مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر 2013ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31مئی 2010ء میں مکرمہ ن۔لئیق صاحبہ نے اپنے خاوند محترم میاں لئیق احمد صاحب کا ذکر خیر کیا ہے جنہیں مئی 2009ء میں فیصل آباد میں شہید کردیا گیا تھا۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ 29 مئی 2009ء کی شب نو بجے میرا چھوٹا بیٹا گھر آیا۔ اچانک باہر زبردست فائرنگ کی آواز آنے لگی۔ بیٹے نے مجھ سے کہا: امی! ابو کو فون کریں کہ وہ ابھی گھر نہ آئیں کیونکہ جس راستہ سے آنا ہے وہ فائرنگ کی زَد میں ہے اور ابو میرے پیچھے ہی آرہے ہیں۔ فائرنگ کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ مَیں نے گیٹ قدرے کھول کر دیکھا تو تین مسلّح آدمی فائرنگ کرکے بھاگ رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعد ایک ہمسایہ نے بتایا کہ میاں لئیق احمد صاحب کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کافی لوگ جمع ہوگئے مگر اس ہمسایہ کے علاوہ کوئی ہمارا پرسان حال نہ تھا۔ اسی اثناء میں میرا بڑا بیٹا منیب اور دیگر خدام موقع پر پہنچ گئے۔ شدید زخمی حالت میں انہیں الائیڈ ہسپتال پہنچایا گیا۔ تب تک ہوش میں تھے اور زیرلب دعائیں کررہے تھے۔ اگلے روز 30 مئی کو وہ شہید ہوگئے۔
محترم میاں لئیق احمد صاحب 13 جولائی 1957ء کو محترم میاں محمد یعقوب صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو نہایت خلیق، ملنسار اور تقویٰ شعار انسان تھے۔ احمدیت جسم و روح میں رچی بسی ہوئی تھی۔ سالہا سال تک حلقہ پیپلز کالونی میں سیکرٹری مال کی حیثیت سے بڑی جانفشانی اور لگن سے خدمت کرتے رہے۔ ان کے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ میاں لئیق احمد کا چوتھا نمبر تھا۔ آپ کی والدہ محترمہ بھی ایک نیک، خداترس اور دعا گو بزرگ ہیں۔ بیٹے کی قربانی پر کمال صبر کا نمونہ دکھلایا۔ وہ شریف النفس بیٹا جو والدہ سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا اور خدمت گزار تھا، جب داغ مفارقت دے چلا تو والدہ کی زبان پر پُرسوز دعاؤں کے ساتھ یہ الفاظ بھی تھے کہ میں آج بیوہ ہوئی ہوں۔
25 سال کی عمر میں تھے کہ شادی ہوئی۔ رفاقت کے 27 سال میں مَیں نے یہی محسوس کیا کہ
جس قدر نزدیک سے دیکھا اسے
اتنی ہی اس سے محبت ہو گئی
وہ میرا رفیق حیات تو تھا ہی مگر وہ نرم خُو، ہمدرد، شیریں زبان اور دمساز و غمگسار بھی تھا۔ میری ضرورتوں کا اسے خود احساس تھا۔
راہ حق کا یہ مسافر بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔ والدین کی تربیت نے شخصیت کو نکھار دیا ہوا تھا۔ دین سے گہرا لگاؤ تھا۔ عبادت گزار تھا، خود بھی نماز پڑھنے کا عادی اور اپنے بچوں کی نمازوں میں خوب نگرانی کرنے والے تھے۔ مالی قربانی میں بھی کشادہ دل تھے۔ یہ طریق ہمیشہ رہا کہ گھر کے خرچہ سے قبل چندہ جات ادا کرتے۔ جب جلسہ سالانہ یوکے پر جاتے تو بیٹے کو بھی اس کی تاکید کرتے۔ جماعتی ذمہ داریوں کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھانے والے تھے۔ سیکرٹری جائیداد تھے۔ احمدیہ قبرستان فیصل آباد شہر کے انتظامات آپ کے سپرد تھے۔ اس سلسلہ میں کوئی پلاننگ ہوتی۔ اخراجات کا سوال اٹھتا تو محترم امیر صاحب سے بڑی بشاشت سے عرض کرتے کہ آپ صرف اجازت دیں، اخراجات کی فکر نہ کریں۔ اپنے حلقہ کے نگران مقرر ہوئے تو مسجد کی تزئین و آرائش میں کوئی کمی نہ رہنے دی۔ اپنے فرائض کو بڑی حکمت و دانائی سے ادا کیا۔ خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے تھے۔ ذیلی تنظیموں کے تحت میڈیکل کیمپس کا انعقاد ان کے ذمہ تھا۔ ہر ماہ یہ کام روحانی لذّت سے کرتے۔ ادویات کے خرچہ میں بھی حصہ ڈالتے۔ اپنی گاڑی بھی وقف کی ہوئی تھی۔
غریب پروری کا طبیعت میں جوہر تھا۔ غریب بچیوں کی شادی پر خاموشی سے مدد کرتے۔ دوسرے ضرورتمندوں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے۔ رقم دیتے تو واپسی کا مطالبہ خود نہ کرتے۔ آپ کی شہادت کے بعد ایک غیرازجماعت شخص نے روتے ہوئے بتایا کہ ایک موقعہ اُس پر ایسا آیا کہ سگے بھائیوں نے بھی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ میں بڑی پریشانی میں میاں صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے بلاحیل و حجت مجھے مطلوبہ رقم دیدی، یہ بھی نہ پوچھا کہ کب واپس کرو گے؟ جب میں کافی عرصہ کے بعد رقم واپس کرنے آیا تو مسکراتے ہوئے کہا اگر ضرورت ہے تو رقم رکھ لیں۔
امانت و دیانت کا خیال رکھنے والے وجود تھے۔ ایک بار سربازار آپ کو پچاس ہزار روپے کی رقم ملی۔ ایک اور قریبی آدمی بھی وہاں آگیا۔ اُس نے کہا: اسے نصف نصف بانٹ لیں یا کسی مسجد کو دے دیں۔ آپ نے کہا یہ رقم کسی کی امانت ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اُسے بھیج دے گا۔ چنانچہ آپ نے دوسروں کو بھی اُس شخص کی تلاش کی تاکید کی اور خود بھی دعا میں لگ گئے کہ الٰہی! یہ جس کی امانت ہے اسے بھیج دے اور یہ مال میرے واسطے کسی فتنہ کا سبب نہ بنے۔ خداتعالیٰ نے آپ کی سن لی اور کچھ دیر میں شخص شدید گھبرایا ہوا وہاں آگیا۔ آپ نے نشانیاں دریافت کرکے گواہوں کی موجودگی میں اُس کی رقم اُسے لوٹا دی۔
مہمان نوازی کا وصف بھی آپ کی شخصیت و کردار کا نمایاں حصہ تھا۔ جماعتی تقریبات کے لئے اپنا گھر پیش کرنے میں دریغ نہ تھا۔ خاکسار حلقہ کی صدر تھی۔ ہر موقعہ پر راہنمائی کی۔ اگر گھر میں اجلاس ہوتا تو دکان سے فون کرکے تاکید کرتے کہ مہمانوں کا خیال رکھنا ہے۔ گھر آتے تو انتظام کا پوچھتے۔
اُمور خانہ داری میں میرا ہاتھ بٹانے میں عار محسوس نہ کرتے۔ میری دلداری تو ہمیشہ مطمح نظر رہا۔ میرے والدمکرم سعید احمد ناصر صاحب مرحوم (سابق قائد ضلع فیصل آباد) میری شادی سے قبل فوت ہوگئے تھے۔ اس لئے والد کی محبتوں اور چاہتوں سے محرومی کا مجھے احساس تھا۔ لیکن میاں صاحب کے گھرانہ میں جو پیار، محبت اور شفقت ملی اس نے تمام محرومیوں کو فراموش کرادیا۔ آپ ہر ایک سے حسن سلوک کرتے۔ محبت و الفت سے پیش آتے اور اکرام کرتے۔ بچوں کو عید یا دیگر خوشی کی تقریبات میں تحائف دیتے۔اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں ہر امر کو ملحوظ رکھا۔ نمازوں کا پابند کیا۔ چندہ جات کی ادائیگی کی عملاً تربیت دی۔ آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
خلافت سے وفا اور اطاعت کا رشتہ تھا۔ خلفاء کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھنا ان کا معمول تھا۔
مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوی ہوں، آپ کی والدہ کا سر فخر سے بلند ہے کہ وہ ایک شہید کی ماں ہیں۔ خاندان کو فخر ہے کہ ان کے ایک سپوت نے راہ مولیٰ میں اپنی جان کی قربانی پیش کی۔