مکرم مظفر احمد باجوہ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اگست 2003ء میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب اپنے بھائی مکرم مظفر احمد باجوہ صاحب ایڈووکیٹ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 3؍فروری 1956ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چونڈہ سے حاصل کی۔ پھر سیالکوٹ سے گریجوایشن کرنے کے بعد 1980ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔ بی اور پھر یہیں سے پولیٹیکل سائنس میں ایم۔اے کیا۔ پھر کچھ عرصہ گورنمنٹ سروس کی لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر سیالکوٹ میں وکالت شروع کردی ۔ایک سال بعد پسرور منتقل ہوگئے اور پھر وفات تک یہیں رہے۔ 1983ء میں آپ کی شادی مکرمہ نصرت چودھری صاحبہ بنت مکرم غلام احمد چٹھہ صاحب سے ہوئی۔ آپ کے دو بیٹے ہیں۔
آپ شروع ہی سے خدمت دین میں پیش پیش تھے۔ خدام الاحمدیہ کے قائد کے علاوہ چونڈہ میں پہلے جماعت کے قائمقام صدر اور امیر حلقہ کے طور پر اور 1995ء سے تا وفات منتخب ہوکر انہی عہدوں پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔
نہایت ایمانداری سے وکالت کا پیشہ اپنایا۔ غرباء کی مفت قانونی مدد بھی کرتے۔ پسرور بار نے آپ کی نیکی کی وجہ سے آپ کو فنانس سیکرٹری بنایا، پھر جنرل سیکرٹری بھی منتخب کیا۔ چونڈہ کے کئی مخالف احمدیت لوگ بھی آپ ہی کو وکیل کرتے تھے۔ عدالت کئی متنازعہ معاملات میں آپ کو کمیشن مقرر کرتی رہی اور آپ کا فیصلہ ہی جج صاحبان فائنل کردیتے۔ آپ کی وفات پر پسرور بار نے ایک روز کے لئے عدالتی امور سرانجام نہیں دیئے۔ عدالت میں آپ کی نیکی اور شرافت کا تذکرہ کئی وکلاء نے کیا ۔ کئی غرباء آپ کی وفات کا سن کر عدالت میں روتے رہے۔
آپ کو دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ نوجوانوں کے لئے دعوت الی اللہ کی کلاس بھی لگاتے رہے۔ ہر مالی تحریک میں شامل ہوتے۔
…………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ستمبر میں محترم مظفر احمد صاحب باجوہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم شاہد باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم میں احمدیت کی تعلیم کا رنگ نمایاں تھا۔ عملی انسان تھے، خدمت دین اور خدمت خلق میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے۔ جب بھی کوئی کیس ہوتا تو فیس کی بات نہ کرتے ، کیس لے لیتے اور مؤکل جو دیتا وہ رکھ لیتے۔ پسرور بار کی طرف سے آپ ہیومن رائٹس کمیٹی پاکستان کے واحد ممبر تھے۔ کسی کی دلشکنی سے بچتے تھے لیکن دینی غیرت بھی بہت تھی۔ اور عدالت میں دلیری سے مؤقف بیان کرتے تھے۔ دفتر میں اخبار الفضل لگوایا ہوا تھا۔