میرا سائنسی شریک کار، عبد السلام
نظری طبیعات کے ماہر پروفیسر جوگیش پتی (Jogesh Pati) اڑیسہ میں 1937ء میں پیدا ہوئے۔ عرصہ دراز تک یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ڈیپارٹمنٹ آف فزکس کے سربراہ رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد سٹین فورڈ نیشنل ایکسیلیٹر لیبارٹری (SLAC) کیلیفورنیا میں کام کررہے ہیں۔ آپ نے مئی 1997ء میں ایک مضمون تحریر کیا تھا جو کہ ’’فزکس ٹوڈے‘‘، ’’انڈین فزکس ایسوسی ایشن‘‘ کے میگزین ’’فزکس نیوز‘‘ اور انڈین فزکس ایسوسی ایشن کی امریکن برانچ کے رسالہ ’’نیوز لیٹر‘‘ میں بھی شائع ہؤا تھا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مئی 2010ء میں اس مضمون کا اردو ترجمہ (از مکرم زکریا ورک صاحب) شائع ہوا ہے۔
عبد السلام کی وفات ستر سال کی عمر میں 21 نومبر 1996ء کو ان کے اپنے گھر آکسفورڈ میں ہوئی تھی۔ وہ ایک عظیم سائنسدان اور انسانیت نواز شخص تھے اور انہوں نے تیسری دنیا میں سائنس کی ترویج کے لئے زرّیں خدمات انجام دی تھیں اور اپنے فعال کیر ئیر کا کثیر حصہ اس نصب العین کے لئے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگی بھر کی کوششوں کی وجہ سے چند ایک بہترین ریسرچ سینٹرز وجود میں آئے۔ ٹریسٹ (اٹلی) میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس کی بنیاد بھی انہوں نے 1964ء میں رکھی تھی اور30 سال تک اس کے ڈائر یکٹر رہے تھے ۔ نیز متعدد انٹرنیشنل فاؤنڈیشنز کی بھی داغ بیل ڈالی بشمول تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کے۔ فزکس میں اہم خدمات سر انجام دینے کی وجہ سے اُنہیں متعدد انعامات دیئے گئے بشمول رائل میڈل ، رائل سوسائٹی آف لندن کا کوپلی میڈل، میکس ویل پرائز اور نوبیل پرائز۔ وہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے زبردست حامی تھے ۔ امن اور بین الاقوامی تعاون میں خدمات کی وجہ سے ان کو کئی بڑے انعامات دیئے گئے مثلاً 1968ء میں ایٹمز فار پیس ایوارڈ، اور1989ء میں سائنس فارپیس پرائز۔ 1989ء میں اُن کو آنریری نائٹ کمانڈر آف دی برٹش ایمپائر KBE کا لقب تفویض کیا گیا۔ یہ مان لینا خاصا مشکل ہوجاتا ہے کہ ایک واحد شخص سائنس کی تخلیق اور ترویج کے لئے اتنا کچھ کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے سلام بلاشبہ ایک منفرد انسان تھے بلکہ ایک Phenomenon تھے۔
سلام 1926ء میں چھوٹے سے شہر جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انڈر گریجوایٹ کی تعلیم اس رنگ میں مکمل کی کہ ان کو پنجاب یونیورسٹی سے 1946ء میں بہت سارے ایوارڈ ز ملے اور پھر سینٹ جانز کالج (کیمبرج برطانیہ) سے سکالرشپ بھی مل گئی۔ کیمبرج یو نیورسٹی میں بھی انہوں نے سب طالبعلموں پر سبقت حاصل کر کے فزکس اور ریاضی میں ڈبل فرسٹ حاصل کی۔ پھر اُنہوں نے تھیوریٹیکل فزکس کا وہ مسئلہ چند ہی مہینوں میں حل کردیا جو دو دہائیوں سے بہت مشکلات پیدا کررہا تھا۔ اس پر ان کو کیمبرج یونیورسٹی نے 1950ء میں سمتھ پرائز کا حقدار قرار دیا اور اسی سائنسی معرکہ کی وجہ سے سلام اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہی عالمی شہرت کے حامل ہو گئے۔
کیمبرج میں ڈاکٹر یٹ مکمل کرنے کے بعد ، سلام 1951ء میں پنجاب یونیورسٹی میں میتھ کے پروفیسر بن کر پاکستان لَوٹ گئے لیکن سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی نہ ہونے نیز فزکس کے میدان میں اکیلے پن کی وجہ سے وہ بددل ہوکر 1954ء میں سینٹ جانز کالج میں لیکچرار اور فیلو بن کر واپس کیمبرج آ گئے۔ پھر امپیرئیل کالج (لندن یونیورسٹی) میں پروفیسر کا عہدہ قبول کر لیا۔ یہاں وہ دنیا کا پہلا تھیورٹیکل فزکس گروپ قائم کرنے میں بھی کا میاب ہوئے۔ اس عرصہ میں سلام کا بہترین کام Two-component Theory of Neutrino کی تجویز تھی ۔ اس کے علاوہ Chirality Symmetry کا آئیڈیا تھا جو دو دیگر سائنسدانوں نے بھی پیش کیا تھا تاکہ نیوٹیرینو کے بے وزن ہونے کے مسئلہ کو سلجھایا جا سکے۔ ان کاموں کی بِنا پر سلام 33 سال کی عمر میں رائل سوسائٹی کے سب سے کم عمر والے فیلو چن لئے گئے۔ 1957-1967ء کے دوران سلام کی ریسرچ کا مرکزی موضوع Weak Radioactive Force اور Electro- magnetic Force کے مابین اتحاد تھا۔ یہ سائنسی آئیڈیا 1957ء میں جو لیئن شونگر نے پیش کیا تھا اور اس پر کئی سائنسدان کام کرتے رہے تھے۔ ان تمام تحقیقات کی روشنی میں وائن برگ نے 1967ء میں اور سلام نے 1968ء میں Electroweak Unification کا ماڈل تجویز کیا جو اُس وقت بسرعت مقبول ہوگیا جب Gerard t’Hooft نے ثابت کردیا کہ یہ ماڈل Re-normalize ہونے کے قابل ہے۔ سلام کا یہ کام پارٹیکلز فزکس میں سٹینڈرڈ ماڈل کا حصہ ہے اور اسی کے سبب 1979ء میں انہیں گلاشو اور وائن برگ کے ساتھ نوبل انعام دیا گیا۔
1974-75ء کے دوران سلام اور ایک اَور سائنسدان سٹرادھی نے Super-Symmetry سے متعلق ایک نمایاں کام کیا۔ فیلڈ تھیوریز میں ان دونوں کی تھیوری بھی ناگزیر ثابت ہو چکی ہے۔
پروفیسرسلام اور میرا سائنسی تعاون1972ء میں ٹریسٹ کی میری مختصر وزٹ کے دوران شروع ہوا تھا، اور اگلے دس سالوں تک اس میں بہت گہما گہمی رہی تھی۔ مئی 1972ء میں جب میں ٹریسٹ پہنچا تو مجھے معلوم ہؤا کہ ’’گلاشو-سلام-وائن برگ ماڈل‘‘ کے اصل سے قدرے مختلف نمونوں پرمقالہ جات کی بھر مار ہو چکی ہے۔ سہ پہر کے وقت چائے پینے کے دوران مَیں نے سلام سے ایک نئی تھیوری پر بات کی تو میرا خیال تھا کہ وہ فوراً اس کی نفی کریں گے اور تذبذب کا اظہار کریں گے جیسا کہ بعض دوسرے سائنسدانوں نے کیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر سلام نے کہا: ’’یہ بہت ہی اعلیٰ قسم کا خیال ہے، آؤ ہم دونوں مل کر اس پر مزید کام کرتے ہیں‘‘۔ اس قسم کی فوری ستائش میرے لئے حوصلہ افزائی کا منبع تھی۔
اس کے کچھ روز بعدپروفیسر سلام نے بہت ہی اہم آئیڈیا پیش کیا جو الیکٹران اور پروٹان کے چارجز کے بارہ میں تھا۔ چنانچہ ہماری تحقیق زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ دو ہفتوں کے بعد دو پہر کے وقت مجھے ایک اَور آئیڈیا سوجھا۔ اگرچہ یہ اتوار کا روز تھا ، سلام اس وقت سینٹر میں اپنے دفتر میں دفتری کام میں مصروف تھے لیکن مجھے کہا کہ میں اُن کو ملنے چلا آؤں۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے اس روز کی آخری بس مل گئی اور دوپہر کے آخری حصہ میں مرکز ICTP پہنچ گیا۔ یہ آئیڈیا جو چند گھنٹوں قبل مجھے سوجھا تھا ، سلام برجستہ میرے ولولہ اور خوشی میں برابر کے شریک ہوگئے اور سوچنے لگے کہ شاید یہ نظریہ ہی بنیادی نظریہ ثابت ہوجائے۔ 1973ء میں ہماری تجویز کہ ’پروٹان زوال پذیر ہے‘، پر فزکس کمیونٹی نے شک و و شبہ کا اظہار کیا تھا۔ ہمارا مقالہ ’فزیکل ریویو لیٹرز‘ میں شائع نہ ہو سکا کیونکہ ریفری نے اس کو ردّ کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں جب میں نے اس کا تردیدی جواب لکھا تو چیف ایڈیٹر نے اس کو قبول کرلیا تھا۔ ہم نے اس ضمن میں تجرباتی سائنسدانوں سے بھی رابطہ کیا کہ وہ پروٹان کے زوال پذیر ہونے کے بارہ میں تجربات دوبارہ شروع کردیں۔
سلام کے ساتھ میرا سائنسی تعاون دس سال کے عرصہ پر محیط تھا۔ اس دوران لاتعداد خطوط، فیکسز، فون پر دلائل اور دلائل کا ردّ، آمنے سامنے مختلف نظریات کا اظہار اور گرما گرم بحث، فزکس میں نظریاتی بحثیں، مگر یہ سب کچھ اچھے ماحول اور صاف دلی سے کیا گیا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ان کو کوئی آئیڈیا سوجھتا اور وہ فوراً جوش میں آجاتے تھے۔ اگر مَیں اس کے جواب میں کہتا کہ میں اس آئیڈیا کو فلاں فلاں وجوہات کی بِنا پر پسند نہیں کرتا، تو وہ بے صبر ہوجاتے لیکن چاہے میں صحیح ہوتا یا غلطی پر ہوتا، وہ کبھی بھی برانہیں مناتے تھے ۔
عبدالسلام جہاں اپنی ریسرچ میں آگے کی طرف گامزن تھے، وہاں انہوں نے تیسری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا اپنا مطمح نظر کبھی نظرانداز نہ ہونے دیاتھا۔ حقیقی معنوں میں ان کو دکھ پہنچتا تھا کہ تیسری دنیامیں قابل نوجوانوں کو مواقع فراہم نہیں ہوتے اور ’’خوابیدہ قابلیت والے اعلیٰ درجہ کے سائنسدان ضائع ہوجاتے ہیں‘‘۔ وہ تیسری دنیا کے سائنسدانوں کی علمی تنہائی سے بھی نالاںتھے جس سے اُن کواپنے وطنوں میں واسطہ پڑتا ہے۔ سائنسدانوں کی مدد کرنے کے مصمّم ارادے سے انہوں نے 1960ء میںاقوام متحدہ کے ادارہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) سے رابطہ قائم کیا تاکہ کسی جگہ پر انٹرنیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس قائم کیا جا سکے۔ اُن کی تجویز کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ترقی پذیر ملک کے نمائندہ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ’’تھیورٹیکل فزکس سائنس کی رولز رائیس ہے ، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو صرف بیل گاڑیوں کی ضرورت ہے‘‘۔ چار سال تک سلام اور اُن کے رفقائے کار نے بڑی شدّت سے اپنی مہم جاری رکھی، اور آخرکار 1964ء میں IAEAکی جزوی اور اٹلی حکومت کی بنیادی مدد سے یہ سینٹر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
عبد السلام کی اَنتھک کوششوں کے طفیل یہ سینٹر ریسرچ اور ٹریننگ کے میدان میں اعلیٰ درجے کے سائنسدان پیدا کررہا ہے۔ یہاں ہر سال ورکشاپس اور سمر سکولز کے ذریعہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے سائنسدان باہم ملاقات کرتے ہیں۔ سینٹر کی 33 سالہ تاریخ میں 60 ہزار سائنسدان سینٹر کی میزبانی سے لطف اندوز ہوچکے ہیں جن میں نصف تعداد ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
