مکرم محمد یار صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍مارچ 2008ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے محترم محمد یار صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
محترم میاں محمد یار صاحب ولد میاں شیر محمد صاحب سکنہ سلانوالی 24؍ ستمبر 2007ء کو وفات پاگئے۔ اونچا لمبا قد، بارعب چہرہ، احمدیت کا چلتا پھرتا نمونہ، نہایت صلح جو اور دعوت الی اللہ اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا جس کے لئے سائیکل پر بیس بیس میل کا سفر کرتے۔ بہت سی نیک روحوں کی ہدایت کا باعث بنے۔
روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور بچوں کو بھی پڑھاتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور دیگر دینی کتب کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے۔ صاحب رؤیاو کشوف تھے۔ قبولیت دعا کا فیض حاصل تھا۔ آپ پر اور آپ کی اولاد پر جماعتی کیسز بھی ہوئے لیکن کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے لکھتے اور بے فکر ہوجاتے۔ آپ کے بیٹے عزیز صاحب کا کیس تھا۔ وکیل کا خیال تھا کہ مجسٹریٹ ضمانت نہیں لے گا۔ آپ نے خود مجسٹریٹ کو احمدیت کے عقائد بتائے اور مخالفت کی وجہ بتائی کہ ہمارا جرم بس یہ ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح موعود آچکا ہے۔ مجسٹریٹ نے یہ بات سن کر ضمانت لے لی۔ خدا تعالیٰ کی ہستی پر انتہائی یقین اور توکل تھا۔ کہا کرتے تھے یہ کبھی نہیں ہوتا کہ میں اپنے مولیٰ سے دعا مانگوں اور وہ اسے رد کر دے۔
قبول احمدیت سے قبل آپ پیر منور دین صاحب کے مرید اور شاگرد تھے۔ اُن کی محفل میں امام مہدی کی آمد اور خروج دجال وغیرہ کی باتیں ہوتیں۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال تھی تو پہلی بار آپ کو امام مہدی کی آمد کا علم اس طرح ہوا کہ آپ اناج لینے کے لئے دوسرے قصبہ ٹھٹھہ جوئیہ جانے لگے تو آپ کے والد نے کہا کہ وہ لوگ مرزائی ہوگئے ہیں اس لئے اپنے کام سے کام رکھنا، اُن کی باتیں نہ سننا کہ گمراہ ہوجاؤ۔ لیکن جب یہ وہاں گئے تو وہاں محمد یار صاحب کے پاس حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے اور مولانا عباد اللہ گیانی صاحب اور دو تین علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کے اصرار پر آپ نے اُن کی باتیں سنیں تو سچ معلوم ہوئیں۔ سوالات بھی کئے اور چند کتب لے کر واپس آئے۔ گھر پہنچ کر والد صاحب کو سارا قصہ بتایا کہ آپ تو اُنہیں کافر کہتے تھے لیکن اُن کی تو یہ باتیں ہیں کہ اعلیٰ اخلاق ہیں، پاکیزہ گفتگو ہے، دلنشیں دلائل ہیں۔ قرآن و حدیث سے باہر گفتگو نہیں کرتے۔ اس پر ان کے والد کہنے لگے اسی لئے میں نے تمہیں ان سے ملنے سے منع کیا تھا۔
انہوں نے آپ کو جلسہ سالانہ پر ربوہ آنے کی بھی دعوت دی۔ اِس دعوت کو آپ نے اپنے والد سے چھپایا لیکن اُنہیں کسی طرح علم ہوگیا اور انہوں نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی۔ جب آپ نہ مانے اور کہنے لگے کہ میں مجروں وغیرہ پر چلا جاتا ہوں اگر ربوہ ہوآؤں تو آخر حرج کیا ہے؟ آپ کا اصرار دیکھ کر آپ کے والد کہنے لگے: اچھا! پھر تم نہ جاؤ تمہاری عمر کم ہے میں جاتا ہوں۔ چنانچہ آپ کے والد ربوہ گئے اور جلسہ سننے اور ماحول دیکھنے کے بعد بیعت کرکے واپس آئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر بھی لے آئے۔ آپ نے دیکھی تو کہا: یہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ بار بار تصویر کو چوما، محبت سے سینے سے لگایا اور بیعت کرلی۔ آپ کے احمدیت قبول کرتے ہی مخالفت کا ایک طوفان اٹھا۔ کاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ گھر جلانے کے لئے مخالفین تیل کے کنستر لے کر آگئے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے جانوں کی بھی حفاظت کی، مکان بھی بچایا اور کاروبار کو بھی خوب ترقی دی۔
آپ کے ایک بیٹے مکرم محمد اسلم شہزاد صاحب معلم وقف جدید ہیں۔