مکرم چودھری محمد موسیٰ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 نومبر 2009ء میں مکرم چوہدری محمد موسیٰ صاحب (سابق منشی احمدیہ سٹیٹس سندھ) کا مختصر ذکرخیر مکرم ماسٹر عزیز احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری محمد موسیٰ صاحب خلافت اولیٰ کے ابتدائی سالوں میں موضع شک لوہٹ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ رواج کے مطابق واجبی سی تعلیم پائی اور کاشتکاری کا خاندانی پیشہ اختیار کیا۔ نماز روزہ کے شروع سے ہی پابند تھے۔ جوانی میں قدم رکھا تو خدمت دین کی امنگ پیدا ہوئی چنانچہ 1946ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر خود کو وقف کے لئے پیش کر دیا۔ حضورؓ کی نگاہ مردم شناس نے آپ کو تحریک جدید کے زرعی فارم بشیر آباد سندھ میں بطور منشی واٹر کورس بھجوایا۔ آپ اس مشکل میدان میں پورا اترے۔ واٹر کورس منشی کا کام خاصا محنت طلب ہوتا ہے۔ روزانہ چار پانچ سو ایکڑ رقبہ کا پیدل دورہ، ایک ایک مزارع کے پاس جاکر اس کے کام کو چیک کرنا اور مناسب ہدایات دینا۔ اس کے ساتھ ساتھ تیار فصل کی نگہداشت وغیرہ کرنا۔ تاہم خاندانی تجربہ اور خدمت کا جذبہ تھا کہ آپ نے اس فرض کا خوب حق ادا کیا۔
چودھری محمد موسیٰ صاحب کا قابل رشک وصف مالی قربانی تھا۔ موصی ہونے کے علاوہ ہر مالی تحریک میں بھی پیش پیش ہوتے تھے۔ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں میں تو حیران کن حد تک اپنی ظاہری حیثیت سے بڑھ جاتے تھے۔ غالباً 70ء کی دہائی میں ایک دفعہ دفتر نظارت مال کی طرف سے جواب طلبی ہوگئی کہ آپ کا الاؤنس ڈیڑھ صد روپے سے بھی کم ہے، چار پانچ افراد کے آپ کفیل ہیں جبکہ صرف تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ پانچ چھ صد روپے کے درمیان ہے۔ اپنے ذرائع آمد کی تفصیل مرکز کو بھجوائیں۔
دراصل احمدیہ سٹیٹس میں کارکنان کو ایک سہولت جانوروں کے چارہ کے لئے ایک ایکڑ زمین کی حاصل تھی۔ آپ اس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے اور ہر سال ایک بھینس گھر کی تیار ہوجاتی تھی جو اچھے داموں فروخت ہوجاتی۔ چندوں کے لئے مرحوم نے یہی دو ذرائع مخصوص کر رکھے تھے۔
جب ریٹائر ہوئے تو رضاکارانہ طور پر چندوں کی وصولی کا کام اپنے ذمہ لے لیا۔
15 فروری 1997ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک مکرم سلیم احمد صاحب تحریک جدید کے کارکن ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں