مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 نومبر 2010ء میں مکرمہ امۃالنصیر صاحبہ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے بھائی مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید کا ذکرخیر کیا ہے جو 28مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید ہو گئے ۔ آپ حضرت عبدالحمید شملوی صاحبؓ کے پوتے اور مکرم عبدالمجید صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ بہن بھائیوں میں آپ کا تیسرا نمبر تھا۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہم بہت چھوٹے تھے۔ مَیں سب سے چھوٹی بہن ہوں۔ جب ہمارے والد صاحب کی وفات ہوئی تو بھائی ودود صاحب نے ہمیںکبھی احساس نہ ہونے دیا کہ ہم والد صاحب کے سایہ شفقت سے محروم ہیں ۔ میری ہر پریشانی سنتے اور پھر جہاں تک ممکن ہوتا اسے دُور کرتے۔ میرے شوہر کے ساتھ بھی بھائیوں جیسا رویہ تھا۔
بھائیوں کے ساتھ بھی آپ کا دوستانہ اور مثالی تعلق تھا۔ اپنے سب بھائیوں کا احترام کرتے تھے۔ اپنے بڑے بھائیوں کو باپ کا درجہ دیتے ہوئے احترام اور پیار کرتے تھے ۔ جب بھی خاندان میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ہم سب پیارے شہید بھائی کے مشورے سے ہی مستفید ہوتے۔ آپ نہایت ملنسار اور باوفا انسان تھے۔ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔
آپ کی ازدواجی زندگی بھی ایک مثال تھی۔ آپ بہت پیار اور محبت کرنے والے شوہر تھے۔ بہت شفیق باپ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کے سات سال بعد آپ کو اولاد عطا فرمائی ۔ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیتے۔ بچوں پر سختی صرف نماز اور قرآن کی تلاوت پر کرتے۔ آپ خود بھی پنجوقتہ نماز اور تہجد کے پابند تھے ۔ آپ کا گھر مرکز نماز ہوا کرتا تھا۔ قرآن سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ خلافت سے بہت محبت تھی۔ فدائی احمدی تھے۔ خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت شامل ہوتے ۔ ایک عرصہ تک مقامی جماعت کے صدر رہے۔ آپ کو اسیر راہ مولا رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ آپ پر کلمے کا کیس بھی ہوا جو سات سال تک چلتا رہا۔
خدمت خلق کا شوق بھی بہت تھا۔ آپ ہر اپنے پرائے غریب اور ضرورتمند کی مدد بلاامتیاز مذہب کیا کرتے تھے۔ کئی بار خون کا عطیہ بھی دیا۔
آپ ایم اے انگلش تھے اور باغبانپورہ لاہور میں انگلش کے پروفیسر تھے۔ اپنی پروفیشنل لائف میں بہت ایماندار تھے اور اپنے اخلاق کی وجہ سے بہت عزت و احترام سے جانے جاتے تھے۔ آپ کی شہادت پر آپ کے کالج کا تمام سٹاف اور پرنسپل بھی تعزیت کے لئے تشریف لائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں