مکرم مولانا مقبول احمد صاحب قریشی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جولائی 2008ء میں مکرمہ م۔ ن صاحبہ اپنے بھائی مکرم مولانا مقبول احمد قریشی صاحب کا ذکرخیر کرتی ہیں۔
مکرم مقبول احمد قریشی صاحب ابن حضرت محمد اسمٰعیل صاحب معتبرؓ 30 جون 1922ء کو پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی بہت ہونہار، حلیم الطبع اور منکسرالمزاج تھے۔ اپنے والد کی خواہش پر جولائی 1946ء میں زندگی وقف کردی۔ والد چونکہ سرکاری ملازمت کی وجہ سے مختلف مقامات پر تبدیل ہوتے رہتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے بچوں (چار بیٹوں اور چار بیٹیوں) کو قادیان میں مکان بنوادیا۔ مکرم مقبول قریشی صاحب نے بڑا بھائی ہونے کے ناطے سب کی تعلیم و تربیت اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا۔ ویسے بھی ہر ایک کی مدد کرنے کی کوشش کرتے۔ بہت سادہ مگر صاف ستھری زندگی بسر کی۔ بہت قانع تھے۔ ضعیف العمر ہونے کے باوجود کسی پر بوجھ بننا پسند نہیں کیا۔ اپنی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھتے اور حسن اخلاق سے دوسروں کا دل موہ لیتے تھے۔
آپ نے مولوی فاضل کرنے کے بعد ایم اے عربی کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آکر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ آپ کو پنجابی، اردو، عربی، انگریزی، فرانسیسی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔
24 جنوری 1948ء کو بطور مبلغ لندن بھیجا گیا جہاں سے 9دسمبر 1951ء کو واپس ربوہ آئے۔ بطور مبلغ انچارج امریکہ بھی خدمت کی، جامعۃالمبشرین ربوہ کے پرنسپل بھی رہے اور لائبریرین بھی۔ جامعہ احمدیہ میں پروفیسر بھی رہے۔ وکالت تبشیر ربوہ میں بھی کچھ عرصہ کام کیا اور غیرملکی طلبا کے ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔ 1960ء میں آئیوری کوسٹ آزاد ہوا تو آپ کو نومبر 1960ء میں وہاں جانے کا ارشاد ہوا۔ آپ نے نائیجیریا، غانا، سینیگال اور گیمبیا میں کئی ماہ آئیوری کوسٹ کے ویزا کے حصول کی کوششوں میں صرف کئے۔ 1961ء کے آخری مہینوں میں ویزا ملنے پر وہاں چلے گئے اور 21 نومبر 1963ء تک وہاں بطور مبلغ خدمت بجالائے۔ یہاں آپ نے ایک مکان کرایہ پر لیا اور فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔ آپ کی واپسی کے وقت مختصر جماعت قائم ہوچکی تھی۔
پیدائشی طور پر آپ کے دل میں سوراخ تھا مگر 85 سال فعال اور نافع الناس زندگی گزاری اور اس عرصہ میں خدمت دین و خدمت خلق کے مواقع بڑی مستعدی سے سرانجام دیئے۔ 24 مئی 2007ء کو وفات پائی۔ بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑے۔