتا ہے۔
1985ء کے جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اہل پاکستان کے لئے خصوصاً ایک دردانگیز نظم عنایت فرمائی جو کہ جلسہ کے موقع پر پڑھی گئی:
دیار مغرب سے جانے والو، دیار مشرق کے باسیوں کو
اک غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا
اس نظم کی بازگشت میں ابّا نے حضورؒ کی خدمت میں نظم بھجوائی جسے حضورؒ نے بے حد پسند فرمایا اور ابّا کو لکھا: میری نظم کے جواب میں جو تمام نظمیں لکھی گئیں ان میں آپ کی نظم کو ایک خاص مقام ہے:
جو حال پوچھیں وہ زخمِ دل کا ، یہی بتانا کہ مندمل ہے
دوائے دل بن کے خود جو آتے ہو دل میں صبح و شام کہنا
ہمارے خوابوں کا سارا مضموں تمہارا آنا تمہارا جانا
کہ جیسے ساون کے بادلوں میں رواں ہو ماہِ تمام کہنا
کسی سے کچھ مانگتے ہوئے سخت گھبراتے تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کاروبار کیا اور نقصان اٹھایا۔ جب بہت مشکل وقت آن پڑتا تو مجھے علیحدگی میں بلاکر کہتے کہ کچھ قرض چاہئے۔ پیسے آئے تو لَوٹادوں گا۔ میرے اصرار کے باوجود قرض کے علاوہ کبھی ایک پیسہ لینا بھی قبول نہیں کیا۔ ایک د فعہ جب مَیں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے: میرے لئے یہ راستہ بھی بند نہ کرو۔ اگر قرض دو گے تو لوں گا ویسے نہیں۔
اسی تربیت کا اثر ہم بھائی بہنوں پر کچھ یوں ہوا کہ ہم نے ابّا سے کبھی کسی قسم کی کوئی فرمائش نہیں کی۔ ہم سے کہا کرتے تھے کہ بچے اپنے ماں باپ سے فرمائش کرتے ہیں، تم بھی کیا کرو۔ میرا بڑا دل کرتا ہے کہ تم مجھ سے فرمائش کرو اور مَیں پوری کروں۔
دوسری طرف دینے والا ہاتھ بہت کھلا تھا۔ کاروبار میں نقصان کے باعث مشکل میں تھے۔کچھ لینا بھی قبول نہ تھا۔ اس کے باوجود گاہے بگاہے بچوں کو ہی دیتے رہتے تھے۔ مجھے ایک Cologneبہت پسند تھا۔ قیمتی ہونے کی وجہ سے مَیں اسے کم ہی استعمال کرتا۔ ایک موقع پر ابّا میرے لئے وہ Cologne تحفہ لے آئے جس کی قیمت ان کی ماہانہ پنشن کے نصف کے برابر تھی جس پر ان کا گزر ہوتا تھا۔ میرے لئے وہ وقت بہت بھاری تھا ۔نہ ہاتھ بڑھانے کے قابل نہ انکار کے۔
ان محبتوں کا ذکر تو بہت لمبا ہے۔ قلم ساتھ نہیں دیتا۔ خیال آگے نکل جاتا ہے۔ آنکھیں دھندلاجاتی ہیں۔ بند ٹوٹ جاتے ہیں۔