ساحل سمندر اور پہاڑیوں سے گھرے ہوئے ٹریسٹ میں سلام نے کبھی بھی کام سے چھٹی نہیں کی تھی۔ ان کا خاندان برطانیہ میں مقیم تھا اور وہ سینٹر کی عمارت سے ملحقہ حویلی میں رہائش پذیر تھے۔ ہر دو ہفتے بعد وہ چند روز کے لئے اپنی فیملی سے ملنے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ذہنی اتحاد اُن کے لئے ہرآن اندرونی صلابت کا منبع ہوتا تھا۔ آپ ایک مؤثر مقرر اور بہترین سفارتکار تھے۔ آپ کی وہ تقاریر جو اقوام متحدہ کے عام سامعین کے لئے ہوتی تھیں، وہ قصوں، مماثلتوں ، تشبیہات اور حقائق سے معمور ہوتی تھیں ۔
سلام تیسری دنیا میں مقیم سائنسدانوں کی ضروریات و حوائج کو دلی طور پر محسوس کرتے تھے۔ اپنے احساسات کا عملی رنگ میں اظہار کرنے کے لئے انہوں نے نوبیل انعام سے ملنے والی ساری رقم ترقی پذیر ممالک میں سائنس کے فروغ کے لئے دیدی تھی۔ انتہائی مصروفیت کے باوجود وہ سینٹر میں آنے والے ہر شخص سے ملنے کا اہتمام کرتے تھے اور اس کوشش میں رہتے کہ تمام ایسے افراد کی ضروریات کو حتی الوسع پورا کرسکیں۔ ایسی شاندارخصوصیات کاایک شخص میں مجتمع ہوجانا ہی وہ وجوہات ہیں کہ سلام نے بہت بڑھ کر کامیابیاں حاصل کیں۔
عبد السلام نے پوری دنیا میں ICTP جیسے 20 سینٹرز قائم کرنے کا سپنا دیکھا تھا جن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں پر ریسرچ کی جاسکے ۔ انہوں نے دولت سے مالامال ترقی یافتہ اور کئی ایک ترقی پذیر ممالک (خاص طورپر عرب ممالک سے) اس ضمن میںدرد مندانہ اپیل کی اور انہیں اپنے ممالک میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں زیادہ مالی امداد فراہم کرنے کے لئے کہا۔ انہوں نے ورلڈ بنک سے بھی رابطہ قائم کیا اور 1990ء میں انہیں جزوی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔ سلام ایک عالمی یونیورسٹی کے قیام کا سپنا بھی دیکھ رہے تھے۔ لیکن سلام کی کوششوں میں اُن کی زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں ایک اعصابی بیماری کے لاحق ہوجانے سے سخت رکاوٹ پڑ گئی۔ تا ہم کئی دیگر افراد کی کوششوںسے آپ ایک انٹر نیشنل سینٹر فار جینیٹک انجینئرنگ اینڈ بائیو ٹیکنالوجی جس کی شاخیں ٹریسٹ اور دہلی میں تھیں ،اور ٹریسٹ میں انٹرنیشنل سینٹر فار سائنس اینڈ ہائی ٹیکنالوجی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے علاوہ آپ کسی ممکنہ حد تک ایڈنبرا (سکاٹ لینڈ)، بوگاٹا (کولمبیا)، IOWA سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ، اور جنوبی کوریا میں فزکس سینٹرز کے قیام میں مصروف عمل رہے تھے۔ اگر عبدالسلام نے اچھی صحت میں زندگی کے کچھ سال اَور گزار ے ہوتے تو بہت سارے اور ادارے قائم ہوجانے تھے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو مخاطب ہوتے ہوئے سلام اکثر یہ محاورہ استعمال کرتے تھے: سائنس سستی تو نہیں مگر اس پر ہونے والا خرچ دس گنا واپس لائے گا۔
عبد السلام کو بیسویں صدی کے عظیم سائنسدان اور انسانیت نواز شخص کے طور پر یا د رکھا جائے گا جس نے تیسری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مقام کو بلند کرنے کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ 20 بین الاقوامی مراکز نیز ورلڈ یونیورسٹی قائم کرنے کا سپنا دیکھنا شاید اپنے دَور سے وہ بہت آگے تھے۔ لیکن آج کے سائنسدانوں اور عالمی لیڈروں کا یہ کام ہے کہ وہ اس سپنے کو پورا کردیں۔