’’میری پونجی‘‘

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری 2014ء)

 


(فرخ سلطان محمود)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورِ ہجرت کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تاریخ میں کئی نئے ابواب رقم ہوئے۔ ایک طرف پاکستان میں جبروتشدّد کے نئے سلسلوں کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہیں۔ تو دوسری طرف جماعت احمدیہ کی فتوحات کا جھنڈا نئے ممالک میں لہرانے لگا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی انسانیت کے لئے خدمات کے نئے پہلو دنیا پر آشکار ہوئے۔ چنانچہ احمدیت کے طفیل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والے لاکھوں انسانوں کی تربیت کی ذمہ داریوں نے خلافت احمدیہ کے گرد ایسے خدمتگار پیدا کردیئے جنہوں نے اپنے آقا کا دست راست بننے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ لبیک کہا۔ ان خدمتگاروں میں ایسے خاندان بھی شامل تھے جن کے تمام مردوزن اور بچے بھی خدمت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ان کے ہر فرد میں دینی خدمت کا جذبہ نہایت درجہ قابل قدر اور قابل تقلید تھا۔
ان خاندانوں میں سے ایک گھرانہ درویش صفت محترم شیخ محمد حسن صاحب کا بھی تھا۔ ہم میں سے اکثر ضیافت ٹیم کے ایک نہایت مخلص خدمتگار کی حیثیت سے اُن سے متعارف ہوئے۔ دراصل کئی دہائیوں سے شعبہ ضیافت کے ساتھ اُن کا تعلق لازم و ملزوم کی حیثیت سے جاری تھا۔ ضیافت ٹیم کے ممبر کی حیثیت سے وہ ہر فنکشن میں نمایاں نظر آتے خواہ یہ کسی ذیلی تنظیم کا فنکشن ہوتا یا پھر کسی پرائیویٹ تقریب کا ہی سلسلہ کیوں نہ ہوتا!۔ جلسہ سالانہ سے کئی روز قبل ہی آپ اسلام آباد میں ڈیرہ لگالیتے اور جلسہ کے اختتام کے بعد جب تک مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والوں کی قابل ذکر تعداد (مقامِ جلسہ میں) موجود رہتی، آپ بھی اسلام آباد میں نظر آتے۔ سالہاسال آپ کا یہی معمول نظر آیا۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تکان سے چُور محترم شیخ صاحب کو (اُن کے دورِ ضعیفی میں بھی) مَیں نے کبھی کسی کے ساتھ تلخ کلامی کرتے یا شدید ناراض ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بعض اوقات کسی مہمان کی طرف سے زیادتی ہوجاتی یا کئی بار ڈیوٹی پر موجود کوئی کارکن آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنتا بھی، تو رنج کا اظہار آپ کے چہرہ پر دکھائی تو دیتا تھا لیکن نہ آپ کی خدمت کے انداز میں کوئی کمی آتی اور نہ آپ کی زبان سے کوئی ناشائستہ یا ناگوار بات ادا ہوتی۔ آپ کی یہی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے آپ ’’بھائی حسن‘‘ کے نام سے معروف تھے اور ہر ایک کی نگاہ میں قابل احترام تھے۔ آپ ڈیوٹی دینے والوں کی قدر کرتے اور اُن کا ہر طرح سے خیال بھی رکھتے تھے۔ میرا سالہاسال کا مشاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی سٹور میں (اشیائے خورونوش یا بستر وغیرہ) موجود ہوتا وہ دوسروں کو پیش کردینے میں کبھی تأمل نہ کرتے۔ اگر کچھ کم ہوتا تو بھی بانٹ کر کھلاتے۔ زیادہ ہوتا تو سب کچھ سامنے رکھ دیتے اور دوسروں کی خدمت کرکے جو خوشی اور اطمینان محسوس کرتے اُس کا اظہار آپ کے چہرہ پر دکھائی دیتا۔
محترم شیخ صاحب اپنی خدمات کے طفیل خلفائے عظام اور دیگر بزرگان (خصوصاً حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ) کی خاص محبت اور دعاؤں کا مورد بنتے رہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کے اہل و عیال بھی کسی نہ کسی خدمت پر مصروف نظر آتے تھے۔ مثلاً اب سے چوتھائی صدی قبل جماعت احمدیہ برطانیہ کا ’’اخبار احمدیہ‘‘ گویا آپ کے گھر سے جاری ہوتا تھا۔ اس اخبار کے مدیر محترم بشیرالدین سامی صاحب تھے جو آپ کے داماد تھے۔ مینیجر محترم اسلم خالد صاحب آپ کے بیٹے تھے۔ پیکنگ کا کام محترم شیخ صاحب کے گھر پر سارا خاندان مل بیٹھ کر کرتا۔
آج ہمارے پیش نظر ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ ایک ایسی کتاب ہے جس نے ماضی کے کئی دھندلکوں کو پھر سے روشن کردیا ہے۔ یہ کالم اُس خوبصورت تحریر کا مرہون منت ہے جسے محترم شیخ محمد حسن صاحب کی بیٹی مکرمہ صفیہ بشیر سامیؔ صاحبہ نے قلمبند کیا ہے۔ موصوفہ کی برسوں پر محیط یادوں کا سلسلہ کتاب ’’میری پونجی‘‘ کی صورت میں آج ہمارے پیش نظر ہے۔ منفرد نام کی حامل یہ کتاب کئی پہلوؤں سے اپنی طرز کی دیگر کتب سے ممتاز نظر آتی ہے۔ اس میں نہ صرف کئی خدام دین کے ذاتی اوصاف اور خدمت کرنے کے اُن کے انداز پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ تاریخ احمدیت کے حوالے سے بھی اہم معلومات اس کتاب کا حصہ ہیں۔
دیدہ زیب رنگین کور ڈیزائن کی حامل اس مجلّد کتاب کے 336 صفحات ہیں۔ کتاب کی ٹائپنگ، سیٹنگ، ڈیزائننگ بہت عمدہ ہیں۔ مؤلفہ کتاب نے اس کتاب میں اپنے سسر محترم سردار مصباح الدین احمد صاحب (سابق مبلغ انگلستان)، اپنی ساس محترمہ حاکم بی بی صاحبہ اور اپنے شوہر محترم بشیرالدین احمد سامی صاحب کے علاوہ اپنے والدین محترم شیخ محمد حسن صاحب اور محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔ نیز بعض دیگر افراد کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کا انداز بیان نہایت سادہ، سلیس، شستہ اور منظرکشی سے بھرپور ہے۔ عبارت ایسے ایمان افروز واقعات سے مزیّن ہے جنہیں پڑھ کر قاری کا دل خداتعالیٰ اور اُس کے پیاروں کی محبت کا اسیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ تحریر ایسی دلچسپ ہے کہ کتاب کے مطالعہ کے دوران گویا وقت تھم جاتا ہے اور تکان کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے چند منتخب واقعات اپنے قارئین کی نذر کرتے ہوئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالہ سے آپ یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیں گے۔ ممکن ہے کہ کتاب کے کسی کردار سے آپ واقف ہوں یا پھر خود کو بھی اس کتاب کا ایک کردار محسوس کریں۔
* محترم سردار مصباح الدین احمد صاحب سابق مبلغ انگلستان ایک صاحبِ کشف و رؤیا، مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ زہدو تقویٰ، عبادت و ریاضت ان کی روح کی غذا تھی۔ آپ اکتوبر 1899ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور پھر حصولِ تعلیم کا شوق اْنہیں سیالکوٹ شہر لے آیا۔ بچپن سے چونکہ نماز اور عبادت کی عادت تھی سیالکوٹ آکر بھی اْنہیں کسی مسجد کی تلاش ہوئی اور یہی تلاش اْنہیں کبوتراں والی مسجد میں لے آئی جس کے امام حضرت حافظ مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹیؓ ایک تقویٰ شعاراور مرنجان مرنج بزرگ تھے۔اُن کی خاص نظر اس نیک خصلت نو وارد نوجوان پر پڑی تو اس کے اخلاص کو دیکھ کر تدریس کے ساتھ ساتھ روحانی فیض بھی عطا کیا۔ چنانچہ یہی تعلق بعد میں قبول احمدیت کا سبب بنا اور 1910ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ پانچ بھائی تھے جن میں سے ایک چھوٹے بھائی مکرم سراج الدین صاحب کو بھی قبول احمدیت کی سعادت ملی۔
1915ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں خدمت دین کے لیے زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو جن افراد نے اس آواز پر لبیک کہا اُن میں محترم سردار مصباح الدین صاحب بھی شامل تھے۔ دراصل آپ کا نام آپ کے والدین نے چراغ دین رکھاتھا۔ لیکن زندگی وقف کرنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپ کو انگلستان بھجوانے سے قبل یہ نام بدل کر مصباح الدین رکھ دیا۔ معنی کے لحاظ سے دونوں کا اگرچہ ایک ہی مطلب بنتا ہے۔
14؍ اگست 1922ء کو محترم سردار صاحب قادیان سے لندن کے لئے روانہ ہوئے۔ لندن میں تبلیغی مساعی کے دوران کئی اہم واقعات آپ کے ذریعہ سرانجام پائے۔ جن میں شاہ اردن سے احمدیہ وفد کی ملاقات اور تبلیغی گفتگو بھی شامل ہے۔ کرنل ڈگلس کی دریافت میں بھی محترم مولوی مبارک علی صاحب کی راہنمائی میں آپ نے قابل ذکر کردار ادا کیا۔ 1924ء میں ہونے والی ویمبلے کانفرنس میں شمولیت کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی لندن میں تشریف آوری ایک تاریخی موقع تھا۔ اسی موقع پر مسجد فضل لندن کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ بعد ازاں حضورؓ کے ہمراہ قافلہ میں شامل ہوکر محترم سردار صاحب انگلستان سے واپس ہندوستان تشریف لے آئے۔
واپس آکر محترم سردار صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے پبلک جلسوں یا مناظروں میں عام طور پر عوام ہی شامل ہوتے ہیں، خواص اپنے خاص ہونے اور وضعداری سے ان جلسوں میں شامل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان تک ہماری تبلیغ نہیں پہنچتی ، اس غرض سے اگر اجازت ہو تو لاہور کے بڑے بڑے رؤسا اور اکابرین کو فرد اًفرداً مل کر ان تک حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچایا جائے۔ حضورؓ کو یہ تجویز پسند آئی۔ پھر یہ تجویز انجمن میںپیش ہوئی اور منظوری کے بعد محترم سردار صاحب کو لاہور بھجوا دیا گیا۔ آپ نے متعدد ہندو، سکھ اور عیسائی اکابرین کو ان کے گھروں میں جاکر سلسلہ کا تعارف کر وا یا اور انہیں مختلف لٹریچر قیمتاً دیا گیا۔ اس کارگزاری کا مجلس مشاورت میں ذکر کرتے ہوئے حضورؓ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
1926ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر فرمایا۔ 1928ء میں جامعہ احمدیہ کا آغاز ہوا تو آپ اس کے سٹاف میں شامل تھے۔ لمبا عرصہ ہوسٹل جامعہ کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔ نظارت ضیافت میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ افسر استقبال جلسہ سالانہ بھی رہے۔آپ نے مسجد اقصیٰ میں ’’ذکرحبیبؑ‘‘ کے نام سے مجالس کا سلسلہ شروع کیا جسے حضورؓ اور دیگر بزرگان نے بہت پسند کیا جبکہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ایک سرخ رنگ کی شال بھی عطا فرمائی۔
قیام پاکستان کے بعد محترم سردار صاحب چنیوٹ میں آبسے لیکن ربوہ آپ کا اصل مسکن تھا جہاں کثرت سے آمدورفت رہتی۔
1978 ء میں لندن میںکسرِ صلیب کا نفرنس میں بھی آپ کو شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ تاریخی اعتبار سے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور محترم سردار مصباح الدین صاحب دو ایسے وجود تھے جنہیں1924ء کی ویمبلے کانفرنس اور 1978 ء میں صلیب کانفرس میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا۔
محترم سردار مصباح الدین صاحب کی قبولیتِ دعا کے بعض واقعات زیرنظر کتاب کی زینت ہیں۔ آپ ایک بہت اچھے قلمکار بھی تھے اور ریویو آف ریلیجنز میں آپ کے متعدد رشحاتِ قلم شامل ہیں۔
آپ کی وفات یکم اگست 1988ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت حافظ مختار احمد صاحبؓ شاہجہانپوری اپنی سوانح حیات میں محترم سردار صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں:

وہ جوان ذی خرد مصباح دین روشن خیال
وہ طلبگارِ ضیائے دل کشائے قادیاں
صوفی پاکیزہ طینت ، فلسفی و حق پرست
سر بسر پابندِ آئینِ وفائے قادیاں
روز شب سرمست و سر شارِ مے ذکرحبیب
دم بہ دم محو ثنائے مقتدائے قادیاں
خیر خواہِ خلق و نیک اطوار و خوش طبع و خلیق
تابعِ حکم جنابِ رہنمائے قادیاں

* محترم سردار صاحب کی اہلیہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ ان کی زندگی میں ہی وفات پاگئی تھیں۔ شادی کے بعد قادیان آئیں تو احمدی نہیں تھیں اور نہ ہی قرآن کریم پڑھا ہوا تھا۔ آپ کے گھر والوں نے آپ کو قادیان جانے سے بہت روکا اور ڈرایا کہ وہاں دین خراب ہوجاتا ہے وغیرہ۔ لیکن آپ نے اُن کا دباؤ قبول نہیں کیا اور آخر اپنی ساری چیزیں اور زیور کی قربانی دے کر آپ خالی ہاتھ قادیان آگئیں۔ یہاں ایمان کی دولت سے مشرف ہوئیں، پہلے خود قرآن پڑھا اور پھر ساری عمر دوسروں کو پڑھایا۔ اردو لکھنا پڑھنا بھی یہاں تک سیکھ لیا کہ رسالہ مصباح میں مضمون شائع ہونے لگے۔
آپ تہجدگزار اور رؤیا صالحہ کی نعمت سے بہرہ ور تھیں۔ نہایت قانع اور نظافت اور طہارت کے بارہ میں بڑی حساس تھیں۔ کشادہ دل اور مہمان نواز تھیں۔ گھر کے سامنے آم کا باغ تھا جس میں کئی راہگیر سستانے کے لئے رُک جاتے۔ آپ نے اپنے بچوں کی ڈیوٹی لگارکھی تھی کہ ہر وقت وہاں پینے کے پانی کا انتظام رکھیں اور صحن کا دروازہ بھی ہر وقت اُن انجان مہمانوں کے لئے کھلا رہتا۔ ایک بار تپ دق کے ایک ایسے مریض کی تیمارداری کرتی رہیں جسے اُس کے لواحقین بھی تپ دق کے خوف سے بے یارومددگار چھوڑ گئے تھے۔
تقسیم ہند کے وقت جب دُور دُور سے مسلمان قافلے پناہ کے لئے قادیان پہنچنے لگے تو سامنے کے باغ میں مقیم ایک قافلہ نے رات کو بارش شروع ہونے کے بعد آپ کے گھر کے دروازہ پر دستک دی۔ انہوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو اندر بھجوادیا اور محترمہ حاکم بی بی صاحبہ کا حوصلہ دیکھئے کہ گھر کے تمام بستر ، چارپائیاں ، غرضیکہ ہر چیز اپنے ان مہمانوں کے سامنے پیش کر دی۔ جہاں جہاں جگہ ملی چولہے جلا دئے گئے۔ بچوں کا دودھ گرم ہونے لگا۔ روٹیاں پکنے لگیں۔ سٹور میں سردیوں کیلئے جمع شدہ ایندھن اُن پناہ گزینوں کے سپرد تھا۔ پھر لنگرخانہ سے کھانا آنے لگا۔
قیام پاکستان کے بعد جب وہ چنیوٹ میں آبسیں۔ اگرچہ یہاں آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور لٹ لُٹا کر پہنچے تھے لیکن اس نئے ماحول میں بہت جلد اپنی جگہ بنالی۔ صبح سے لیکر دن ڈھلے تک مسلسل عورتیں اور بچے قرآن کریم پڑھنے آنے لگے۔ اس ماحول میں وہ ’’بے بے‘‘ کے نام سے پہچانی جانے لگیں۔ 1953ء میں فسادات کی لہر کے دوران انہیں افرا تفری میں مکان کو کھلا چھوڑکر ربوہ جانا پڑا۔ لیکن جب حالات ساز گار ہونے پر واپس آئے تو دیکھا کہ پڑوسیوں کا یہ اخلاص تھا کہ انہوں نے اس گھر کے احترام کی وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ ہونے دیا۔
جب بھی آپ کو کسی نے مدد کے لئے پکارا تو اپنے حالات خواہ کیسے ہی ہوں آپ نے مدد ضرور کی۔ ایک بار کسی سوال کرنے والے کو اپنا آدھا کمبل کاٹ کردے دیا تاکہ وہ اپنے نوزائیدہ بچہ کو اُس میں لپیٹ کر سردی سے بچاسکے۔ ایک روز اچانک کسی مہمان کے آجانے پر دیکھا گھر میں کو ئی چیز نہیں تھی، جانے کہاں سے دودھ پتی کا انتظام کیا۔ جلانے کے لیے جب کچھ نہ ملا تو جس پیڑھی پر بیٹھی تھیں اْس کو توڑا، آگ جلائی اور مہمان کو چائے پیش کر دی۔
محترم سردار مصبا ح الدین احمد صاحب اور محترمہ حاکم بی بی صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹوں میں سے ایک مکرم سر دار عبد القادر صاحب مرحوم تھے جنہوں نے 1974 ء تک چنیوٹ جمات کے جنرل سکرٹری کے عہدہ پر کام کیا ، 1974 ء کے فساد کی وجہ سے چنیوٹ سے جانا پڑا۔ چھ مہینے ربوہ گزارنے کے بعد جب واپس آئے تو 1999 ء تک چنیوٹ جماعت کے صدر رہنے کی سعادت ملی۔ پھر جرمنی آکر بھی آخری سا نس تک خدمت دین کرتے رہے ۔ اسی طرح ایک دوسرے بیٹے مکرم ناصرالدین احمد سامی صاحب مرحوم سٹی بینک مری میں اپنے حلقہ کے صدر رہے۔ اِن کے وقت میں جب بھی خلفاء کرام کا مری میں قیام ہوتا تو ان کے گھر بھی مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ایک تیسرے بیٹے مکرم بشیرالدین احمد صاحب سامی مرحوم تھے۔
* محترم بشیرالدین احمد سامی صاحب 2؍نومبر 1932ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ میٹرک قیام پاکستان کے بعد چنیوٹ سے پاس کیا۔ کچھ عرصہ دفتر حفاظت مرکز اور بیت المال میں کام کیا۔ اس دوران بیمار ہوگئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے ازراہ شفقت دو مرتبہ تین تین سو روپے کی رقم سے امداد کی۔ پھر آپ کراچی جاکر نیوی کے ہیڈ کواٹر میں ملازم ہوگئے۔
زیرنظر کتاب کی زینت محترم سامی صاحب کی بعض تاریخی یادداشتیں بھی ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ 1953ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر 28 دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے ’’سیر روحانی‘‘ کے مو ضوع پر جو جلالی خطاب فرمایا تھا۔ اس کی آڈیو ریکارڈنگ اس وقت جماعت کے پاس موجود ہے۔ محترم سامی صاحب اُن دنوں احمدیہ ہال کراچی میں مقیم تھے۔ آپ کا بیان ہے کہ اس تاریخی جلسہ کے اختتام کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے جب دفتر والوں سے دریافت فر مایا کہ کیا انہوں نے اس خطاب کو آڈیو پر محفوظ کیا ہے؟ تو جواب نفی میں ملا۔ تحریک جدید کے پاس اس وقت ریکارڈ کے لیے دو مشینیں موجود تھیں۔ اس کے باوجود یہ تقریر ریکارڈ نہ ہو سکی۔ وجہ یہی بیان ہوئی کہ ریکارڈنگ کے لیے ایک مشین جلسہ گاہ میں موجود تھی۔ لیکن اس مشین کی خرابی کی وجہ سے ریکارڈنگ نہ ہو سکی اور دوسری مشین جو درست حالت میں تھی اس کو فوری طور پر مہیا نہ کیا جا سکا۔ حضورؓ نے مزید دریافت فرمایا کہ باہر سے کسی اَور دوست نے اس خطاب کو ریکارڈ کیا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ بورنیو سے مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے اپنی مشین پر اسے محفوظ کیا تھااور وہ ربوہ سے کراچی جا چکے ہیں اور ایک دو روز میں ان کا بحری جہاز بورنیو کے لیے روانہ ہو نے والا ہے۔ اس پر حضورؓ نے دفتر کے ایک کارکن کو فوری طور پر ریل گاڑی سے کار آمد مشین کے ساتھ کراچی بھجوایا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب احمدیہ ہال میں مقیم تھے اور اُن کا بحری جہاز اگلی شام روانہ ہونے والا تھا اور اس پر اُن کا سفر کرنا ضروری تھا۔ ورنہ اگلے جہاز کے لیے چار ماہ کراچی میں انتظار کرنا پڑتا۔چنانچہ فوری طور پر ایک ہی رات میں یہ معرکتہ الآرا ء خطاب دفتر والوں کی مشین پر منتقل ہوا۔
محترم سامی صاحب 1954ء میں کراچی گئے۔ ملازمت کے ساتھ آٹھ سال آپ کو دین کی خدمت کا موقعہ ملا۔ خدام الاحمدیہ میں چار سال تک متواتر علم اِنعامی حاصل کرنے کا اعزازبھی بطور معتمد مجلس آپ کو ملتا رہا۔ اس دوران حضرت مصلح موعودؓ کی کراچی میں آمد اور قیام کے دوران بھی خاص خدمت کی توفیق عطا ہوتی رہی۔ اخبار ’’المصلح‘‘ میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’المصلح‘‘ اخبار کی انتظامیہ خدام الاحمدیہ کراچی تھی۔ خدام نے اخبار کو روز نامہ تو بنا دیا تھا لیکن وسائل اتنے محدود تھے کہ اس کی مارکیٹنگ کی کوئی صورت نہ تھی اور مجلس پر اخراجات کا بوجھ بڑھتا جارہا تھا۔ اُن دنوں حضرت مصلح موعودؓ کراچی تشریف لائے تو ہم چند خدام اپنے امیر صاحب کے ہمراہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دل میں ڈرتے تھے کہ جس ولولہ سے اخبار کو روزنامہ بنایا تھا اس پر پورا اُترنا اب مالی و سائل کے لحاظ سے تو ممکن نہیں رہا تھا۔ کس طرح یہ بات عرض کریں گے۔ لیکن جب مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نے اپنا عندیہ عرض کر دیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ کس حکیم نے کہا ہے کہ زیر بار ی قبول کرتے رہو اور اخبار کو چھاپتے رہو۔ بس یہ سننا تھا کہ ہماری جان میں جان آئی اور چند منٹوں میں یہ ملاقات یوں ختم ہوئی کہ حساب کتاب کے جو بستے ہم ساتھ لے گئے تھے ا سی طرح بند کے بند لے کر واپس ہوئے۔
حضورؓ نے مارچ 1955ء میں علاج کے لئے انگلستان جاتے ہوئے کراچی میں قیام فرمایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں اچھی رہا ئش ایک بڑا مسئلہ تھا۔ باوجود کوشش کے جماعت کراچی کوئی حسب منشاء رہائش کا انتظام نہ کر سکی۔ مجبوراً شہر سے دُور مالیر کی بستی میں گرینڈ ہو ٹل کے عقب میںواقع ایک بہت بڑی حویلی میں انتظام کیا گیا۔ حویلی میں داخل ہو کر یوں لگتا تھا جیسے مدّتوںاس میں کوئی رہا نہ ہو۔ صحن کی بے ترتیبی، درودیوار کا اُترا پلستر اس حویلی کی سنسانی کا پتہ دینے والے مناظر تھے۔ حضورؓ کی تشریف آوری کے بعد ایک روز ہم حویلی پہنچے تو ماحول بدلا ہوا تھا۔ فوج کے جوان موجود تھے۔ حضورؓ سفید عمامہ، سفید قمیص شلوار کوٹ زیب تن فر مائے وہیل چیئر میں تشریف فرما تھے۔ گھٹنوں پر کمبل تھا اور حسب معمول ہاتھ میں چھڑی تھی۔ چند لمحے گزرے تو جناب غلام محمد صاحب گورنر جنرل پاکستان کی سیاہ فلیگ کار اس حویلی میں داخل ہوئی۔ وہ کار کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چہرہ پر سنجیدگی اور وقار تھا اور نظریںاشتیاق سے لبریز تھیں۔ اُن کو سہارا دے کر فوجی جوان نے کار سے نکالا۔ جسم میں لرزہ تھا، کھڑا ہونے کی سکت نہ تھی۔ یہ نحیف و نزار مہمان، آج اپنے چند لرزتے ہوئے قدموں کے ساتھ حضرت اقدسؓ کی تیمار داری کے لیے حا ضر ہوا تھا۔ ملاقات ختم ہوئی تو حضورؓ کا یہ بیمار اور بیکس تیمار دار جن سہاروں اور لرزتے ہوئے قدموں سے حاضر خدمت ہوا، اُنہی پر واپس اپنی شاہی سواری میں بٹھا دیا گیا۔ چہرہ پر بلا کی خاموشی ، سنجیدگی، متانت اور گہری اداسی کے آثار نمایاں تھے۔
جناب غلام محمد صاحب صبح سے ہی عیادت کے لیے بے تاب تھے۔ حضورؓ کا بے حد اصرار تھا کہ آپ اپنی صحت کا خیا ل کریںاور تکلیف نہ اٹھائیں ، لیکن جناب غلام محمد صاحب کی بھی اپنی ایک ہی ضد تھی کہ وہ آئیں گے۔ چنانچہ عزم و استقلال کے اس پیکر نے اپنی تمام خستہ حالیوں کے باوجود تیمار داری کا شوق پورا کیا۔ کتنی پیاری تھی ضد جس نے حسرت مٹا کر ہی دم لیا۔
جب حضورؓ انگلستان سے واپس تشریف لائے تو آپؓ کی کو ٹھی تعمیر ہو چکی تھی۔ صحت بھی اچھی تھی۔ معمول کے مطابق مصروفیت اور ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ ایک روز خاکسار قیامگاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب انتظارگاہ میں بیٹھے ہیں۔ اُن کی زندگی کا یہ بہت نازک دَور تھا۔ تجردانہ زندگی ، عمر کے تقا ضے ، اردو کا لج اور ٹرسٹ کے تعلقات میں کشید گی یہ ساری باتیں اُن کی شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہو رہی تھیں۔ مالی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ نان نفقہ کا بندوبست بھی (بواسطہ حضرت چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب) جماعت احمدیہ نے کیا تھا اور مولوی صاحب کو اپنی علمی استعدادوں کو اردوئے معلی کی خدمت کے لئے یکسوئی کے ساتھ ابھرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ یہی وہ عوامل تھے جو انہیں بابائے اردو کا مقام عطا کر گئے۔ حضورؓ کی شفقتوں کو وہ کبھی نہیں بھولے اور آج پھر وہی کشش اُنہیں اس دربار میں لے آئی تھی اور وہ حضورؓ کی عنایتوں سے جھولی بھر کر واپس لَوٹے۔
1960ء میں ایئرہیڈ کوارٹر کراچی سے پشاور منتقل ہوا تو اس موقع پر جماعت کراچی نے سامی صاحب کو دعاؤں اور اعزاز سے رخصت کیا۔ خدام الاحمدیہ کی طرف سے سپا س نامہ بھی پیش کیا گیا جس میں آپ کی خدمات پر شکریہ ادا کیا گیا۔ بعد ازاں پشاور میں بھی جماعتی اور خدام الاحمدیہ میں محترم سامی صاحب کی خدمات کا سلسلہ جاری رہا۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ اور منشی فاضل ،ادیب فاضل اور بی اے کرلیا۔ شادی مارچ1964ء میں ہوئی جس کے بعد ایم اے بھی کرلیا۔
پھر اپنے حالات کا جائزہ لینے کے بعد آپ نے یورپ جانے کا پروگرام بنایا اور ایک قافلہ میں شامل ہوکر سڑک کے ذریعہ آٹھ ممالک سے ہوتے ہوئے تین ماہ کے بعد جرمنی پہنچ گئے۔ اس سفر میں کوئی زاد راہ پاس نہیں تھا۔ محض کچھ سامان ساتھ لے کر گئے تھے جو راستہ میں بیچ کر گزارا کرنا تھا لیکن اس کا بھی فائدہ نہ ہوا۔
جرمنی کی احمدیہ مسجد پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں قیام کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر وہاں سجدہ میں گرگئے۔ تو خدا تعالیٰ نے بھی دعا ایسے قبول کی کہ جب سلام پھیرا تو سامنے اپنی اہلیہ کے ایک کزن کو کھڑے پایا۔ جنہوں نے آپ کی حالت دیکھ کر ازخود آپ کو لندن جانے کا مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ خود ساتھ لے جاکر پہنچا بھی دیا۔ لندن میں آپ کے سسرال اور دیگر عزیز موجود تھے اس لئے کچھ آسانی تھی۔دسمبر کی سرد راتوں میں پہلا کام لاریوں میں ڈبل روٹی لوڈ کرنے کا ملا۔ لیکن شدید سردی نے بیمار کردیا۔ ٹھیک ہوئے تو نیا کام ڈھونڈا۔ آہستہ آہستہ مالی طور پر خودکفیل ہونے لگے۔ دو سال گزرے تو آپ کی اہلیہ اور بچے بھی آپ کے پاس پہنچ گئے۔ اور اس کے بعد مشکلات کا ایک لمبا دَور شروع ہوا جس کا تصور بھی نہیں تھا۔ قانونی کاغذات کی عدم موجودگی کے ساتھ بیماری کا ابتلاء۔ ہسپتال میں داخل رہ کر گھر آئے تو پولیس نے Over Stay کے الزام میں جیل بھیج دیا۔ چھ ہفتہ بعد ضمانت ہوئی۔ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ فیملی کا بوجھ … ایسے میں سوائے دعا کے کوئی راستہ نہیں تھا۔ اللہ کے فضل سے مہینوں کا ابتلاء دُور ہوا اور اُس وقت جب آپ کو ڈیپورٹ کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا، 1974ء کے فسادات کی بنیاد پر سامی صاحب کو مستقل Stay مل گیا اور کونسل کی رہائش بھی مل گئی۔ لیکن بدقسمتی سے جہاں رہائش ملی وہاں نسلی تعصّب بہت تھا۔ چنانچہ گھر اور کار کے شیشے توڑنے کے علاوہ مہمانوں پر حملے بھی کئے جاتے۔ ایک دن لیٹربکس میں آگ پھینک دی گئی۔ پولیس اور کونسل اس غنڈہ گردی پر قابو نہ پاسکی تو پانچ سال کے بعد آپ کو نئے گھر میں شفٹ کردیا۔ آپ کو ریلوے میں کام مل گیا اور زندگی کچھ آرام سے بسر ہونے لگی۔
1984ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ ہجرت کرکے لندن تشریف لے آئے تو سامی صاحب اور اُن کی فیملی نے خلافت کی محبت میں ایک بڑی قربانی دی اور اپنے بڑے، نئے اور مستقل مکان کو چھوڑ کر مسجد کے قریب ایک چھوٹے سے عارضی گھر میں منتقل ہوگئے جس میں کوئی سہولت بھی نہیں تھی۔ لیکن اس قربانی کی برکت سے گھر کا ہر فرد جماعت کی خدمت کی سعادت اور حضورؒ کی شفقت سے بھی حصہ پانے لگا۔
جب سامی صاحب ریٹائر ہوگئے تو آپ نے کوئی دنیاوی کام کرنے کی بجائے اپنی ساری فیملی کو بلاکر اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا تم لوگ میری پینشن پر گزارہ کرلو گے تاکہ مَیں زندگی وقف کرسکوں۔ اور اس کے بعد محترم سامی صاحب نے جماعت کی خدمت کے لئے دن رات گویا ایک کردیا۔ ’اخبار احمدیہ‘ کے دس سال تک ایڈیٹر رہے، مرکزی جرائد کے نمائندہ تھے۔ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے دو سال نائب صدر اور امام مسجد فضل لندن کے 14 سال تک معاون رہے۔ جلسہ سالانہ کے سالہاسال ناظم پروگرام و اشاعت رہے۔ تاریخ احمدیت یوکے کی تدوین کے لئے انتھک محنت کی۔ انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ کے سیکرٹری بھی رہے۔
محترم سامی صاحب خدمت خلق میں ہمیشہ مستعد رہے۔ دراصل آپ خود جن تکالیف سے گزرچکے تھے، نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے اُن میں مبتلا رہ کر دُکھ اٹھائیں۔ چنانچہ بے شمار لوگوں کی مدد کی جن میں بڑی تعداد غیرازجماعت اور غیرمسلموں کی بھی ہے۔ کئی لوگوں کو آپ کی وجہ سے ہدایت بھی نصیب ہوئی۔
خدا تعالیٰ آپ کو کثرت سے سچے خواب دکھاتا جو پورے ہوجاتے۔ وفات سے قبل اپنی اہلیہ کو بتایا کہ آئندہ خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ہوں گے۔ نیز اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے خواب سنایا کہ حضرت مصلح موعودؓ لینے آئے ہیں۔ پھر صبر کرنے کی تلقین کی۔ آخر تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ شدید بیماری میں بہت صبر سے گزار کر 31 جولائی 2001ء کو وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور ازراہ شفقت مرحوم کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعا بھی کی۔
آپ کی وفات پر متعدد افراد نے نثر اور نظم کے ذریعے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور خدمات پر روشنی ڈالی۔ آپ دھیمے مزاج کے کم گو ، متقی اور پارسا انسان تھے۔ چہرہ پر ہمیشہ ایک معصوم سی مسکراہٹ رہتی تھی۔ہر کس و ناکس سے بڑی تپاک سے ملا کرتے تھے، کبھی کسی سے جھگڑا یا شکر رنجی نہیں ہوئی۔ خوش خلق، خوش مزاج اور خوش لباس تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل 2014ء)

(دوسرا اور آخری حصہ)
محترمہ صفیہ بشیر سامی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ 1913ء میں ہرسیاں میں پیدا ہوئیں۔ امّی کے والدین حضرت میاں فضل محمدصاحبؓ آف ہرسیاں اور حضرت برکت بی بی صاحبہؓ دونوں 1895ء میں حضرت مسیح موعودؑکی بیعت سے مشرف ہوچکے تھے۔ یہ خاندان 1917ء میں ہجرت کرکے قادیان آبسا۔ گھر کا ماحول بہت سادہ، دیندار اور علم پرور تھا۔ کُل 5 بھائی اور 4 بہنیں تھیں۔ بڑے بھائی محترم مولانا عبدالغفور ابوالبشارت صاحب سلسلہ کے جید مناظراور مبلغ تھے۔ ایک بھائی مکرم صالح محمد صاحب کو بحیثیت تاجر مبلغ افریقہ میں خدمات کا موقعہ ملا۔ ایک بھائی مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت قادیان میں درویش رہے۔
امّی نے پانچویں جماعت تک سکول میں تعلیم پائی۔ آپ کی شادی 1935ء میں لدھیانہ کے جس خاندان میں ہوئی اُس کی اکثریت احمدیت مخالف اور تعلیم سے نابلد تھی۔ شوہر بھی نواحمدی تھے۔ لیکن آپ بہت تقویٰ شعار، خدا سے پیار کرنے والی بے حد صابر شاکر تھیں چنانچہ اپنے حسن سلوک سے اور بار بار اپنے جذبات قربان کرکے دوسروں کی مدد کرتے ہوئے سب کے دل جیت لئے۔ اسی لئے قریباً سب غیرازجماعت عزیزوں نے قادیان کی زیارت بھی کرلی تھی۔
امّی بہت بہادر تھیں۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں کے دوران بیٹیوں کے ساتھ گھر پر اکیلی ہوتیں تو ایسے میں رات بھر ایک ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے، مردانہ پگڑی باندھ کر چھت پر پہرہ دیا کرتیں۔قیام پاکستان کے بعد جب مجاہد فورس کے رضاکار بھجوانے کی تحریک ہوئی تو جماعت کی نظرانتخاب اباجان پر پڑی۔ لیکن مجبوری یہ تھی کہ سب بچے چھوٹے چھوٹے تھے اور امی اُمید سے تھیں۔ لیکن امی نے نہایت توکّل سے جواب دیا کہ آپ بے فکر ہوکر جائیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔
جب ابا جان مشرقی افریقہ چلے گئے تاکہ مالی حالات کچھ بہتر ہوسکیں تو ہم ربوہ منتقل ہوگئے۔ ربوہ کے ابتدائی حالات میں مشکلات ہی مشکلات تھیں۔ لیکن امّی نے ان مشکلات کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور دعا کے ساتھ بچوں کی پرورش میں مصروف رہیں۔ پھر خود محنت کرکے زمین خرید کر اس پر چھوٹا سا مکان بنوایا۔ غیرآباد جگہ میں ساری رات جاگ کر پہرہ دیتیں۔ بہادر اتنی تھیں کہ سانپ بچھو تو اُن کے لیے معمولی بات تھی۔ شروع شروع میں تو بچھوہر وقت نکلتے تھے۔ سانپ بھی کئی بار نکلے، امی ان کو بے دھڑک مار دیتی تھیں۔
ہمسایوں کا بے حد خیال رکھتیں۔ پکانے سے پہلے ہی یہ سوچ کر کھانا بنتا کہ ہمسایوں کا بھی حق ہے۔ نلکے سے پانی بھرنے سے کبھی کسی کو نہیں روکا۔ قرآن مجید کی عاشق تھیں، خود بھی تلاوت کرتیں اور ہمیں بھی تلقین کرتی رہتیں۔ بے شمار بچوں میں قرآن کریم کی نعمت بانٹی۔ اباجان کو بھی قرآن کریم امّی نے ہی پڑھایا۔ بیماروں کی عیادت کرنا، کسی کی وفات پر دلجوئی کرنا اور مالی یا دیگر مدد کرنا فرض سمجھتیں۔ کبھی کسی کو قرض دیتیں تو پھر کبھی واپسی کا تقاضا نہ کرتیں۔ سب کے وقار کا خیال رکھتیں۔ نام کی طرح دل کی بھی بہت حلیم تھیں ، دکھ تو کسی کا بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ کئی ضرورتمندوں کو مہینوں گھر پر رکھا اور اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اُس نامساعد دَور میں بھی ہمارے گھر میں بجلی کا پنکھا لگا ہوا تھا۔ محلہ کی عورتیں اکثر آتیں اور امی اپنی سہلیوں کو بھی بلالیتیں کہ دوپہر پنکھے کے نیچے گزارو۔ گھر میں فریج تھا۔ برف بناکر زیادہ سے زیادہ لوگوں میں تقسیم کرتیں۔ جمعہ کی دوپہر ٹھنڈا پانی حمام میں ڈال کر باہر رکھ دیتیں۔ 1974ء میں چنیوٹ سے کئی رشتہ دار دو ماہ تک ہمارے ہاں ٹھہرے۔ ربوہ کے شروع کے دنوں میں جب جمعدارنی ٹوکری اٹھائے گھر گھر صفائی کرتی تو ایک بار جب ہماری جمعدارنی امید سے تھی تو امّی اُس کے لئے باقاعدگی سے کھانے کی کوئی اچھی چیز نکال کر رکھتیں۔ بالکل آخری دنوں میں تھی تو ایک دن وہ ٹوکری اْٹھانے لگی مگر وہ اُس کو سنبھال نہ سکی اور ساری کی ساری ٹوکری اس کے اوپر گر گئی۔ وہ پوری کی پوری گند سے بھر گئی۔ امّی نے اُس کو خود نہلایا اور اپنے کپڑے اُس کو پہنائے۔ گرم گرم چائے بنا کر دی اور بھائی کو اُس کے گھر بھیجا کہ آکر اُسے لے جائیں۔
ابا جان 17سال ا فریقہ میں رہے۔ چھ سات سال بعد آیا کرتے۔ اس زمانہ میںبھی باپ کی غیرموجودگی میں بچوں کو پالنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ بچوں کی تربیت کا خیال ان کی پڑھائی اور باہر کی دنیا سے محفوظ رکھنا وغیرہ۔بے جا روک ٹوک نہیں کرتی تھیں مگر دین کے معاملہ میں نرمی نہیں کی۔ نماز اور جماعتی پرو گرام میں کبھی ناغہ نہ ہونے دیتیں۔
ابا جان 1969ء میں لندن آ گئے اور امی بھی 1974ء میں یہاں آگئیں۔ یہاں بھی دل بھر کر جماعتی کاموں میں حصہ لیا۔ جمعہ باقاعدگی سے ادا کرتیں۔ پردہ کی اتنی پابند تھیں کہ زندگی کے آخر ی دَم تک بر قعہ پہنا۔ وصیت تیسرے حصہ کی کی ہوئی تھی۔ ایک بار آپ کے گھر میں چوری ہوگئی اور چور ہر قیمتی چیز لے گئے۔ کچھ روز بعد صفائی کرتے ہوئے ایک گٹھڑی میں بندھا ہوا آپ کو اپنا اور اپنی بہو کا زیور مل گیا۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اسلام آباد کی زمین کے لئے چندہ کی تحریک کی ہوئی تھی۔ دونوں نے وہ سارا زیور اُس تحریک میں دے دیا۔
امّی اباجان کی بہت خدمت گزار تھیں۔ ہر کام اُن کی رضامندی سے کرتیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی بے حد عزت اور خدمت کی، ایک دوسرے سے تعاون ، محبت، ہمدردی ، احترام و تکریم اور ایثار کا ایک نمونہ بنے رہے۔
میرے والدین کو اپنی ایک جواں سال بیٹی کی وفات کا غم بھی دیکھنا پڑا جس نے دونوں کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا۔
امّی کی آخری بیماری بہت لمبی نہیں تھی۔ … آپ کی وفات ہوئی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
میرے اباجان محترم شیخ محمد حسن صاحب اپنے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرے والد کا نام محترم نور محمد صاحب اور والدہ کا نام مکرمہ فاطمہ بی بی صاحبہ تھا جو بڑی وضع دار خاتون تھیں۔ گھر میں نہ صرف اپنے بچوں کی کثرت تھی بلکہ والد کی عادت تھی کہ رشتہ داروں میں اگر کوئی یتیم ہوتا تو اسے گھر لے آتے۔ چنانچہ اٹھارہ بیس افراد ہر وقت گھر میں ہوتے تھے۔ اتنے بچوں کو قابو میں رکھنا ایک مضبوط اعصاب والی خاتون کا تقاضا کرتا ہے اور وہ والدہ صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھے تھے۔ آپ ہر ایک کی مدد کے لئے تیار رہتیں۔ گھر قبرستان کے قریب تھا۔ جب بھی کوئی میت آتی تو آپ کو ئی مشروب بناکر لے جاتیں اور غمزدہ لوگوں کی ڈھارس بندھاتیں۔ اکثر رات کو محلہ کے غریب گھروں میں جاکر اُن کی مدد کرتیں۔ مسجد فضل لندن کیلئے تحریک ہوئی تو اپنی سونے کی بالیاں چندہ میں دیدیں۔
* میرے والد محترم نور محمد صاحب ایک خاموش طبع، غریب پرور اور ہر کسی پر ترس کھانے والے انسان تھے۔ پیشہ جلد بندی تھا۔ آمد زیادہ نہیں تھی لیکن ضرورتمندوں کی مدد دل کھول کر کرتے۔ توکّل علی اللہ بہت تھا اور اللہ تعالیٰ کا ان سے سلوک بھی نرالا تھا۔ بچپن میں مَیں اور چھوٹا بھائی عید پڑھنے آپ کے ساتھ گئے تو آپ کی جیب خالی تھی۔ اس خیال سے کہ مَیں اپنے بچوں کو اَور تو کچھ نہیں دے سکتا، آپ ہمیں دریا کی سیر کروانے کے لئے لے گئے۔ وہاں غیرمتوقع طور پر ایک پٹھان مزدور نے ہمیں اپنے پاس بٹھاکر پلاؤ کھلایا اور ہم بچوں کو ایک ایک آنہ عیدی بھی دی۔
* ایک بار جب مَیں اُن کے ساتھ جا رہا تھا کہ راستہ میں اُنہیں سانپ نے ڈس لیا۔ آپ سارا راستہ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہے جن میں بکثرت درودشریف اور لَاِ اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحٰنَکَ اِنِّی کنتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ شامل تھی۔ الحمدللہ کہ سانپ کے کا ٹے کا کوئی بھی بد اثر آپ پر نہ ہوا۔
* ایک بار آپ قادیان جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے لیکن گاڑی چلنے سے قبل اتر آئے۔غا لباً کوئی القاء ہوا ہوگا۔ بعد میں یہ گاڑی راستہ میں حادثہ کا شکار ہوگئی۔
* ایک بار خاکسار اور والد صاحب نے سٹیشن پر پہنچ کر بابو کو کچھ پیسے دیئے کہ فلاں جگہ کے دو ٹکٹ دیدو۔ اُس نے کہا دو آنے کم ہیں۔ ہمارے پاس وہی پیسے تھے۔ والد صاحب مجھے کہنے لگے کہ تم ٹرین پر چلے جاؤ مَیں پیدل آجاؤں گا۔ مَیں اصرار کرتا کہ آپ چلے جائیں مَیں پیدل آجاؤں گا۔ اتنے میں مجھے جیب میں کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی۔ دیکھا تو دو آ نہ کی رقم نکلی۔ چنانچہ دونوں اکٹھے سفر پر روانہ ہوئے۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ رقم میری جیب میں کہاں سے آئی۔
= والد صاحب جسمانی لحاظ سے اتنے مضبوط نہ تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالی دی تو آپ شدید صدمہ سے بے ہوش ہوگئے۔
* والدہ چونکہ میرے بچپن میں ہی وفات پا گئیں اور والد صاحب کے ساتھ کثیر تعداد بچوں کی رہ گئی۔ احمدیت کی مخالفت ، بچوں کی شادیاںاور دیگر پریشانیاں درمیان میں حائل ہونے لگیں۔ کچھ شادیاں غیر احمدیوں میں ہونے لگیں اور ہم اس ملے جلے ماحول میں آ گے بڑھنے لگے۔ والد کی طبیعت میں نرمی تھی اس لئے جس کا جدھر دل چا ہا اس نے وہی راہ اختیار کی۔ ہم چھ بھائیوں میں سے تین احمدی ہوئے۔ ایک بہن نے بھی احمدیت قبول کی لیکن مخالف سسرال کے زیراثر اُس کی اولاد احمدیت سے دُور رہی۔
* 1930ء میں ملک میں کئی قسم کی تحریکات چل رہی تھیں۔ میری طبیعت بھی جوشیلی تھی۔ ہر جلسے جلوس میں شامل ہوتا تھا۔ کشمیر موومنٹ چلی تو میں احرار جماعت میں شامل ہوا اور جلوس میں شامل ہوکر اسلام کے نام پر گرفتار ہوا۔تین ماہ کی سزا ہوئی۔ مولوی گھروں کو چلے گئے اور ہم جیلوں میں۔ اس دوران رمضان آیا تو مَیں نے پورے روزے رکھے۔ جس سے دل کی سختی نرمی میں بدل گئی۔ گھر کے پاس امام باڑہ کی مسجد تھی۔ مَیں نماز کے لیے وہاں جانے لگا۔ وہاں ایک بزرگ مکرم رحیم بخش صاحب بھی آ تے تھے۔ بہت کم گو تھے۔ ایک روز مجھے کہنے لگے کہ تم سارا کچھ دیکھ آئے ہو، یہ سارے شیطانوں کے ٹولے ہیں، مرزا صاحب سچے ہیں ان کو مان لو۔مَیں نے کہا کہ آپ خود کیوں نہیں مان لیتے۔ کہنے لگے کہ میری بات چھوڑو۔ پھر اپنی ایک خواب سنائی جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں بتایا کہ اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کے تخت کی نگرانی کرنے پر میری ڈیوٹی لگی ہے۔
اُن کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا اور جلسہ سالانہ پر اپنے بھائی کے ہمراہ قادیان چلاگیا۔ والدین تو احمدی تھے ہی صرف اپنی بھٹکی روح کو کسی کے سپرد کرنے والی بات تھی۔ جلسہ سنا اور لوگوں کا باہمی تعلق دیکھا، حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر گیا تو کوئی بدعت نہیں دیکھی۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے واپس لَوٹا۔ یہ دیکھ کر والد صاحب کا حوصلہ بہت بلند ہوا۔ لیکن محلہ والوں اور دکانداروں نے بائیکاٹ کر دیا۔ پھر میرے چھوٹے بھائی منظور نے بھی بیعت کر لی جس سے ہمارا مزید حوصلہ بڑھا۔
* پھر میرے خالہ زاد غلام محمد صاحب بھی احمدی ہوگئے جو اگرچہ احمدی باپ کے بیٹے تھے لیکن پھر راہ راست سے ہٹ گئے تھے۔ مضبوط جسم کے مالک تھے۔ لمبا عرصہ فیصل آباد میں خادم مسجد رہے۔ اسیرراہ مولیٰ بھی ہوئے۔ اُن کے ایک پوتے وحید احمد کو فیصل آباد میں شہید بھی کردیا گیا۔
ایک روز ہم دونوں کبڈی کا میچ دیکھ رہے تھے۔ ہمارے محلہ کی ٹیم کسی دوسرے محلہ کی ٹیم سے بری طرح ہار رہی تھی۔ ہجوم میں سے کسی معتبر کی نظر ہم پر پڑی تو انہوں نے ہمیں کہا کہ میدان میں آ جاؤ۔ ہم نے کہا کہ ہمارا تو آپ کے ساتھ بائیکاٹ ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت محلہ کی غیرت کا سوال ہے، مولوی تو یونہی فساد پیدا کرتے ہیں تم ان کی باتوں کو چھوڑو۔ آخر اُن کے مجبور کرنے پرہم نے سوچا کہ یہ تو کوئی تصرّفِ الٰہی لگتا ہے اس لئے دعا کرکے ہم میدان میں اترے تو جلد ہی مخالف ٹیم شکست کھاگئی۔ اس پر بائیکاٹ کرنے والے ہی اپنے کندھوں پر اٹھا کر ہمیں جلوس کی شکل میں محلہ میں لے کر آئے اور خوب خاطر مدارات کی۔ در اصل اللہ تعالیٰ حضرت مسیح مو عودؑکے غلاموں کی فتح کا نشان دکھانا چاہتا تھا۔ اس کے بعد با ئیکاٹ خود بخود ختم ہو گیا۔
* میری منگنی غیراحمدی تایا کی بیٹی سے طے تھی۔ میری بیعت کے کچھ عرصہ بعد ہم پروگرام کے مطابق بارات لے جانے لگے۔ اُدھر لڑکی والوں کا گھر بھی مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ دیگیںپکی ہوئی تھیں اور جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ غرض شادی کی پوری تیاری تھی کہ ایک ا حراری مولوی نے لڑکی کے والد کو لعن طعن کی۔ اس پر لڑکی کے والد نے آکر مجھے دستخط کرنے کے لئے ایک کاغذ دیا جس پر لکھا تھا کہ مَیں احمدی نہیں ہوں اور تسلی دلائی کہ یہ تحریر عارضی ہوگی تاکہ وقت گزر جائے۔ وہ اسے معمولی مسئلہ سمجھتے تھے لیکن میرے لئے یہ زندگی اور موت والی بات تھی۔ چنانچہ ایک بزرگ کے گھر پنچایت لگی توسب مجھے مجبور کرنے لگے کہ دستخط کردو بعد میں جو مرضی ہوجاؤ ہمیں پرواہ نہیں۔ دباؤ اتنا بڑھا کہ دل چاہتا تھا کہ بھاگ جاؤں لیکن ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ بس اللہ پر توکّل کئے ڈٹارہا۔ لڑکی والے تحریر چھوڑ کر اب زبانی اقرار کو ہی کافی سمجھنے لگے۔ جب کوئی صورت دکھائی نہ دی تو لڑکی کے والد نے اپنی پگڑی میرے قدموں میں رکھ دی۔ مَیں نے پگڑی اُٹھا کر اُن کے سر پر رکھ دی۔ انہوں نے پوچھا کیا تم مان گئے ہو کہ تم مرزائی نہیں ہو؟ مَیں نے کہا ہاں، مَیں یہ تو مانتا ہوں کہ مَیں مرزائی نہیں مگر بفضلِ خدا احمدی ضرور ہوں۔ یہ جواب سن کر لڑکی کا باپ سخت غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا کہ اگر یہ نہیں مانے گا تو یہاںتین خون ہو جائیں گے۔ مَیں نے اُن کو سمجھا یا کہ مَیں اتنی دنیا کے سامنے کھڑا ہو کر یہ اعلان کر رہا ہوں کہ مَیں احمدی ہوں آپ بھی ہمت کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ میں نے لڑکی دینے کا وعدہ کیا ہے جتنی بھی مخالفت ہو یہ شادی ہو گی۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے اور میٹنگ ختم ہوگئی۔ وہ غیراحمدی بزرگ جن کے گھر میٹنگ ہو رہی تھی مجھے کہنے لگے کہ میری اتنی عمر ہو گئی ہے مَیں نے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا کہ لڑکی والے اپنی پگڑیاں اتار کر لڑکے کے پاؤں میں رکھیں اور وہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔میرا مشورہ تمہیں یہی ہے کہ تم اپنا ارادہ پکا رکھو۔ مجھے تمہارا پیر و مرشد کامل لگتا ہے۔ مجھے اُن کی بات سے مزید تقویت ملی۔ میرے انکار پر لڑکی والے پریشان ہوگئے اور اس قدر رعب پڑا کہ رات کو ان کی طرف سے ایک وفد آیا جس نے پوچھا کہ آپ کوئی حرجانہ وغیرہ کا مقدمہ تو نہیں کرنے والے۔ والد صاحب نے اُن کو تسلی دی کہ ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں۔
