میجرڈاکٹر محمود احمد شہید
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ ستمبر، اکتوبر2009ء میں مکرمہ بیگم بلقیس احمدصاحبہ کے قلم سے اُن کے شہید خاوند محترم میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب کا ذکرخیر اور اُن کی شہادت کے حالات شائع ہوئے ہیں۔
مکرمہ بیگم بلقیس احمد صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر نامدار نے جنگ عظیم دوم کے بعد فوج سے فراغت لی۔25 نومبر 1945ء کو ہماری شادی ہوئی اور 17 اگست 1948ء کو اُن کی شہادت ہوگئی۔ اس قلیل عرصہ میں بھی ان کا زیادہ وقت باہر گزرا۔
میرا اور میرے شوہر کا تعلق امرتسر کی معروف قاضی فیملی سے ہے۔ آپ حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی مرحومؓ کے پوتے، محترم قاضی محمد شریف مرحوم کے فرزند اور قاضی محمد حنیف صاحب (ڈپٹی کلکٹر انہار) کے داماد تھے۔ ہمارا آبائی گھر امرتسر میں تھا۔ گھر میں قرآن مجید کے درس کا انتظام تھا۔ نمازیں باجماعت ادا ہوتی تھیں۔ اس ماحول میں تربیت ہوئی اور احمدیت زندگی کا محور بن گئی۔ تحریکِ جدید کا آغاز ہوا تو خاندان کے نوجوانوں میں اوّلین میرے شوہر تھے جنہوں نے اس تحریک پر لبیک کہااور باقاعدہ چندہ ادا کرتے رہے۔
آپ نہایت خندہ پیشانی سے اپنے والدین کے اشارہ پر دُور و نزدیک کے عزیزوں کے لئے مالی اور دیگر قربانیاں بجالایا کرتے۔ تقسیم ہند کے وقت آپ کوئٹہ کی فوج میں تعینات تھے اور وہاں پنشن لے کر فارغ ہوئے۔ لیکن کوئٹہ کی آب و ہوا پسند ہونے کی وجہ سے وہاں مستقل قیام کا ارادہ کرلیا۔ اسی دوران حضرت مصلح موعودؓ نے تین ماہ کے وقف کے لئے ڈاکٹروں کو تحریک کی کہ قادیان میں درویشوں کے پاس ایک ڈاکٹر کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ڈاکٹر میجر محمود احمد شہید نے اس تحریک پر لبیک کہا اور لاہور پہنچ گئے۔ مَیں اُن دنوں لائل پور میں اپنے سسرال میں اپنے بڑے بیٹے کی پیدائش کے سلسلہ میں ٹھہری ہوئی تھی۔ میرے شوہر نے لاہور پہنچ کر احمدی کیمپوں میں صحت و صفائی کا کام سنبھال لیا۔ گندگی اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر گڑھوں میں دبائی۔ ٹائیفائیڈ او رہیضہ کے ٹیکے کثرت سے لگائے۔ اس دوران انہیں بیٹے کی پیدائش کی اطلاع ملی تو دو تین روز کے لئے لائل پور آئے اور پھر واپس لاہور چلے گئے جہاں سے قادیان روانہ ہوگئے۔ راستہ میں ان کی بس پر ہینڈ گرنیڈ پھینکا گیا جو پھٹ نہیں سکا۔
قادیان میں اس وقت بے سروسامانی کا عالم تھا۔ نور ہسپتال پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کے گھر کے ایک کمرہ میں آپ کی رہائش اور کلینک کا انتظام کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کے مزاج میں انکساری کا پہلو نمایاں تھا۔ بااخلاق اور خوش ذوق تھے۔ ہمہ وقت دوسروں کی مدد اور خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ قادیان میں آپ کی ڈیوٹی تین ماہ کے لئے تھی لیکن جب حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ آپ اگر اور ٹھہر سکتے ہیں تو ٹھہر جائیں تو لبیک کہا اور تقریباً 8ماہ وہاں قیام کیا۔ جون 1948ء میں پاکستان آئے اور حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ نے آپ کو نہایت خوبصورت سیاہ چُغہ تبرکًا دیا جو میرے پاس محفوظ ہے۔
پھر چند روز لائل پور ہمارے ساتھ قیام کرکے کلینک اور رہائش کا انتظام کرنے کوئٹہ روانہ ہوگئے اور دو ماہ بعد آکر ہمیں بھی ہمراہ لے گئے۔
1948ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے کوئٹہ آنے کا ارادہ کیا تو جماعت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب کلینک سے وقت نکال کر بنگلہ کی تیاری میں مدد دینے روزانہ چلے جاتے۔ حضورؓ کے ہمراہ اہل خانہ اور حضرت اماں جانؓ بھی تشریف لائیں۔ حضرت اماں جانؓ کا لحاف قادیان میں ڈاکٹر صاحب کے استعمال میں رہا تھا جسے آپ تبرکاً اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ آپ نے مجھے خوبصورت نیا لحاف تیار کروانے کو کہا تاکہ حضرت اماں جانؓ کو پیش کرسکیں۔ آپ اکثرشام کو حضرت اماں جانؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کو سیر کروانے لے جاتے۔ مَیں بیٹے کے ہمراہ روزانہ بنگلہ جایا کرتی تھی۔ ایک دن حضرت اماں جانؓنے مجھ سے کہا کہ تمہارے میاں کی معلومات بہت وسیع ہیں، تم بہت ہی خوش قسمت ہو ڈاکٹر محمود بہت اچھے مزاج اور اخلاق کے انسان ہیں۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محمود شہید واقعی بہت نفیس انسان تھے۔ احمدیت، حضرت مسیح موعودؑ سے عقیدت اور خلافت سے وابستگی مثالی تھی۔
17؍اگست 1948ء کی صبح ڈاکٹر صاحب ناشتہ کے لئے میز پر بیٹھے تو کہنے لگے کہ مجھے پانچ سو روپے کی فوری ضرورت ہے، دوتین دن میں واپس کردوں گا۔ مَیں نے پوچھا کہ اتنی رقم کا کیا کرنا ہے۔ کہنے لگے کہ رات مسجد میں صدر صاحب سے وعدہ کر آیا تھا کہ صبح اُن کو اتنی رقم مل جائے گی اور اگر یہ رقم آج نہ ادا کی گئی تو مسجد کے ساتھ جو زمین ہے وہ نہ مل سکے گی۔ مَیں نے رقم ایک رومال میں باندھ کر آپ کو دیدی۔ آپ ناشتہ کرکے صدر صاحب کو رقم دے کر پھر کلینک چلے گئے۔ دوپہر کو کھانا کھانے آئے تو بہت خوش تھے۔ دو تین بار کہا آج بہت ہی اچھا کام ہوا ہے۔ رقم کا انتظام نہ ہوتا تو ہمارے ہاتھ سے یہ زمین نکل جاتی اور مسجد تنگ رہتی۔ کھانا کھا کر ظہر کی نماز ادا کی، مجھے اوربیٹے مسعود کو آخری سلام کیا اور واپس کلینک چلے گئے۔ شام کو ایک مریض کو دیکھنے کلینک سے چھاؤنی چلے گئے۔
اُن دنوں حضورؓ کی کوئٹہ میں موجودگی کی وجہ سے مخالفت اور عداوت بہت زیادہ تھی۔اُس روز بھی مولوی رات کو ریلوے گراؤنڈ میں جلسہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر محمود جب گھر واپس آرہے تھے تو آپ کا چچا زاد بھائی اقبال اور ڈرائیور بھی ہمراہ تھے۔ راستہ میں ریلوے گراؤنڈ کی طرف چلے گئے تاکہ سنیں کہ وہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہاں دیکھا کہ ایک آدمی کو کئی لوگ مل کر مار رہے ہیں۔آپ نے کارسے باہر اُتر کر دیکھا کہ الفضل کے رپورٹر کو مار رہے تھے۔ آپ نے بڑی دلیری سے آگے ہوکر اس کو چھڑایا اور کہنے لگے اس کو مارنے سے آپ کو کیا مل جائے گا۔ میں بھی تو احمدی ہوں۔ اس پر الفضل کے رپورٹر کو اُن لوگوں نے چھوڑ دیا۔آپ نے اس کو سائیکل پر سوار کروایا اور کہا فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ آپ ابھی وہیں کھڑے تھے کہ ایک شخص نے آگے بڑھ کر آپ سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ بھی فوراً یہاں سے چلے جائیں آپ کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ آپ اقبال کے ساتھ کار میں بیٹھے ہی تھے اور کار کا دروازہ ابھی بند بھی نہ ہوا تھا کہ کار پر پتھراؤ شروع ہوگیا۔ کار کے شیشے ٹوٹ گئے۔ آپ نے کار اسٹارٹ کی مگر کار چند گز چل کر رُک گئی۔ ڈرائیور سے کہا ہینڈل لگاؤ۔ ڈرائیور کار سے نکلا مگر خوف سے ہینڈل کیا لگاتا وہ ہینڈل لے کر ہی بھاگ گیا۔ آپ اور اقبال دونوں زخمی ہورہے تھے۔ کہ ایک بڑا پتھر آپ کے بازو پر لگا۔آپ نے اقبال سے کہا کہ میرا بازو ٹوٹ گیا ہے یہ لو رومال اگر میرے بازو پر باندھ سکتے ہو تو باندھ دو اور چلو کار سے نکل کر بھاگتے ہیں۔ شاید بچ جائیں۔ کلینک کی چابیاں بھی اقبال کو دیں اور کہا اقبال اگر بچ کر نکل سکتے ہو تو کسی طرف چلے جاؤ۔ مجھے تو یہ لوگ اب نہیں چھوڑیں گے۔ اقبال بھاگتے ہوئے ایک کھڈ کے اندر گر گیا اوروَہیں چُھپ گیا۔ ڈاکٹر صاحب ریلوے کوارٹروں کی طرف بھاگے۔ایک کوارٹر کے دروازے پر ہاتھ مارا لیکن وہ بند تھا۔ چونکہ بہت زخمی ہو چکے تھے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ اور ایک ہجوم تھا جو اُن کے پیچھے چلا آرہا تھا۔ آپ دوسری طرف ہوئے ہی تھے کہ ایک آدمی نے آپکو پکڑ کر گرالیا۔ اور خنجر کے کئی وار کرتا گیا حتیٰ کہ آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا کوٹ اور گھڑی اُتار لی گئی ۔ مگر انگوٹھی اَلَیۡسَ اﷲُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ والی شاید ان ظالموں کو نظر ہی نہ آئی۔ پھر انہی ظالموں کے گروہ میں سے ایک شخص بولا اوہو یہ ڈاکٹر حمیدتو نہیں یہ تو ڈاکٹر محمود ہے۔ یہ کہہ کر وہ لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ کوارٹروں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے مُنہ سے استغفراﷲ سنا اور اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے۔ (ڈاکٹر حمید ریلوے میں افسر تھے اور انہوں نے فسادیوں کو ریلوے گراؤنڈ میں جلسہ کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر فسادیوں نے دھمکی دی تھی کہ جلسہ تو ہم ضرور کریں گے اور بعد میں تمہیں بھی دیکھ لیں گے)۔ جسٹس محمد منیر کی تحقیقاتی رپورٹ 1953ء کے مطابق ڈاکٹر محمود کے جسم پر پتھر اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے ہوئے 26زخم تھے اور سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب ساڑھے آٹھ بجے تک گھر آجایا کرتے تھے۔ اُس روز گیارہ بج چکے تھے۔ مَیں سخت پریشان تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کیا کروں۔ بچہ بھی سو گیا تھا۔ میں نے دو تین بار کھانا گرم کیا۔ خود کھانے کی کوشش کی۔ نماز پڑھنے کی کوشش کی مگر نماز بھول جاتی رہی نہ کچھ کھاسکی اور نہ نماز ادا کر سکی۔ بارہ بجے کے لگ بھگ دروازہ کھٹکا۔ عزیز اقبال بے حد گھبرایا ہوا نظر آیا۔ مُنہ پر چوٹیں آئی ہوئی تھیں۔ گھبراہٹ میں پوچھنے لگا: بھائی جان آگئے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور بے شمار سوال کر ڈالے۔ وہ تسلی دینے لگا۔ میں نے اقبال کو لٹایا اور اسے پانی دے رہی تھی کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی۔ دیکھا کہ پولیس کے دو آدمی کھڑے تھے۔ بڑے اکھڑ لہجے میں کہنے لگے کہ ڈاکٹر محمود کوبلوائیوں نے مار دیا ہے۔ میری آنکھوں میں اندھیرا سا آگیا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ اقبال سمجھ گیا، گرتا پڑتا دروازہ تک پہنچا۔ اُن سے کہا اچھا اور دروازہ بند کردیا۔اس طرح ڈاکٹر صاحب اور میری رفاقت کے پونے تین سال ختم ہوگئے۔
صبح تک یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مع اہل خاندان ہمارے گھر آئے اور تعزیت کی۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ بیٹی ہو یا بیٹا یہ تو ﷲ کی دین ہے لیکن دوسرا بچہ اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام اس کے باپ کے نام پر ہی رکھنا۔ چنانچہ ہمارے دوسرے بیٹے کا نام احمد محمود رکھا گیا جو اس المناک واقعے کے 5ماہ بعد پیدا ہوا۔ پہلے بیٹے کا نام احمد مسعود ہے۔ دونوں بیٹوں کے نام حضرت اماں جانؓ نے رکھے۔ میری فرمائش پر نہیں بلکہ اپنے پیار کی وجہ سے ۔
غالباً 19اگست کو شہر میں کرفیو لگ گیا۔ اسی دن پولیس کی نگرانی میں ڈاکٹر محمود کو امانتًا کوئٹہ میں دفن کردیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی، خود آپکو لحد میں اُتارا اور دعا کروائی۔
اُن دنوں پنجاب میں شدید سیلاب آیا ہواتھا اس لئے یہاں سے کوئی عزیز نہ آسکے، حضورؓ کا خاندان اور کوئٹہ کی جماعت شریکِ غم رہی۔ حضورؓ نے 21 اگست 1948ئکے خطبہ جمعہ میں فرمایاکہ ’’یہ حملہ جو ڈاکٹر محمود پر کیا گیا ہے حقیقتاً یہ حملہ احمدیت پر ہے‘‘۔
میجر محمود شہید کے جسدِ خاکی کو بعد میں کوئٹہ سے ربوہ لا کر مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے 30؍اپریل 1999ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’خلافتِ ثانیہ کے دَور کی ایک قربانی جو 1948ء میں ہوئی اس کا ذکر کرتا ہوں۔ ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب،امرتسر کی مشہور احمدی فیملی کے چشم وچراغ تھے۔ قاضی محمد شریف صاحب ریٹائرڈ انجینئر لائل پور کے صاحبزادہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب بہت متدین نوجوان تھے۔ انہوں نے قادیان میں بھی درویشی کے ایام کاٹے ہیں اور وہاں اپنے آپ کو وقف کیا تھا۔ زمانۂ درویشی کے ابتدائی ایام نہایت وفا شعاری سے قادیان میں گزارے اور گراں قدر طبّی خدمت بجالاتے رہے‘‘۔ حضورؒ نے جسٹس منیر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے اس واقعہ سے متعلق اقتباس بھی پڑھے کہ: ’’کوئی شخص اس اسلامی شجاعت کے کارنامہ کی نیک نامی لینے پر آمادہ نہیں ہوا اور بے شمار عینی شاہدوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں نکلا جو ان غازیوں کی نشاندہی کرسکتا یا کرنے کا خواہشمند ہوتا جس سے یہ بہادرانہ فعل صادر ہوا۔ لہٰذا اصل مجرم شناخت نہیں کئے جاسکے اور مقدمہ بے سراغ داخل دفتر کردیا گیا۔‘‘
اس المناک واقعہ کے وقت میری عمر صرف 23 سال تھی۔ میری کل پونجی 175روپے، کچھ زیور اور گھر کا تھوڑا سا سامان تھا۔بڑا بیٹا احمد مسعود سوا سال کا تھا اور احمد محمود کی پیدائش 5ماہ بعد ہونی تھی۔ میری تعلیم نامکمل تھی۔ میں تقریباً دو سال بچوں کے ساتھ اپنے سسرال میں رہی۔ پھر اپنے چھوٹے بھائی رفعت کے پاس لاہور آگئی جو اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ اُس کی سرپرستی سے مَیں نے پبلک ہیلتھ نرسنگ کا کورس مکمل کیا اور ایک سو روپیہ فی مہینہ کی تنخواہ پر ملازمت کرلی۔ بچے میری امی اور بھابھی نے سنبھالے۔ بھائی اور بھابھی نے میرے اور اپنے بچوں میں کبھی فرق نہیں کیا۔ احمد مسعود F.A. کے بعد ملٹری اکیڈیمی میں چلا گیا اور میجر بن کر ریٹائرڈ ہوا۔ احمد محمود نے نیشنل کالج آف آرٹس میں آرکیٹیکٹ کا پانچ سالہ کورس کیا جس میں فرسٹ آکر گولڈمیڈل حاصل کیا۔ بعد میں امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