مکرم مولانا بشیر احمد صاحب مبشر دہلوی
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 30؍مارچ 2000ء میں محترم مولانا بشیر احمد صاحب فاضل دہلوی کا ذکر خیر مکرم مولانا حکیم محمد دین صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
تقسیم ہند کے بعد محترم مولانا بشیر احمد دہلوی صاحب مبلغ انچارج دہلی مقرر ہوئے۔ 1947ء میں قادیان میں جلسہ سالانہ مقامی طور پر ہی منعقد ہوا جبکہ 1948ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے بعض دیگر جماعتوں سے 68؍احباب شامل ہوئے جو محترم مولانا دہلوی صاحب اور مضمون نگار کی کوششوں سے پولیس کی حفاظت میں قادیان آکر جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ 1949ء میں یہ تعداد 148؍ہوگئی۔ محترم مولانا دہلوی صاحب چونکہ دہلی میں متعین تھے اس لئے حکومت اور قادیان کے درمیان رابطہ کرنے کرانے میں بہت ممدومعاون ہوا کرتے تھے۔ جلد ہی حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر پرانے مبلغین کے ساتھ بغرض تربیت نئے دیہاتی مبلغین کو لگادیا گیا اور ہندوستانی جماعتوں کو ازسرنو فعال بنانے کا کام جاری ہوگیا۔ تیزی سے دورہ جات ہونے لگے جن میں مبلغین تقاریر کرتے، غیرمسلموں کو احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موضوع بالعموم محترم دہلوی صاحب کے لئے مختص رہتا تھا۔ کسی بھی تقریب میں شامل غیرمسلم آپ کی تقریر کے منتظر رہتے تھے۔ ایک بار اڑیسہ میں ایک مذہبی تنظیم نے یوم پیشوایان مذاہب کی طرز پر ایک جلسہ منعقد کیا جس میں محترم دہلوی صاحب نے ایسی شاندار تقریر کی کہ غیرمسلموں نے اسے بے حد سراہا۔ آئندہ سال ہونے والی ایسی ہی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت مجھے بھی ملی۔ راستہ میں ہندو یاتریوں کے قافلے مقام جلسہ کی طرف رواں دواں تھے۔ جب بھی ایسے قافلوں سے میرا سامنا ہوتا تو میرا حلیہ دیکھ کر وہ مجھے مولوی صاحب سمجھتے اور پھر ’’مولانا بشیر احمد کی جئے‘‘ کے نعرے لگاتے اور عقیدت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کے لئے آتے رہے۔
محترم مولانا صاحب مولوی فاضل ہونے کے علاوہ ہندی اور سنسکرت کے عالم تھے اور اُنہیں بہت سے لوگ تعظیماً ’’شاستری جی‘‘ بھی کہا کرتے تھے اور فرمائش کے طور پر اُن سے شلوک سنا کرتے تھے۔ آپ مبلغ انچارج بنگال اور اڑیسہ کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ کلکتہ میں ایک موزوں جگہ پر احمدیہ مسجد اور دارالتبلیغ کی تعمیر آپ کی یادگار ہے۔ آپ ہر سال اپنے علاقہ میں کسی ایک جگہ کا انتخاب کرکے سالانہ تبلیغی کانفرنس کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ جب آپ کو قادیان بلالیا گیا تو پہلے مدرسہ احمدیہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے، پھر مختلف نظارتوں میں مختلف ڈیوٹیاں بجالاتے رہے اور ساتھ ساتھ ہندی ترجمہ کا کام بھی مختلف مراحل سے گزر کر آپ کے سپرد ہوگیا اور آپ نے ہی اسے مکمل کرنے کی توفیق پائی۔
اپنی بیوی کی وفات کے بعد آپ لندن منتقل ہوگئے اور یہیں 11؍جنوری 2000ء کو تقریباً 81 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 13؍جنوری کو مسجد فضل لندن کے احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی۔