مکرم چوہدری محمد یعقوب کُلّا صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18اپریل 2012ء میں مکرم انجینئر محمد ایوب صاحب نے ایک مضمون میں اپنے والد محترم چوہدری محمد یعقوب کُلّا صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چوہدری صاحب1931ء میں اپنے آبائی گاؤں مونگ (سابقہ ضلع گجرات) میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم چوہدری خوشی محمد کُلا صاحب کوجون 1916ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہ اپنے علاقہ کے بااثر زمیندار تھے۔ جنگ عظیم اوّل میں بصرہ، عراق میں زخمی ہونے پر جلد گھر آگئے تھے۔اُن کو اپنے علاقہ میں آباد اپنی برادری میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی ۔ قبل ازیں اُن کی والدہ محترمہ شرفاں بی بی صا حبہ نے ایک مبشر خواب دیکھا تھا کہ ’’مرزا صاحب مونگ ہمارے محلہ میں آئے ہیں۔ آپ اَنّ تقسیم کر رہے ہیں، میری ہتھیلی پر بھی رکھ دیا اور میں نے اس نعمت کو چاروں بیٹوں میں تقسیم کر دیا، زیادہ خوشی محمد کو دیا اور آخر پر خود بھی ہتھیلی چاٹ لی‘‘۔ چنانچہ بفضلِ اللہ تعالیٰ سب احمدیت کی نعمت سے نوازے گئے۔
محترم چوہدری محمد یعقوب کُلّا صاحب اوائل عمر میں ہی فوج میں بھرتی ہو گئے تھے ۔ستمبر 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت ہر دو جنگوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ستمبر 1953ء میں آپ کی شادی محترمہ زینب اختر صاحبہ بنت مولوی نور احمد صاحب مولوی فاضل موضع کالووالی سے ہوئی۔ شاہ تاج شوگر ملز منڈی بہاؤالدین میں کئی سال تک ملازمت کی۔ آپ کی دیانت اور وفاداری کے سب ہی معترف تھے۔ اپنے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ نہایت محنتی اور ایماندار انسان تھے۔ سانحہ مونگ ضلع منڈی بہاؤالدین 7؍ اکتوبر 2005ء کے موقع پر غایت درجہ صبر و حوصلہ دکھایا۔ اس موقع پرفجر کی نماز کے دوران میں آٹھ نمازیوں کو شہید کر دیا گیاتھا جن میں آپ کے چھوٹے بھائی چوہدری محمد اسلم کُلّا اور ان کا جواں سال بیٹایاسر احمد(پہلا واقف نو شہید) بھی شامل تھے جبکہ بڑا بیٹا (مضمون نگار) زخمی ہوکر مستقل طور پرمعذو ر ٹھہرا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر سچے خواب آتے۔ کئی بار بچوں کے حالات کا خواب کے ذریعہ علم ہوتا تو خط لکھ کر یا بذریعہ فون،یا خودوہاں پہنچ کر حوصلہ دیتے۔
با ریش خوبصورت چہرہ کے مالک تھے۔ پابندیٔ وقت کا بہت خیال رکھنے والے، دعاگو اور نہایت شفیق تھے۔ فجر کی نماز کے بعد روزانہ لمبی تلاوت کرتے اور پھر ٹیلی ویژن پر التزام سے پورا ایک گھنٹہ تلاوت سننا معمول تھا۔ بڑے اہتمام سے خلیفۃ المسیح کا خطبہ ایم ٹی اے پر سنتے اور اس مائدہ کے جاری ہونے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لئے دعاگو ہوجاتے۔ پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ امام الزمان اور خلافت سے محبت کو اپنی اولاد تک نہایت احسن رنگ میں پہنچانا ہمیشہ اپنا فرض جانا۔ ایک نمایاں خلق شکرگزار رہنا بھی تھا۔ لوگوں کے احسانات کو بھی یاد رکھتے اور اپنی اولاد کو بھی وہ احسان بتاکر اس کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتے۔ بحرین کے بعد سعودی عرب میں دورانِ ملازمت حج نصیب ہوا۔ کچھ وقت سوئٹزرلینڈ میں بھی گزارا۔ اسلام کے لئے غیرت اور شجاعت کا اظہار کرنے والے تھے۔
آپ کی وفات 21؍ اکتوبر 2011ء بروز جمعۃالمبارک بعمر 80سال ہوئی اور آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ میں غیرازجماعت بھی کافی تعداد میں شامل ہوئے۔ موضع مونگ میں مذہبی رواداری اور باہمی احترام کا اظہار تھا۔ سانحہ مونگ کے موقع پر بھی اہالیانِ مونگ نے اسی خلق کا برملا اظہار کیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں