مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍اپریل 2004ء میں محترم چودھری عبدالرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ (المعروف سی اے رحمن) کا ذکر خیر مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چوہدری صاحب بچپن سے ہی بہت ہونہار، ذہین، نمازوں میں شغف رکھنے والے تھے۔ بعد ازاں آپ ایک قدآور شخصیت کے روپ میں ابھرے لیکن انتہائی شگفتہ مزاج، حاضر جواب اور مہربان تھے۔ صاحب ثروت ودولت تھے اور اس دولت کو راہ خدا میں لٹانا سعادت جانتے تھے۔ مسجد احمدیہ گل روڈ کی جگہ خرید کر جماعت کو دی ۔ لویری والا گوجرانوالہ کی مسجد بیت الحمد کی تعمیر میں ایک دفعہ دس ہزار اور پھر پینتیس ہزار روپے ادا کئے۔ نیز سیٹیلائیٹ ڈش کا انتظام بھی آپ نے اپنی جیب سے کیا۔
والدین کے بڑے ہی مطیع اور فرمانبردار تھے۔ آپ کی والدہ لویری والا میں سکونت پذیر تھیں جبکہ آپ لاہور میں مقیم تھے۔ جب آپ کو ڈاکٹروں نے سفر سے منع کیا تو پھر بھی قریباً ایک سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آپ والدہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔
آپ بہت ہی قابل، محنتی، فرض شناس اور دیانتدار وکیل تھے۔ ایک دفعہ ایک پادری اپنا ایک اہم کیس لے کر آپ کے چیمبر میں آیا اور کہا کہ مجھے سوائے احمدی وکیل کے کسی اور پر اعتماد نہیں کیونکہ یہ لوگ انتہائی دیانتدار ہوتے ہیں اور بڑی محنت اور جدو جہد سے کیس پیش کرتے ہیں۔
چوہدری صاحب انسان کو بحیثیت انسان دیکھتے تھے۔ مذہب یا امارت اور غربت کو معیار نہیں ٹھہراتے تھے۔ مکرم دلپذیر صاحب جو آپ کی ایجنسی میں تقریباً پچیس سال ملازم رہے کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں ملازم ہوں اور ان کا رتبہ مجھ سے بڑا ہے۔
بہت سے افراد کی خاموشی سے مدد کرتے تھے اور مستحقین سے مقدمہ کی فیس بھی وصول نہیں کرتے تھے۔ 1974ء میں احمدیوں پر ہونے والے سارے کیس آپ نے بڑی محنت سے لڑے اور کبھی کوئی مطالبہ نہ کیا سوائے اس کے کہ خود انہیں کچھ پیش کر دیا گیا ہو۔
1974ء میں سارے پاکستان میں عموماً اور گوجرانوالہ میں خصوصاً نہایت ہی پرآشوب اور قیامت خیز دَور تھا۔ اس وقت آپ امیر ضلع تھے۔ آپ نے تمام حالات ومعاملات کو نہایت دانشمندانہ اور بہادرانہ جرأت سے نبٹایا۔ آپ کا گھر مہاجر کیمپ بنا ہو اتھا۔ سب کے لئے روٹی، کپڑے کا انتظام نہایت احسن طریق سے کرتے۔ بعض دوستوں کے پاس کپڑے نہ تھے آپ نے درزی کو بلوا کر اُن کے لئے کپڑے سلوائے۔