مکرم محمود احمد صاحب بھٹی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20اگست 2009ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب نے اپنے مضمون میں مکرم محمود احمد بھٹی صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔
مکرم محمود احمد صاحب بھٹی ابن مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب بھٹی 29 ستمبر 2008ء کو ایک حادثہ میں وفات پا گئے۔ آپ ایک مثالی خادم تھے۔ 2000ء میں خاکسار کی تقرری چک نمبر166 مراد ضلع بہاولنگر میں ہوئی تو آپ سے تعارف ہوا۔ پھر آٹھ سال تک آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو آپ کی خوبیاں آشکار ہوئیں۔ باوجود دیہات میں رہنے کے اردو میں آپ کی گفتگو بہت متأثرکُن تھی۔ خدام الاحمدیہ میں بہت سی خدمات انجام دینے کی آپ کو توفیق ملی۔ بوقت وفات نائب قائد ضلع بہاولنگر تھے۔ نیز ضلعی مجلس عاملہ کے بھی فعال رکن اور سیکرٹری نومبایعین تھے۔ جس جگہ بھی آپ کو خدمت کا موقع ملتا اُس شعبہ میں نمایاں ترقی دیکھنے کو ملتی۔ ضلعی اجتماعات اپنے ہاں منعقد کرواتے۔ بڑے اَنتھک وجود تھے۔
مکرم محمود بھٹی صاحب صوم و صلوٰۃ کے بچپن سے پابند تھے۔ اذان سنتے ہی مسجد کا رُخ کرتے اور راستہ میں ملنے والوں کو بھی نماز کی یاددہانی کرواتے۔ قیام اللیل کے عادی تھے۔ نماز بہت سنوار کر پڑھتے۔ قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں خوش مزاجی ودیعت کی تھی، غصہ میں آپ کو کبھی نہ دیکھا۔ کبھی غصہ کیا بھی تو ساتھ ہی مسکرا دیا۔ بیماروں کا علاج کرانا، ادویات خرید کردینا، مریضوں کی عیادت کرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ غرباء کا خیال دل میں تازہ رہتا۔ اس میں اپنے بیگانے کا کوئی فرق نہ کرتے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے ۔
آپ جماعتی کاموں کو اوّلیت دیتے تھے۔ اجلاس میں سب سے پہلے اور بروقت تشریف لاتے اور انتظامات میں نہایت درجہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ شامل رہتے۔ نومبایعین کو جماعت میں مدغم کرنے کے لئے تربیتی کلاسیں اور اجلاسات کرتے اور زیارتِ مرکز کے پروگرام بھی رکھتے۔
مکرم محمود احمد صاحب بھٹی نڈر اور پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ حلقۂ احباب خاصا وسیع تھا۔ جب گھر سے نکلتے تو اس بات کی نیت کر لیتے کہ آج اتنے احباب تک پیغام حق پہنچانا ہے اور اس ٹارگٹ کو پورا کرکے واپس لوٹتے۔ تبلیغی پروگراموں کے لئے اپنا ذاتی CD پلیئر اور CDs مہیا کیا کرتے تھے۔ آپ کی محنت، لگن اور دعاؤں سے درجنوں افراد نے ہدایت پائی۔
29ستمبر 2008ء کو گاڑی کا ٹائر پھٹ جانے کے نتیجہ میں ہونے والے حادثہ میں آپ موقع پر ہی وفات پاگئے۔ آپ کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں احمدیوں کے علاوہ غیرازجماعت بھی شامل ہوئے۔ بوجہ موصی ہونے کے تدفین ربوہ کے عام قبرستان میں امانتاً کی گئی۔ آپ کی عمر 36سال تھی۔ مرحوم کے پسماندگان میں ضعیف والد کے علاوہ اہلیہ، تین بیٹیاں اور ایک واقف نو بیٹا شامل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں