مکرم ڈاکٹر محمد اسلم جنجوعہ صاحب
روزنامہ ’الفضل ربوہ‘‘ 13؍ستمبر 2012ء میں مکرم رانا محمد ظفراللہ صاحب نے اپنے ماموں مکرم ڈاکٹر محمد اسلم جنجوعہ صاحب آف چک 98شمالی سرگودھا کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔ مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں 6؍جون 2014ء کے الفضل انٹرنیشنل کے اسی کالم میں شائع ہوچکا ہے۔
مکرم ڈاکٹر محمد اسلم جنجوعہ صاحب ایک معروف شخصیت تھے۔ سیکرٹری تبلیغ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ غریبوں کے انتہائی ہمدرد تھے۔ سرکاری سکول سے ریٹائرمنٹ لے کر گائوں میں سکول کھولا ہوا تھا۔ آبادی چونکہ شہر سے دُور تھی اس لئے غریبوں کے لئے گھر پر ہی ڈسپنسری بنائی ہوئی تھی جس میں ہر قسم کا علاج موجود تھا اور دور دور سے آپ کے پاس مریض آتے تھے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا بھی بہت رکھی تھی۔ کہتے تھے کہ میں کسی کو مٹی بھی دے دوں تو خدا اس میں بھی شفا رکھ دیتا ہے۔ کئی دفعہ صرف پانی کا ٹیکہ لگا دیتے تھے اور مریض اگلے دن ٹھیک ہو کر آکر آپ سے ملتا تھا۔ 60سال سے زائد عمر کے بوڑھوں کو مفت ادویات دیتے تھے۔ غرباء کے لئے ایک سایہ دار درخت تھے۔ خاکسار ایک دفعہ آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک مریض بغیر پیسے دئیے چلا گیا۔ مَیں نے پیچھے سے آواز دی تو مجھے ڈانٹا کہ کیوں بلا رہے ہو؟۔ مَیں نے کہا کہ اُس نے پیسے نہیں دئیے۔ آپ نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ اس کے پاس پیسے ہیں؟!۔ غریب مریضوں کو مفت دوا کے ساتھ بارہا دودھ وغیرہ کے لئے کچھ پیسے بھی دیا کرتے تھے اور بعض مریضوں کو کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کردیتے۔ انتہائی خفیہ طور پر غریبوں کی مدد کرتے۔ اپنے کلینک کے ساتھ ایک سکول کھولا ہواتھا جس میں بستہ اور کتابیں مفت دی جاتیں جبکہ غریبوں کے بچوں سے فیس بھی نہ لیتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو کبھی مالی تنگی نہ دی۔ ہر وقت آپ کے کلینک پر لوگوں کا رش لگا رہتا جن کو آپ بڑے احسن پیرایہ میں دعوت الیٰ اللہ بھی کرتے تھے۔ آپ انتہائی ملنسار تھے ۔ جب بھی خاکسار آپ کو ربوہ یا کہیں اَور لے کر جاتا تو گاڑی میں پٹرول ڈلوادیتے۔ پھلوں کی جو ٹوکریاں آپ کو بطور تحفہ ملتیں وہ اپنے مختلف عزیزوں کو بھجوادیا کرتے۔ آپ کو اسیر راہ مولیٰ رہنے کی بھی توفیق ملی۔ احمدی ہونے کی وجہ سے اخبارات میں آپ کے خلاف اکثر خبریں شائع ہوتی رہتی تھیں۔آپ نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑے۔