مکرم چوہدری محمد حنیف ساہی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جولائی 2008ء میں مکرم عبدالرحمن ساہی صاحب اپنے دادا مکرم چودھری محمد حنیف ساہی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہیں۔
1939ء میں ایک چھوٹے سے گاؤں قادر آباد (نزد گوجرہ) میں صوبیدار میجر عبدالقادر صاحب فوج سے ریٹائرڈ ہوکر آئے تو کچھ روز بعد اُن کے احمدی ہوجانے کا علم ہوا۔ یہ خبر ایک بھونچال سے کم نہ تھی۔ گاؤں کے تمام لوگ بالخصوص مذہبی رجحان رکھنے والے چوہدری اور مسجد کے مولوی نے اُنہیں احمدیت سے تائب کرانے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ صوبیدار صاحب نے بھی اعلان کر دیا کہ میں نے احمدیت کسی جذباتی فیصلہ کے تحت قبول نہیں کی بلکہ بہت غور اور مطالعہ کے بعد کی ہے اور اب اگر قرآن کریم سے کوئی میرے عقائد کو ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ میرے پاس آئے۔ چنانچہ مذہبی بحثوں کا آغاز ہوا جن میں ایک نوجوان محمد حنیف بھی موجود ہوتے جو صوبیدار صاحب کے چچازاد بھائی تھے۔
محمد حنیف صاحب بچپن میں ہی والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے تھے۔ چونکہ والد نے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی تھی اس لئے نہ صرف ان کا بچپن بہت تنگی اور عسرت میں گزرا بلکہ وہ مدرسہ کی تعلیم سے بھی محروم رہے۔ تاہم مسجد جاکر قرآن کریم ناظرہ سیکھ لیا۔ وہاں مولوی صاحب نے ہی انہیں بتایا تھا کہ یہ زمانہ امام مہدی اور مسیح کے آنے کا ہے۔ اب چچازاد بھائی کے احمدی ہونے پر یہ بھی تحقیق میں سرگرم ہوگئے اور مذہبی بحثوں کو سننے کے لئے جاتے۔
حنیف صاحب کہتے ہیں کہ جب مَیں بھائی صوبیدار کے پاس جاتا تو وہ مجھے سچے لگتے اور جب دوسروں کے پاس جاتا تو میں پھر متذبذب ہونے لگتا۔ جب میں نے اس کا ذکر بھائی صاحب سے کیا تو انہوں نے کہا کہ دلائل تو سارے مَیں نے بیان کردئے ہیں، اب انشراح صدر کے لئے خدا سے پوچھو کیونکہ حضرت مرزا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ہی بھیجا ہے اس لئے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ چنانچہ میں نے دن کو روزوں اور راتوں کو عبادت اور اللہ کے حضور آہ و زاری شروع کردی۔ راتوں کو گھر سے باہر نکل جاتا اور کھلے آسمان تلے چٹیل میدانوں میں رو رو کر سجدے کرتا اور بیقراری سے لوٹ پوٹ ہو جاتا یہاں تک کہ لوگ مجھے دیوانہ سمجھنے لگے اور خود مجھے بھی گمان ہونے لگا کہ اگر میری یہی حالت رہی تو یا میں مر جاؤں گا یا پاگل ہو جاؤں گا۔ پھر میرے خدا نے مجھے حضور علیہ السلام کے تمام د عاوی پر مکمل انشراح صدر عطا فرما دیا اور میں نے1945ء میں پہلے بذریعہ خط اور اسی سال جلسہ سالانہ پر قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ جلد ہی میری بیوی بھی احمدی ہوگئی۔ پھر مَیں نے احمدیت کے بارہ میں جاننے کے لئے پڑھنا سیکھا تاکہ الفضل اور تفسیر صغیر پڑھ لوں۔ پاکستان بننے کے بعد کئی احمدی خاندان ہمارے گاؤں میں آ بسے تو عبدالقادر صاحب نے قریباً 15مرلے زمین مسجد کے لئے دیدی اس پر مسجد بھی تعمیر کر دی۔
محترم چودھری محمد حنیف ساہی صاحب بعد ازاں قادر آباد میں صدر جماعت بھی رہے۔ احسن رنگ میں جماعتی نظام چلاتے۔ تہجد گزار تھے۔ کم آمدنی کے باوجود وہ ہر مالی تحریک میں حصہ لیتے۔ نظام وصیت میں شامل ہو کر اپنی زندگی میں ہی انہوں نے اپنا حصہ جائیداد ادا کر دیا۔ 19؍دسمبر 1983ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں