میجر جنرل ڈاکٹر نسیم احمد صاحب اور آپ کے والد محترم ڈاکٹر عبداللہ صاحب
محترم میجر جنرل ڈاکٹر نسیم احمد صاحب کے والد محترم ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کوئٹہ میں پریکٹس کیا کرتے تھے اور وہاں امیر جماعت احمدیہ بھی تھے۔ بہت باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ 1960ء میں جب محترم نسیم صاحب ڈاکٹر بننے کے بعد کوئٹہ گئے تو وہاں کے دوسرے ڈاکٹروں نے آپ کو اپنے ایک اجلاس میں بلاکر کہا کہ اگرچہ آپ کے والد صاحب بہت بڑے ڈاکٹر اور ہماری تنظیم کے صدر ہیں لیکن وہ صرف ایک روپیہ فیس لیتے ہیں جس سے ہماری فیس خود بخود 50 پیسے ہوجاتی ہے۔ اُن کی شخصیت کی وجہ سے ہم یہ بات خود ان سے عرض نہیں کر سکتے۔ اس لئے یہ کام آپ کریں۔ محترم ڈاکٹر نسیم صاحب نے اپنے والد محترم سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
سردیوں کی ایک شام محترم ڈاکٹر نسیم صاحب اپنے والد کے کلینک پر حاضر ہوئے تو محترم ڈاکٹر عبد اللہ صاحب ذکر الٰہی میں مصروف تھے۔ سارا دن کوئی مریض نہیں آیا تھا۔ کلینک بند کرنے سے پہلے انہوں نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ آج کوئٹہ کے سب لوگ صحت سے ہیں۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر نسیم صاحب پریشان ہوگئے کہ ایسی دعا کے بعد اُن سے فیس میں اضافہ کے لئے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ تاہم جب دونوں گھر کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور آپ یوں کہنے لگے: ابا جان آپ کو پیدل چلنے میں تکلیف ہوتی ہے آپ کار لے لیں۔ مقصد یہ تھا کہ کار خریدنے کے لئے رقم کا سوال ہو گا تو فیس بڑھانے کا مشورہ دیدوں گا۔ لیکن آپ کے یہ بات کہنے پر آپ کے والد محترم رُک گئے اور فرمایا: ’’میاں نسیم! تم میرے خدا کب سے بن گئے ہو؟ جس دن عبد اللہ کو کار کی ضرورت ہو گی اُس کا مولا کریم اِس کا انتظام فرمادے گا‘‘۔ اپنے والد محترم کی طرف سے ملنے والے توکّل اور خدمتِ انسانیت کے اس سبق کو محترم ڈاکٹر نسیم صاحب نے خود بھی ہمیشہ یاد رکھا۔
محترم ڈاکٹر نسیم صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم محمد سعید احمد صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍مئی 1996ء میں مزید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بریگیڈیئر مسعودالحسن نوری صاحب اپنا چندہ تحریک جدید پہلے ہی شرح سے زیادہ دیا کرتے تھے اور انہوں نے ایک خواب کی بنا پر اپنا چندہ دُگنا کر دیا اور سوچا کہ شاید راولپنڈی کی جماعت میں اب اُن کا چندہ ہی سب سے زیادہ ہو گا۔ جب انہوں نے سیکرٹری مال سے تصدیق چاہی تو انہیں حیرت ہوئی کہ مکرم ڈاکٹر نسیم صاحب اب بھی سرفہرست تھے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ گزشتہ تیس سالوں میں محترم ڈاکٹر نسیم صاحب سے اُن کی سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں لیکن اُن کے منہ سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی بلکہ وہ دوسروں کی برائی میں سے بھی کوئی نہ کوئی اچھی بات نکال لیتے تھے البتہ ہر اس بات کو اخفاء میں رکھتے جس سے خود اُن کی تعریف کا پہلو نکلتاہو۔