مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18جنوری 2012ء میں مکرم ناصرالدین بلوچ صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ اپنے چچا مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر کرتے ہیں۔ مرحوم کا ذکرقبل ازیں 7؍اکتوبر 2016ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شاملِ اشاعت ہوچکا ہے۔
محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ) کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک دفعہ شعراء کے پروگرام منعقدہ 15 مارچ 1994ء میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ کا میرے ساتھ اگرچہ طالبعلمی اور استاد کا رشتہ تو نہیں رہا لیکن مجھ سے تعلق بہت گہرا تھا۔ قرآن کریم کے اوپر بھی بہت عبور تو کسی کو نہیں ہوسکتا مگر قرآنی مطالب کو سمجھنے کا شوق بہت تھا۔ ایک عجیب درویش انسان تھے‘‘۔
محترم مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے 31 جنوری 1934ء کو بیٹا عطا فرمایا جس کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ناصر احمد عطا فرمایا۔
محترم ناصر احمد ظفر صاحب نے اپنے بزرگ والد کی غیرمعمولی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کی اہلیہ بھی تہجد گزار، قرآن کریم کی عاشق، کمال صلہ رحمی کرنے والی، غریب پرور اور بزرگ خاتون تھیں۔ یہ دونوں وجود مندرانی بلوچ برادری کی رونق تھے اور ان کا گھر ایک چھوٹی سی جنت تھا۔ دونوں بے حد مہمان نواز تھے۔ مرحوم نے حوصلہ سے اپنے والدین اور مخلص شریک حیات کی وفات کے صدمات برداشت کئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔لیکن آپ اپنی بہوؤں کو بھی بیٹیاں کہتے اور سمجھتے تھے۔ اپنے بچوں کی اولاد کے علاوہ دیگر عزیزوں کی اولاد بھی اُسی طرح آپ کے پیار سے حصہ لیتی۔
جب آپ محض سرکاری ملازم تھے تو تب بھی قناعت سے سرشار ایک سخی وجود تھے اور جب اللہ تعالیٰ کا مزید فضل ہوا ا ور بچے بیرون ملک چلے گئے تو اس سخاوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بلوچ برادری (مندرانی) اور بٹ برادری (آپ کے سسرال) دونوں وسیع خاندان ہیں۔ دونوں طرف سے ہر کسی کی ضرورت محسوس کرکے خاموشی سے اُس کی مدد کرتے۔ یہ سلسلہ زندگی کے آخری ایام میں جب آپ بستر علالت پر تھے اُس وقت بھی جاری رہا۔
آپ اپنے والد محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کی طرح ہر مشکل کو حوصلہ، تحمل اور فراست سے حل کرنے کی کوشش کرتے اور اکثر کہا کرتے کہ نامساعد حالات میں مساعد حالات کے لئے جدوجہد کرنا ہی جوانمردی ہے۔
لوگوں کی دلآزاری کی باتوں کو نظر انداز کرنا اور بشاشتِ قلب سے اُن کی مدد کرنی آپ کا وطیرہ تھا۔ لڑائی جھگڑوں کے معاملات کو کمال فراست اور دانشمندی سے حل کرنا آتا تھا۔ اگر خاندان میں کسی کے گھر میں کوئی رنجش ہو جاتی تو اس کے گھر جاتے اور بڑی اپنائیت سے کہتے کہ صلح کرو گے تو اٹھوں گا ورنہ تمہارا مہمان ہوں۔ پھر یہ نصیحت کر جاتے کہ زندگیوں کا کوئی اعتبار نہیں، گھر بھی نعمت ہوتے ہیں، اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے۔ وفات سے چند ہفتے قبل ہمارے گھر آئے اور میرے والد یعنی اپنے بزرگ نابینا بھائی کو بڑی محبت سے کہنے لگے ’’میں آپ سے معذرت کرنے آیا ہوں کیونکہ مجھے اپنے بھائی کا خیال جیسے رکھنا چاہئے تھا ویسے رکھ نہیں سکا‘‘۔ یہ سراسر آپ کی عاجزی تھی ورنہ آپ نے زندگی کی ہر مشکل میں نہ صرف یہ کہ میرے والد صاحب کا ساتھ دیا بلکہ موقع کی مناسبت سے ہمیشہ دانشمندانہ اور ہمدردانہ مشورہ بھی دیا۔
آپ کو بعداز ریٹائرمنٹ بھی وقف کی طرح دفتر امورعامہ اور دفتر صدر عمومی میں خدمت دین کی توفیق ملی۔ کہیں کوئی واقعہ ہو جاتا یا پولیس کے حوالے سے کوئی کیس ہوتا تو دن یا رات کی پرواہ کئے بغیر آپ وہاں جاتے۔ دفتر میں روزانہ ہمسایوں کے جھگڑے، میاں بیوی کے جھگڑے یا ساس بہو کے جھگڑے وغیرہ آپ بڑی فراست سے حل کرتے۔ گروپس غصے سے بھرے ہوئے آتے اور بڑی محبت کے ساتھ مصافحے کرتے ہوئے چلے جاتے۔
آپ کو خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ آپ کا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق تھا۔ اسی طرح پولیس کے اعلیٰ افسران ہوں، جھنگ کے بڑے سیاستدان ہوں یا ربوہ کے گردونواح کے زمیندار ہوں سب آپ کی بہت عزت کرتے۔ آپ کی وفات پر کثرت سے یہ لوگ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر آتے رہے اور مرحوم کا ذکرخیر کرتے رہے۔
مرحوم نے 77 سال کی ایک بھرپور صحتمند زندگی گزاری۔ اس صحتمند زندگی کے راز روزانہ صبح کی سیر، بلاناغہ غسل اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی اور مثبت سوچ تھا۔