میرا شادی سے انکار شہر بھر میں تبلیغ کا سبب بن گیا تھا۔ اگرچہ ہمارے گھر میں احمدیت تو پہلے بھی تھی لیکن اب ایک ہیجان سا پیدا ہو گیا۔ غیر از جماعت دوستوں ،عزیزوں پر گہری چوٹ لگی جس پر ہمیشہ کے لئے اُن سے دُوری کے سفر کا آغاز ہوا۔ دوسری جانب جماعت کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ قرب کی راہیں کھلنے لگیں۔
* مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی پہلی تقرری غالباً 1933ء میں لدھیانہ میں ہوئی اور مناظروں کا مرکز ہمارا گھر بنا۔ جلد ہی غیراحمدی مولوی مناظرہ سے بھاگنے لگے۔ پھر اُن کی جگہ محترم مو لا نا احمد خان نسیم صاحب آ گئے تو اب یہ بات پورے شہر کے لیے چیلنج تھی کہ احمدیوں کے دلائل کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔یہ منا ظرے میرے لیے بہت تقویت کا باعث بنے۔ اور دوسری طرف بہت سوں کی ہدایت کا باعث بھی ہوئے۔ ایک عیسائی نے کہا کہ وہ مسلمان تھا لیکن مسلمان علماء کے علم اور کردار کو دیکھ کر عیسائی ہوگیا، اب اُس کی تسلّی ہوگئی ہے اور دوبارہ مسلمان ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس نے احمدیت قبول کرلی۔
* پھر قادیان میں میرے رشتہ کی تجویز ہوئی۔ مَیں اپنے ایک بھائی اور تایازاد کے ہمراہ وہاں پہنچا۔ حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہر سیاں والے کی بیٹی مکرمہ حلیمہ بی بی صاحبہ کا رشتہ زیر غور تھا۔ لڑکی والوں نے خاکسار کا خاصا انٹرویو لیا۔ کم و بیش ہر بات کا جواب اُن کی امیدوں کے بر عکس تھا۔ انہوں نے میری تعلیم کا پوچھا تو جواب نفی میں تھا، کاروبار کا پوچھا تو کوئی ایسا کام نہ تھا جو مَیں بیان کرتا۔ والد صاحب کا ہاتھ بٹاتا تھا وہ بتا دیا۔ آمد اندازاً پندرہ بیس روپے بتادی۔ بھائی ناراض ہوئے کہ اس طرح جواب نہیں دینا چاہئے تھا کم از کم اپنی آمدنی تو معقول بتاتے۔ خاکسار ان کی سرزنش پر خاموش رہا۔ مَیں بے فکر تھا کہ جو کچھ بتایا ہے سچ تو بتایا ہے۔ لڑکی والوں کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ خاکسار اپنا بیان دے کر وہیں چار پائی پر لیٹ کر سوگیا۔ میری بے فکری پر لڑکی والوں کو حیرت ہوئی اور ہمیں جواب دیدیا۔ ہم اگلے روز ناکام لاری کے اَڈہ پرپہنچے۔ ابھی بس میں بیٹھنے ہی والے تھے کہ ہمیں واپس بلایا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ رات مو لانا احمد خاں صاحب نسیم نے اس رشتہ کے لئے دعا کی تو اُن کو حضرت رسول کریم ﷺ کی زیارت ہوئی جس وجہ سے اس رشتہ کو با برکت سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ 1934ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے نکاح پڑھایا اور 1935ء میں شادی ہوئی۔
* خاکسار کے خسر حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ آف ہرسیاں مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھے بھی آپؓ سے عجیب سی محبت ہو گئی تھی۔ جب پار ٹیشن ہوئی تو آپؓ نے خاکسار کے ساتھ ہی ہجرت کی تھی۔ آپ کافی ضعیف تھے۔ ٹرکوں میں طویل سفر بہت تکلیف دہ تھا۔ خاکسار کو خیال آیا تو ایک چار پائی اٹھا لایا پھر خیال آیا تو کہیں سے گدّا اور تکیہ بھی لے کر آیا۔ اور ا س طرح اُن کی بے شمار دعائیں لیں۔
= میری شادی کے چند روز بعد میری ایک غیراحمدی بھابی کا بھائی چوری کا سونا لایا جس کا مجھے کچھ علم نہ تھا۔ اُسے سنار کے پاس بیچنے کے لئے کسی کی ضمانت چاہئے تھی جو بھائی کے کہنے پر مَیں نے دیدی۔ معاملہ کھلا تو پولیس مجھے گرفتار کر کے لے گئی۔ اس پر مخالفین احمدیت نے خوشیاں منائیں۔ خاکسار کے والد میری نوبیاہتا اہلیہ کے پاس گئے اور دعا کے لئے کہا۔ میری بیوی نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی فکر نہیں کیونکہ مَیں نے خواب میں (اس عاجز کو) اچکن اور پگڑی میں دیکھا ہے اور یہ عزت کی نشانی ہے۔ بہرحال مجھے رات تھانہ میںگزارنا پڑی لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے کو ئی تکلیف نہ ہو نے دی۔ سپاہیوں نے پوچھا کیسے آنا ہوا۔ خاکسار نے وجہ بتائی تو انہوں نے مجھے کھانا کھلایا اور سونے کے لئے پلنگ بھی دیا۔ اگلے روز بھائی آکر مجھے چھڑاکر لے گیا۔ واپسی پر ہمیں مخالفین کا ایک وفد ملا جو تھانہ جارہا تھا تاکہ مجھے ڈاکو ثابت کرسکے۔ میری واپسی دیکھ کر انہیں بہت مایوسی ہوئی۔
* اُنہی دنوں مخالفت کے باوجود دارالبیعت کی چھت ڈلوانے کے لئے بھی مدد کی توفیق ملی۔ پھر مَیں ممبئی آگیا۔ یہاں جماعت کے انتخابات میں مجھے سیکرٹری تبلیغ چُن لیا گیا۔ مَیں اَن پڑھ تھا۔ مَیں نے اپنی مجبوری بتائی تو دوبارہ الیکشن ہوا لیکن جماعت نے پھر میرا ہی نام کثرت رائے سے منظور کیا۔ الحمدللہ کہ کچھ عرصہ کام کی توفیق بھی ملی۔
* جب خاکسار فیروز پور قلعہ میں ملازم تھا تو ایک روز کمشنر صاحب نے اپنے بچوں کی کچھ کتابیں کاپیاں مرمت کرنے کیلئے دیں۔ خاکسار نے مرمت کر کے واپس دے دیں اور کہہ دیا کہ بچوں کا کام کرنے کی مَیں کوئی اُجرت نہیں لیتا۔ کمشنر صاحب کے اصرار پر بھی مَیں نے پیسے نہیں لیے۔ پھر وہ کہنے لگے اگر میرے لائق کوئی کام ہوتو ضرور بتائیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہم لاہور آگئے۔ نہ کوئی رہنے کی جگہ تھی اور نہ کوئی کارو بارتھا۔ کسی نے بتایا کہ وہ کمشنر فیصل آباد میںالاٹمنٹ افسر لگے ہوئے ہیں۔ وہاں پہنچا۔ لوگوں کا کافی ہجوم تھا۔ جب وہ میرے پاس سے گزرنے لگے تو مَیں نے اُن کو سلام کیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا: کیا مجھ سے کوئی کام ہے ؟ مَیں نے اپنی ضرورت بتائی تو اُنہوں نے اپنے آفیسر کو ہدایت دی کہ جو بھی یہ چا ہتاہے دے دیا جائے۔ ماتحت آفیسر نے بات سنی اَن سنی کر دی۔ کچھ عرصہ بعد مَیں پھر اُن کے دفتر گیا۔ مجھے کوئی اندر ہی نہیں جانے دیتا تھا۔اچانک اُن کی نظر مجھ پر پڑی تو مجھے اندر بلوایا۔ میری پوری بات سنی پھر شاپ کلرک کوبلاکر کہا: تم ساتھ جاؤ اور جو بھی یہ کہتا ہے دلوا دو۔ اس طرح مجھے فیصل آباد میں عین مسجد فضل کے سامنے لوہے سے بھری ہوئی دکان الاٹ ہو گئی۔ اتنے بڑے بڑے احسانات یہ سب اللہ تعالیٰ کے کرم ہیں۔
* مَیں اُن دنوں بے روزگار تھا اور اپنے عزیزوں کے پاس دہلی میں مقیم تھا۔ سوچا کہ حضرت نظام الدین اولیا ءؒ کے مزار پر جانا چاہئے۔ جیب خالی تھی چنانچہ پیدل مزار تک پہنچا۔ دعا کی اور پھر پیدل ہی گھر تک آیا۔ گھر پہنچا تو پاؤں میں چھالے تھے اور ساتھ تیز بخار ہو گیا۔ لیٹتے ہی مجھے کوئی ہوش نہیں رہی کہ مَیں کہاں ہوں۔ سوتے ہوئے خواب میں آواز آئی :’جب تم بادشاہ بنو گے تو خاندانِ مسیح موعودؑکو نہ بھولنا‘۔ ایکدم میری آنکھ کھلی تو حیرت کی انتہا نہ تھی کہ کہاں مَیں اور کہاں بادشاہت کی خوشخبریاں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ سالہاسال بعد مجھ عاجز کو لنگر خانہ میںپوری دنیا پرپھیلے خاندان مسیح موعودؑ کی خدمت کی توفیق ملی۔
