مکرم ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍نومبر 1999ء میں 21؍جولائی 1999ء کو منعقد ہونے والی اردو کلاس کی باتیں (مرتبہ: مکرم حافظ عبدالحلیم صاحب) شامل اشاعت ہیں۔ اس کلاس میں مکرم ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب اور اُن کی بیگم بھی شامل ہوئیں۔ حضور انور نے مکرم ڈاکٹر صاحب سے فرمایا: ’’آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو تشریف لائیں، اپنا تعارف کروادیں۔ خود احمدی ہوئے ہیں، بڑے بہادر مخلص احمدی ہیں…‘‘۔
مکرم ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مَیں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں اور آج کل یونیسیف کے لئے کام کر رہا ہوں۔ 1993ء میں بیعت کی ہے۔ (حضور انور نے فرمایا: دیکھو یوں لگتا ہے جیسے پیدائشی احمدی ہوں۔ ماشاء اللہ)۔ دو تین مہینے کے بعد میری بیگم نے بھی بیعت کرلی تھی۔ میرے والد جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے ساتھ کافی عرصہ کام کیا ہے۔ 1974ء میں جو امینڈمنٹ (Amendment) ہوئی تھی وہ انہوں نے ہی ڈرافٹ کی تھی۔ 1990ء میں مجھے امریکہ جانے کا موقع ملا تو وہاں جماعت سے کچھ واقفیت ہوئی۔ وہاں آپ سب کا ایک ٹیپ بھی دیکھا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سب ٹھیک ہے۔ حضرت مسیح موعود کی کتابیں پڑھ کے بالکل یہ احساس ہوتا تھا کہ اس میں کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی۔ آپ کے چہرے میں اور حضرت مسیح موعود کے کلام میں مناسبت تھی۔ اس کے تین چار سال بعد ہم واپس آئے۔
1998ء میں مجھے باہر جانا تھا۔ پاسپورٹ Renew کروانے گیا تو وہاں بیٹھے ہوئے بڑی سی داڑھی والے صاحب نے مجھے کافی تنگ کیا اور سخت الفاظ استعمال کئے اور بدتمیزی کی۔ مَیں جب واپس دفتر آیا تو تکلیف بہت تھی کیونکہ کبھی کسی نے ایسا سلوک نہیں کیا تھا۔ نماز پڑھ کر دعا کی (چونکہ حضرت مسیح موعود کا الہام تھا کہ جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا، مَیں اس کو رسوا کروں گا) ایک تو میرا کام ہو جائے، دوسرا اُس کے ساتھ بھی کچھ ہو کیونکہ اس نے میرے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ جب مَیں واپس آیا تو مَیں نے امیر صاحب سے کہا۔ انہوں نے کہا فلاں صاحب سے رابطہ کریں۔ وہاں گیا تو انہوں نے ڈائریکٹر صاحب کو درخواست دلوائی کہ ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب نے بلوایا اور کہا کہ آپ اچھے لوگ ہیں، ہم آپ کا کام کردیں گے۔ پاسپورٹ انہوں نے بنادیا۔ جب مَیں ایک گھنٹے کے اندر اندر پاسپورٹ بنواکے وہاں سے نکلنے لگا تو وہاں ایک لمبا چوڑا آدمی داخل ہوا اور اُس نے اُس شخص سے جس نے میری بے عزتی کی تھی، پاسپورٹ بنانے کو کہا۔ اُس نے جواب دیا کہ وقت ختم ہوگیا ہے۔ اس پر اُس نے اُس کی کافی خبر لی اور جو لمبی چوڑی گالیاں ہوتی ہیں وہ اُس کو دیں۔ میرے دل میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرلی۔
حضور انور نے فرمایا کہ جو یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے دباؤ پڑا تھا، وہ بھی تو ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے کوشش کی تھی کہ مجھے تنگ کریں اور پریشان کریں۔ اس کی وجہ سے مَیں کچھ دیر باہر رہا ہوں۔ یونائیٹڈ نیشنز نے پروٹسٹ کیا کہ آپ لوگ ہمارے معاملہ میں مداخلت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ آپ کیا سلوک کر رہے ہیں، ہم سب دنیا کو بتائیں گے۔ مَیں جب پاکستان سے نکل رہا تھا، کافی خطرہ تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کافی خطرہ ہے۔ اسلام آباد کی بجائے لاہور سے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے مجھے اڑہائی بجے اسلام آباد سے لاہور بھیجا۔ نو بجے فلائٹ تھی۔ جب ہم گئے تو راستہ میں کافی تیز تھے مگر اتفاق سے پٹرول ختم ہوگیا۔ دیر ہوگئی اور اندازہ یہ تھا کہ فلائٹ نہیں ملے گی۔ مگر جب مَیں لاہور پہنچا ہوں تو پتہ چلا کہ فلائٹ دو گھنٹے لیٹ ہوگئی ہے۔ وہاں ایئرپورٹ پر سٹاف نے بہت آؤبھگت کی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اللہ تعالیٰ خود ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
جب واپس آئے ہیں تو جنہوں نے یہ سلوک کیا تھا، اُن کی کافی خبر لی گئی۔ انہوں نے کہا اگر آئندہ ایسا ہوا تو آپ کے خلاف انٹرنیشنل لیول پر کیس کریں گے۔… اس کے بعد بس حضور مَیں دعا کی تحریک کرتا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں