مکرم میجر ڈاکٹر محمود احمد شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اگست 2006ء میں محترم میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب شہید کے بارہ میں مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔
مکرم میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب مئی 1916ء میں محترم قاضی محمد شریف صاحب (ایگزیکٹو انجینئر محکمہ انہار) کے ہاں پیدا ہوئے۔ حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ آپ کے دادا تھے جو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش کے مطابق امرتسر میں ایک بڑا مکان خرید کر سکونت اختیار کرچکے تھے۔ اُن کے آٹھ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ جس بیٹے کی تبدیلی ایسی جگہ ہوتی جہاں بچوں کی تعلیم مناسب نہ ہوسکتی تو وہ اپنے بچوں کو امرتسر میں چھوڑ جاتے۔ حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحب کی وفات (1928ء) کے بعد اس گھرکا انتظام ڈاکٹر قاضی محمد منیر صاحب امیر جماعت احمدیہ امرتسر کے حصے میں آگیا۔ محمود احمد شہید کا سکول کا زمانہ امرتسر میں ہی گزرا۔ 1933ء میں یہیں سے اپنے دو کزنوں کے ساتھ میٹرک کیا۔ جن میں سے ایک محمود شفقت صاحب بعد ازاں مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے اور دوسرے اختر محمود صاحب انیستھیزیا سپیشلسٹ بنے۔
محمود شہید نے گورنمنٹ کالج لاہور سے F.Sc. کرکے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ وہ کالج کے ہر دلعزیز طالب علموں میں شامل تھے، کالج یونین کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔ کھیلوں میں نمایاں تھے اور باکسنگ کلب کے فعال ممبر تھے۔ اپنے کالج کے لئے کئی انعامات بھی جیتے۔
1941ء میں MBBS کرنے کے بعد انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ سے مستقبل کے بارہ میں مشورہ مانگا اور حضورؓ کے ارشاد پر 1942ء میں انڈین آرمی میڈیکل کورز میں شامل ہوگئے۔ پھر برما کے محاذ پر بھیج دیئے گئے جہاں میجر بنائے گئے۔ جنگ عظیم کے خاتمہ پر 1944ء میں ان کی پوسٹنگ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال کوئٹہ میں بطور ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہوگئی۔ 25؍ نومبر 1945ء کو آپ کی شادی مکرم قاضی محمد حنیف صاحب کی بیٹی بلقیس بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ 1946ء میں فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر آپ نے کوئٹہ میں ہی پرائیویٹ پریکٹس شروع کردی۔
محترم ڈاکٹر محمود احمد صاحب کی شخصیت میں سادگی اور شگفتگی کا جو عنصر تھا۔ اس سے پریکٹس خوب چلنے لگی۔ ہر ضرورت مند کے لئے ان کا دل کھلا تھا۔
قیام پاکستان کے وقت جب قادیان میں رہنے والوں کی طبّی ضروریات پوری کرنے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ڈاکٹروں سے خود کو پیش کرنے کی تحریک کی تو آپ نے بھی لبیک کہا۔ آپ لاہور سے قادیان روانہ ہوئے تو بٹالہ کے نزدیک آپ کی بس پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ ہوا۔ گرنیڈ پھینکنے والا جلدی میں اس کی پن نہ نکال سکا اور خوش قسمتی سے گرنیڈ پھٹنے سے بچ گیا۔
قادیان پہنچے تو وہاں بے سروسامانی کا عالم تھا۔ نور ہسپتال پر ہندو قابض تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی رہائش حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے مکان کے ایک کمرہ میں ہوئی اور اسی گھر کے ایک کمرہ کو کلینک میں تبدیل کردیا گیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت قادیان کے مضافات میں بھی پھیل گئی۔ا ٓپ اولاً 3 ماہ کے لئے گئے تھے۔ لیکن حضورؓ کی خواہش پر آپ قریباً آٹھ ماہ وہاں ٹھہرے اور جون 1948ء میں پاکستان واپس آئے۔ جب حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے بہت پیار کیا اور کڑھائی کیا ہوا اپنا لبادہ بطور تحفہ دیا۔
قادیان سے کوئٹہ آئے ہوئے ابھی دو اڑھائی ماہ ہوئے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مع دیگر افراد خاندان کوئٹہ تشریف لے گئے۔ حضورؓ کی آمد کی خبر پر وہاں شرپسند بھی سرگرم عمل ہوگئے۔ 19؍اگست 1948ء کو ڈاکٹر صاحب کلینک سے گھر آئے تو اپنی بیگم سے کہنے لگے کہ امیر صاحب نے بتایا ہے کہ احمدیہ مسجد سے ملحقہ زمین کا پلاٹ دستیاب ہے جسے مسجد کی توسیع کے لئے حاصل کرنا چاہئے۔ اگر پانچ سو روپے میں سودا طے ہوگیا تو آج ہی ادائیگی کردیں گے۔ پھر آپ نے اپنی بیگم سے اتنی رقم لے کر امیر صاحب کو پہنچائی۔ اُسی شام جب آپ ایک مریض کو دیکھ کر اپنی کار میں ریلوے ہیڈکوارٹر کی گراؤنڈ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں مخالفین جلسہ کررہے ہیں اور ایک لڑکے کو مار رہے ہیں۔ آپ نے گاڑی روک کر مارنے کی وجہ پوچھی تو شرپسندوں نے بتایا کہ یہ قادیانی ہے جو ہماری کارروائی نوٹ کر رہا تھا۔ آپ نے کہا کہ احمدی تو مَیں بھی ہوں۔ اس پر ہجوم نے آپ کا رُخ کیا۔ آپ کار میں بیٹھے تو ایک بڑا سا پتھر آپ کو آکر لگا جس سے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پھر باقاعدہ پتھراؤ شروع ہوگیا جس سے ڈر کر ڈرائیور بھاگ کھڑا ہوا۔ آپ نے پناہ لینے کے لئے قریبی مکانوں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ اتنے میں ایک پتھر آپ کے سر پر لگا تو آپ بیہوش ہوکر گرگئے۔ جس کے بعد آپ کے جسم پر وار کئے گئے۔ جسٹس محمد منیر کی تحقیقاتی رپورٹ 1953ء کے مطابق ’’ان کے جسم پر پتھر اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے ہوئے چھبیس زخم تھے‘‘ اور سارے جسم کا خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ اللہ کوپیارے ہوگئے تھے۔
آپ کی شہادت کی خبر آناً فاناً سارے شہر میں پھیل گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو شدید صدمہ ہوا۔ آپؓ ڈاکٹر محمود کے گھر تشریف لائے۔ اگلے دن صبح نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان جاکر دعا بھی کروائی۔
شہید مرحوم کا اُس وقت ایک بیٹا تھا۔ پانچ ماہ بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت اماں جانؓ کی خواہش پر احمد محمود رکھا گیا۔ شہید مرحوم دس سال تک کوئٹہ میں امانتاً دفن رہے۔ پھر آپ کا جسد خاکی بہشتی مقبرہ ربوہ میں منتقل کیا گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 30؍اپریل 1999ء میں آپ کی شہادت کا ذکر کرکے جسٹس محمد منیر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے چند اقتباسات پڑھے جن میں لکھا تھا: ’’ کوئی شخص اسلامی شجاعت کے اس کارنامے کی نیک نامی لینے پر آمادہ نہ ہوا اور بے شمار عینی شاہدوں میں ایک بھی ایسا نہ نکلا جو ان غازیوں کی نشاندہی کرسکتا یا کرنے کا خواہشمند ہوتا جن سے یہ بہادرانہ فعل صادر ہوا۔ لہٰذا اصل مجرم شناخت نہ کئے جاسکے اور مقدمہ بے سراغ داخل دفتر کردیا گیا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 21 ؍اگست 1948ء کے اُس خطبہ جمعہ کا حوالہ بھی دیا جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے فرمایا تھا:
’’یہ حملہ جو میجر محمود پرکیا گیا ہے، ہے تو اتفاقی حادثہ درحقیقت یہ حملہ احمدیت پر کیا گیا ہے۔ میجر محمود تو وہاں اتفاقاً چلے گئے اگر کوئی اور احمدی ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آتا کیونکہ میجر محمود پرکسی ذاتی عناد کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے … اس واقعہ سے ہمارے اندر جو ردّعمل ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ انہماک اور تندہی سے تبلیغ کی طرف متوجہ ہوں۔ مامورین کی جماعتوں پر ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلموں کے نیچے بڑھتی اور پھولتی ہیں۔ تو اس قسم کے ظلم و تشدد کے واقعات جماعت کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ پر صرف کرنا چاہئے تا صحیح عقائد ان پر واضح ہو جائیں اور احمدیت کی سچائی کھل جائے‘‘۔
شہید مرحوم کی بیگم نے کم عمر ہونے کے باوجود اپنے دونوں بیٹوں کی بہت اچھی پرورش کی۔ ایک بیٹا فوج میں میجر اور دوسرا آرکیٹیکچر بنا۔
شہید مرحوم بہت نمایاں شخصیت کے مالک تھے طبیعت میں شگفتگی، ہر ایک کا دکھ درد بانٹنے والے ایک قابل ڈاکٹر اور نفیس انسان تھے۔ احمدیت، حضرت مسیح موعودؑ سے عقیدت اور خلافت سے وابستگی مثالی تھی۔