مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23جنوری 2012ء میں مکرم نصراللہ بلوچ صاحب اپنے خالہ زاد بھائی اور سسر محترم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 31 جنوری 1934ء کو فیروزپور انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحبؓ کی بیٹی تھیں جبکہ والد حضرت حافظ فتح محمد صاحبؓ کے بیٹے تھے۔ آپ کی پیدائش پر الفضل میں جو اعلان دعا شائع ہوا اس میں آپ کے نافع الناس وجود ہونے کے لئے دعا کی گئی تھی۔ یہ دعا ہر پہلو سے پوری ہوئی۔ آپ اپنی خدمات کی بنیاد پر ایسی پُرکشش اور ہر دلعزیز شخصیت تھے جو احمدیوں اور غیرازجماعت میں یکساں مقبول تھی۔
قیام پاکستان کے بعد آپ ربوہ کے نزدیک احمد نگر میں قیام پذیر ہوئے۔ زمانہ طالبعلمی میں ہی آپ کی شادی خواجہ یوسف بٹ صاحب کارکن بہشتی مقبرہ کی بیٹی رشیدہ بیگم سے ہوگئی جو نہایت نیک سیرت، رحمدل اور خوددار خاتون تھیں۔ باپردہ اور باہمت خاتون تھیں۔
آپ نے سیکرٹری یونین کونسل کے طور پر ملازمت کی لیکن ریٹائرمنٹ تک جماعتی خدمات بھی بجالاتے رہے۔ 35 سال تک قائد خدام الاحمدیہ اور پھر صدر جماعت رہے۔ احمد نگر میں ایک غیرمتنازعہ شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ 1974ء کے فسادات میں بعض فسادیوں نے آپ کے بڑے بیٹے مبشر احمد ظفر کو درمیان میں لاکر فساد پھیلانے کی کوشش کی تو مدبّرانہ طریق سے اپنے ہی بیٹے کو پولیس کے حوالے کر دیا اور فساد پھیلنے سے رُک گیا۔ بہت ذہین اور زیرک انسان تھے۔ خوش لباس تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ ہمیشہ کوشش کرتے کہ میرے کسی فیصلہ سے دوسرے فریق کو دکھ نہ پہنچے۔
بعدازریٹائرمنٹ ربوہ شفٹ ہو گئے اور جماعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ سیاسی لوگوں اور پولیس افسران سے رابطہ چونکہ ملازمت کے دوران ہی تھا اس لئے اس تعلق کو برقرار رکھا۔
آپ نے اپنے بچوں کی احسن طریقے سے تربیت کی۔ ہم 2002ء میں رحمان کالونی ربوہ میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ آپ قریباً ہر دوسرے دن ہمارے ہاں آتے۔ اکثر دفتر عمومی سے فون آجاتا کہ آپ آئیں ایک ضروری مسئلہ ہے اور آپ ہم سے معذرت کرکے فوراً روانہ ہو جاتے۔ بہت ہی زیرک انسان تھے۔ اس لئے بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ اپنے دفتر کے مسائل کو ہم سے شیئر نہ کرتے لیکن ان کے اخلاقی پہلوؤں کے متعلق ضرور بات کرتے۔ 1995ء میں اہلیہ کی وفات ہوئی تو دوسری شادی 2001ء میں کی۔
اپنی وفات سے تین ماہ پہلے ناظر اعلیٰ صاحب کو درخواست دی کہ میں بغیر معاوضہ کے کام کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے منظوری بھی دے دی۔ لیکن پھر جلد ہی بخار میں مبتلا ہوئے جس کے علاج کے دوران جگر پر اثر ہوگیا اور 12 ستمبر 2011ء کو وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 7؍اکتوبر کو بعد نماز جمعہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ میں ذکرخیر فرمایا۔