مکرم چوہدری نعیم احمد گوندل شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21 جولائی 2012ءکے مطابق مکرم چوہدری نعیم احمد گوندل صاحب آف کراچی کو 19 جولائی کو شہید کردیا گیا۔ آپ محترم چوہدری عبدالواحد صاحب اورنگی ٹاؤن ضلع کراچی کے بیٹے اور مکرم خورشید عالم صاحب مرحوم کے پوتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 21جولائی 2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور نماز کے بعد نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ مرحوم کی تدفین ربوہ میں ہوئی۔
1914ء میں شہید مرحوم کی دادی نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور دادا نے پھر بعد میں بیعت کی۔ شہید مرحوم 13اپریل 1961ء کو چک 99شمالی سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ آپ کُل چھ بھائی اور ایک بہن تھی۔ بہن آپ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں۔ شہید مرحوم نے F.A. تک تعلیم سرگودہا سے حاصل کی۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے B.A. اور M.A. اکنامکس کیا۔ 1988ء میں سٹیٹ بینک میں سینئر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام شروع کیا اور کراچی منتقل ہوگئے۔ دورانِ ملازمت MBAبھی کرلیا۔1990ء میں آپ کی شادی مکرمہ فخرالنساء صاحبہ سے ہوئی۔
19 جولائی 2012ء کی صبح آپ حسب معمول دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلے۔ عموماً گھر کے سامنے ایک تنگ گلی سے گزر کر بڑی سڑک پر جاتے تھے جہاں سے آپ کو بینک کی گاڑی آکر دفتر لے جایا کرتی تھی۔ جب گلی میں داخل ہوئے تو سامنے سے دو نوجوانوں نے آکر کنپٹی پر فائر کیا۔ گولی دائیں جانب سے لگی اور بائیں سے نکل گئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے۔
شہید مرحوم گیارہ سال سے صدر حلقہ اورنگی ٹاؤن کی خدمت پر مامور تھے۔ اس سے قبل چار سال بطور قائد مجلس اورنگی ٹاؤن خدمت بجالائے اور اس سے قبل انہوں نے زعیم حلقہ، سیکرٹری وقفِ نو، مربی اطفال اور مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمات سرانجام دیں۔ نہایت خوش اخلاق، ملنسار، حلیم الطبع تھے۔ اہلِ علاقہ بھی ان کے بارہ میں یہی رائے رکھتے تھے۔کچھ عرصہ سے اورنگی ٹاؤن کے حالات خراب تھے اور مخالفانہ وال چاکنگ وغیرہ کا سلسلہ جاری تھا لیکن ہمیشہ آپ بڑی بہادری سے ان سب چیزوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ آپ موصی بھی تھے۔ نماز باجماعت کے پابند اور قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے تھے جسے سفر میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ بعض غیراحمدی بھی تعزیت کے لئے آئے اور آپ کا ذکرخیر کیا۔
شہید مرحوم کئی سال سے جلسہ یُوکے پر بھی آرہے تھے اور جن کے گھر ٹھہرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ خود مہمان ہونے کے باوجود ہمارے گھر پر آنے والے جلسہ کے مہمانوں کے میزبان بن جایا کرتے تھے۔ بلکہ عاجزی یہاں تک تھی کہ جب اپنے بوٹ پالش کرنے لگے ہیں تو ساتھ مہمانوں کے بھی بوٹ پالش کر دیا کرتے تھے۔ ایک جلسہ پر جب بارشیں زیادہ تھیں تو گھر والوں نے کیچڑ سے لتھڑے ہوئے جو لمبے بُوٹ رات کو اُتارے تھے وہ شہید مرحوم نے صاف کرکے بڑے سلیقے سے اگلی صبح رکھے ہوئے تھے۔ انتہائی عاجز طبیعت تھی۔ آپ کی اولاد تو نہیں تھی لیکن اہلیہ کہتی ہیں کہ جس طرح آپ نے اُن کا خیال رکھا، اُنہیں یہ خیال آتا ہے کہ شاید اُن کے ماں باپ نے زندگی میں اتنا آرام اور پیار نہیں دیا جتنا اس شخص نے دیا۔