مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 25 جنوری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15دسمبر 2012ء میں مکرم ارشد خاں صاحب نے اپنے والد مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب ولد مکرم شیر محمد خاں صاحب 1928ء میں لوع کھیتری ضلع پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ ایک ماہ کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔آپ کُل تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ سترہ سال کی عمر میں آپ آرمی میں بطور ڈرائیور بھرتی ہوگئے اور وہیں پرائمری تک تعلیم بھی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں مقیم ہوئے اور چار سال تک فیصل آباد سے سرگودھا تک پرائیویٹ بس چلاتے رہے۔
1952ء میں ترگڑی ضلع گوجرانوالہ میں آپ کے خاندان کو زمین الاٹ ہوگئی تو وہاں زمینداری شروع کردی۔اُس وقت ترگڑی کے امیر جماعت ایک بہت ہی بزرگ مکرم ملک محمدالدین صاحب تھے جو چودھری صاحب کو تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے۔لیکن آپ ہمیشہ سخت مخالفانہ طرزعمل دکھاتے۔ اسی طرح آپ کی برادری کے مکرم راناقاسم علی خاں صاحب بھی احمدی تھے اور اسی طرح سرگودھا کے مکرم رانا ماسٹر احمد خاں بھی تبلیغ کرتے رہے۔ بالآخر 1965ء میں مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب نے 37سال کی عمر میں احمدیت قبول کرلی۔ اگرچہ ابتدائی طور پر آپ کے گھروالوں اور برادری کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی مگر پھر خاموشی ہوگئی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ آسیہ بی بی صاحبہ بھی ایک نیک خُو عورت تھیں اور پانچ سال بعد 1970ء میں انہوں نے بھی بیعت کرلی۔
1974ء کے فسادات میں مکرم چودھری صاحب کی برادری میں موجود غیراحمدی رشتہ دار ایک بار پھر شدید مخالفت پر اُتر آئے۔ بارہا آپ کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ حتّٰی کہ آپ کے ایک سگے بیٹے نے تو مخالفت کی انتہا کردی جو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب آپ کے گھر سے اٹھا کر لے گیا اور اُن کو جلادیا۔ برادری نے آپ کے چھوٹے بچوں کو چھیننے کی دھمکی بھی دی تاکہ اُن کے بقول بچوں کا دین آپ خراب نہ کرسکیں۔ نیز آپ کی اہلیہ کو آپ سے علیحدہ کرنے کی بھی برادری نے کافی کوشش کی لیکن انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ اپنے خاوند کا ساتھ دیا۔ مخالفت کی شدّت یہاں تک بڑھی کہ دیگر احمدیوں کو بھی چودھری صاحب سے ملنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ اور آخر گاؤں والوں اور برادری والوں نے انتہائی اقدام کے طور پر خود فیصلہ کر لیا کہ فلاں دن ہم چودھری صاحب سے اُن کے مسلمان ہونے کا اعلان کروا کے چھوڑیں گے۔ چنانچہ اُس روز برادری والوں نے اپنے کئی علماء بلوائے اور دیگوں کا انتظام بھی کیا گیا۔ پھر چودھری صاحب کو مجمع میں بلایا گیا۔ آپ نے اُن کی بات سُن کر کہا کہ اچھا چلو بتائو کہ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا کلمہ تو ایک ہی ہے، بس آپ مرزا صاحب کو گالیاں دے دیں ورنہ یہ ہجوم کچھ بھی کرگزرے گا۔ اس پر آپ نے کہا کہ خداتعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم مشرکوں کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو ورنہ غصہ میں آکر وہ تمہارے سچے خدا کو گالیاں دیں گے۔
پھر چودھری صاحب نے بڑی دلیری سے کہا کہ مَیں نہ گالیاں دوں گا اور نہ ہی احمدیت کو چھوڑوں گا۔ اس پر لوگ آپ کو بُرابھلا کہتے ہوئے منتشر ہوگئے اور پھر دس سال تک برادری کی طرف سے نہ صرف آپ کا بائیکاٹ کیا گیا بلکہ جھوٹے مقدمات میں بھی الجھایا جاتا رہا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ ہر مقدمہ سے بری ہوتے رہے لیکن اس دوران برادری کی طرف سے شدید مخالفت ہوتی رہی۔ تاہم آپ اُن لوگوں کے ساتھ حُسنِ سلوک ہی کرتے رہے اور ہرممکن اُن کی مدد کرتے رہے۔
مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب کی وفات 1997ء میں ہوئی اور ترگڑی میں ہی تدفین ہوئی۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا کیں۔