مکرم چودھری محمد شریف خالد صاحب
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 7؍فروری2014ء میں مکرم عامر احمد صاحب نے اپنے نانا محترم پروفیسر چودھری محمد شریف خالد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

محترم چودھری محمد شریف خالد صاحب 1920ء میں گجرات کے نواحی گاؤں گولیکی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم میاں شمس الدین صاحب نے 1914ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ محترم چودھری صاحب نے ابتدائی تعلیم گجرات سے ہی حاصل کی۔ بی اے کرنے کے بعد اپنی زندگی وقف کرکے قادیان میں رہائش اختیار کرلی اور بطور نائب وکیل الدیوان خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کی اور فرقان فورس میں بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ بعدازاں بی ٹی کرنے کے بعد ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں بطور استاد تعینات ہوئے اور 1954ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ربوہ کی عدالت میں ایک کچا سا چھپر ڈال کر وکالت شروع کردی۔ 26؍اکتوبر2004ء کو چوراسی سال کی عمر میں وفات پاکر آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

محترم چودھری صاحب بہت سادہ مزاج اور صاف گو تھے۔ غلط بات کبھی برداشت نہ کرتے خواہ کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑتا۔ چھوٹوں کو بھی صاحب کہہ کر بلاتے۔ آپ کی دوسری اہلیہ مکرمہ صغریٰ بیگم صاحبہ کے ساتھ رفاقت پچاس سال پر محیط ہے۔ دونوں بیویوں سے نو بیٹیاں اور تین بیٹے ہوئے۔ آپ نہ صرف خود پنجوقتہ نمازی تھے بلکہ اپنے بچوں کی بھی اچھی تربیت کی۔ خلیفہ وقت اور نظام کا بہت احترام کرتے۔ آپ کے بڑے بھائی چودھری غلام رسول صاحب جوانی میں وفات پاگئے تو اُن کی اولاد کا بھی ہمیشہ خیال رکھا۔ واقفِ زندگی ہونے کے باوجود کبھی اپنی غربت کا اظہار نہ ہونے دیا اور تمام عمر سفیدپوشی کےساتھ گزاری بلکہ حسب استطاعت ضرورتمندوں کی مدد بھی کرتے رہے۔
آپ ایک اچھے قلمکار تھے۔ جماعتی رسائل کی قلمی معاونت ہمیشہ کرتے رہے۔ ’’المنار‘‘ اور ’’الفرقان‘‘ کی ادارت میں بھی شامل رہے۔ کئی کتب تحریربھی کیں اور بہت سی کتب کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ آپ کے شاگرد دنیابھر میں پھیلے ہوئے ہیں جن کے ساتھ بہت شفقت کا تعلق تھا۔ آپ کے ایک شاگرد نے ذکر کیا کہ چودھری شریف صاحب انگریزی بھی دیہاتی لہجے میں پڑھاتے تھے لیکن تشریحی مقامات پر غالب، اقبال، داغ، امرؤالقیس، سعدی اور رومی وغیرہ کے حوالے دیتے تھے۔ عرفِ عام میں چاچاجی کہلاتے تھے جس سے آپ کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مکرم محمود مجیب اصغر صاحب بیان کرتے ہیں کہ پروفیسر صاحب روانی سے انگریزی بولنے والے بڑے ہمدرد قسم کے پروفیسر تھے۔ شعروشاعری سے بھی شغف تھا۔ اردو، انگریزی اور فارسی نامور شعراء کو پڑھا ہوا تھا۔ ایک بار کہنے لگے کہ شیکسپئر نامور شاعر اس لیے ہے کہ انگریزی کو عالمی حیثیت حاصل ہے ورنہ پنجابی کے کئی شاعروں کے کلام میں اُس کے کلام سے زیادہ گہرائی ہے۔
مکرم منیر احمد باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ مسجد بیت اللطیف کی ازسرِنَو تعمیر کے دوران محترم شریف خالد صاحب اپنے نوجوان شاگردوں سے کہیں آگے بڑھ کر وقارعمل کرتے تھے۔ محبت کا سمندر تھے اور کبھی بلاوجہ کالج سے ناغہ نہیں کرتے تھے۔ بعد میں وکالت میں بھی یہی خوبی نمایاں رہی۔ غریب پرور اور متوکّل علی اللہ تھے۔ ایک روز عدالت جاتے ہوئے ایک غریب مزدور کو دیکھا جس کی ریڑھی کا ٹائر پھٹ گیا تھا اور اُس کے پاس پنکچر لگوانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ آپ نے اپنے پاس موجود ساری رقم اُسے تھمادی کہ نیا ٹائر خرید لو۔ پھر عدالت پہنچے تو اپنے ایک مؤکل کو منتظر پایا جس نے اپنے کیس کی خاطر اُس سے کہیں زیادہ رقم بطور فیس ادا کی جو آپ فی سبیل اللہ دے آئے تھے۔ اسی طرح ایک بار ایک بوڑھے غریب کو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑا ہوا دیکھا تو بےساختہ کچھ رقم نکال کر اُسے دینا چاہی۔ لیکن اُس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ ہم عیسائی لوگ ہیں اور بھیک نہیں مانگتے۔ آپ کی طبیعت پر اس واقعے کا بہت اثر تھا اور اُس غریب شخص کی خودداری کا بارہا ذکر کیا کرتے تھے۔ غریب پروری کا یہی سلوک اپنے مزارعین سے کرتے۔ ایک دفعہ سخت گرمی میں آپ کو زمینوں سے اس حالت میں واپس آتے دیکھا کہ سائیکل کی ٹیوب پھٹی ہوئی تھی اور پیدل چلتے آرہے تھے۔ چہرے پر گرمی، تکان اور گردوغبار کے آثار نمایاں تھے۔ یہ دیکھ کر مَیں نے پوچھا کہ آپ کو اس زمیندارہ میں کوئی بچت بھی ہوتی ہے؟ کمال طمانیت سے قہقہہ بلند کیا اور کہا کہ مجھے یہ پھیرے ہی بچتے ہیں جو میں مار آتا ہوں۔ زمیندارہ بچت کے لیے نہیں ہے بلکہ غریب مزارعوں کی روزی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس بہانے سے اُن کے دن بھی بسر ہورہے ہیں اور میرے بھی۔
اچھا مضمون تھا چھوٹا سا بھی تھا اچھا لگا کہ چھوٹا سا مضمون ہے اور پڑھ بھی لیا ہر اسان بھی تھا اسان لفظوں میں لکھا ہوا تھا جزاک اللہ بہت شکریہ