* یعقوب نامی ایک شخص دہریہ خیالات رکھتا تھا۔ ایک دن اُس نے بڑے طنز سے کہا کہ دیکھو کتنی شدید گرمی ہے، تم اپنے خداسے کہو کہ بارش برسا دے۔ پھر وہ پیچھے ہی پڑ گیا اور اپنی شوخی اور ضد میں بڑھتا چلا گیا۔ خاکسار نے اْسے سمجھایا کہ خدا تعالیٰ ہماری خواہشوں کا پابند نہیں ہے اور اس وقت باہر کسانوں کی فصلیں پڑی ہیں اگر بارش ہو تو اُن کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ لیکن وہ سمجھنے کے بجائے مجھے کوسنے لگا، اس پر طبیعت دعا کی طرف مائل ہو گئی۔ اسی رات بادل آئے، گرج چمک ہوئی لیکن بارش نہ ہوئی۔ میرے دل میں خدشہ تھا اور وہی ہوا کہ جب کام پر پہنچا تو اُس نے طعنہ دیا کہ رات تمہارا خدا گرجا تو بہت لیکن برسا نہیں۔ مسلسل طنز کرکے اُس نے میرا بیٹھنا محال کر دیا تو مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ شدید گرمی میں باہر نکل کر مَیں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کو اْس کی غیرت کا واسطہ دے کر دعا کی۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ نہ جانے کہاں سے آسمان پر بادل آئے اور میرے چہرہ پر بارش کے قطرے گرنے لگے۔خاکسار نے پھر التجا کی کہ خدایا وہ اس طرح کی بارش سے تو نہیں مانے گا زور دار بارش ہو۔ اس پر اتنی زور سے بارش ہوئی اور ہوا کے تیز جھونکے چلنے لگے کہ وہ بے اختیار بول اْٹھا کہ میں مان گیا ہوں کہ تمہارا خدا زندہ ہے اور ساتھ ہی کہا کہ ایسا سلوک صرف مرزا صاحب کے ما ننے والوں کے ساتھ ہی ہے، دوسروں کے ساتھ نہیں۔
* ایک بار مَیں حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ (یسرناالقران والے) کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک دوست جو کسی سرکاری محکمہ کے بڑے افسر تھے، وہاں آئے، دعا کی درخواست کی اور ایک خطیر رقم پیش کی۔ آپؓ نے یہ رقم لینے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: مَیں دعا تو ضرور کروں گا لیکن یہ رقم آپ اٹھا لیں اور حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کریں۔اسلام کی ترقی کے لئے یہ رقم کام آئے گی۔
* 1950ء میں مجھے فرقان فورس میں شمولیت کی توفیق ملی۔ جب مَیں محاذ پر جانے لگا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملنے گیا۔ آپؓ نے خاکسار کا نام پوچھا تو عاجز نے کہا: محمد حسن۔ حضورؓنے فرمایا: کیا محمداسلم ؟ خاکسار نے کہا: نہیں حضور، محمد حسن۔ حضورؓ نے پھر فرمایا:اچھا اچھا محمد اسلم۔ تیسری با ر پھر حضورؓ کو اپنا نام بتایا کہ محمد حسن ہے۔
مجھے محاذ پر جب بیٹے کی پیدائش کی اطلاع ملی تو مَیں نے وہیں سے حضورؓ کی خدمت میں نام رکھنے کی درخواست بھجوائی۔ جواب میں حضورؓ نے محمد اسلم نام تجویز کر کے بھجوایا۔
* 1950ء میں شدید سیلاب آیا تو ربوہ کی خیروعافیت دریافت کرنے کے لئے محترم امیر صاحب فیصل آباد نے دو افراد کو بھجوایا جن میں سے ایک مَیں تھا۔ تیسرے دوست اپنی خوشی سے ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ ہم تینوں رجوعہ تک بس میں اور پھر پیدل چل کر گہرے پانیوں میں سے گزرتے ہوئے ربوہ پہنچے۔ ہم اپنے ساتھ دودھ کے ڈبے تحفۃً لے کر گئے تھے۔ ربوہ خدا کے فضل سے با لکل محفوظ تھا بلکہ سیلاب کی وجہ سے تجارت کے ٹرک ربوہ میں رُک گئے تھے اور اُن کی وجہ سے اہل ربوہ کو پھلوں اور دیگر اشیاء کی فراوانی تھی۔
* جب جامعہ احمدیہ احمد نگر میں تھا اور مکرم حکیم خورشید احمد صاحب احمدیہ لائبریری میں کام کرتے تھے تو اُ نہوں نے مجھے تقریباً بارہ کتابیں جلد بندی کے لئے دیں۔ مَیں کتابیں تیار کرکے بس کی چھت پر رکھ کر فیصل آباد سے روانہ ہوا۔ جب احمدنگر پہنچا تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر کتابیں کہیں راستہ میں گرگئی تھیں۔مجھے بہت فکر اور سخت صدمہ ہوا۔ پھر کتابوں کو ڈھونڈنے کا پکا ارادہ کرکے مولوی صاحب سے اُن کی سائیکل لے کر واپس لائل پور کی طرف دعا کرتے ہوئے چل نکلا۔ راستہ میں ملنے والا ہر شخص لاعلمی کا اظہار کرتا۔ کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی ۔ رجوعہ کے قریب کچھ مزدور سڑک بنا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کتاب ہمیں ملی ہے اور ایک ہم نے فلاں شخص کے پاس دیکھی ہے۔ چنانچہ ایک میل دُور اُس شخص کے گھر پہنچا۔ اُس کی ماں نے بڑی محبت سے بٹھایا اور گرم گرم دودھ پیش کیا جسے پی کر میری جان میں جان آئی کیونکہ میں صبح سے بھوکا پیاسا کتابوں کی پریشانی میں کھانا پینا سب بھول چکا تھا۔ دوسری کتاب بھی مل گئی اور اُس شخص نے کہا کہ دوسرے گاؤں کے سکول ہیڈماسٹر کو مل لیں ہو سکتا ہے وہ آپ کی کوئی مدد کر دے کیونکہ سکول کی چھٹی کے وقت بچے اُس سڑک سے گزرتے ہیں۔ اُس کی ماں کو کافی تیز بخار تھا۔ مَیں نے اْس سے وعدہ کیا کہ مَیں لائل پور جا کر تمہیں گولیاں لا کر دونگا۔ ہیڈ ماسٹر بہت ہی شریف انسان تھے۔ اُنہوں نے فوراً ہی سکول کے بچوں سے رابطہ کیا اور ساری کتابیں اسی گاؤں سے مل گئیں۔ مَیں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے اجازت چاہی کہ اب مَیں لائل پور سے اْس بوڑھی عورت کے لیے دوائی لے آؤں۔ یہ سن کر اُنہوں نے دوائی میرے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا کہ رات کو یہاں آرام کریں اور صبح کو چلے جائیں۔ چنانچہ اگلی صبح بیمار خاتون کو دوائی دی۔ اور وہاں سے مکئی کی روٹی ساگ کے ساتھ کھاکر ربوہ چلا آیا۔ کتابوں کا ملنا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔
* ایک روز حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓکی ذاتی ڈائری ٹھیک ہونے کے لیے آئی جس پر بہت سے لوگوں کے دعاکی غرض سے نام لکھے ہوئے تھے۔ مَیں نے نوٹ بُک ٹھیک کرکے واپس کی۔ انہوں نے اجرت پوچھی تو مَیں نے عرض کیا کہ میرا نام بھی اُس دعائیہ فہرست میں لکھ لیں۔
کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب دیکھا کہ مفتی صاحب اپنی ڈائری کے ورق پلٹ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مَیں نے آپ کا نام انگریزی میں لکھ لیا ہے۔ جب یہ خواب مَیں نے حضرت مفتی صاحبؓ کو سنائی تو آپؓ نے فرمایا کہ آپ نے خواب میں ’محمد‘ اور ’صادق‘ کو دیکھا ہے۔ یہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا،یہ ہو کر رہے گا۔ چنانچہ بعد میں افریقہ اور لندن میں بے شمار جگہ خدا تعالیٰ نے میرا نام انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا۔
* 1958ء میں خاکسارکو ایک پرانے واقف کار (غلام محمد کاشمیری) نے اپنا ایک خواب سنایا کہ میاں طاہر احمد خلیفہ بن گئے ہیں۔ یہ بات 24 سال بعد پوری ہوئی۔
* جلسہ سالانہ کے دوران ایک بار محترم عثمان چینی صاحب نے مجھے کہا کہ کھانے میں مرچیں بہت ہوتی ہیں، کیا میرے لئے بغیر مرچوں کا کھانا بن سکتا ہے۔ چنانچہ یہ کھانا بنوادیا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ اس کا خرچ کیا آیا ہے؟ مَیں نے کہا کہ یہ تو مسیح موعودؑ کا لنگر ہے اس میں کوئی خرچ نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کھانا تو لنگر کا نہیں ہے، یہ مَیں نے فرمائش کرکے بنوایا ہے اس لئے اس کے پیسے تو دینے ہی ہیں۔
* حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ جب نیروبی آئے تو مَیں نے آپ کو اپنا خواب سنایا کہ مَیں آپؓ کی ٹانگیں دبا رہا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا خواب تو ہم دونوں کے لئے ہی بہت اچھی ہے لیکن اس کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے دبوانا اچھا نہیں لگتا۔
پھر جب مَیں لندن آگیا تو اس خواب کی تعبیر ظاہر ہونے لگی۔ حضرت چودھری صاحبؓ کی کئی کتابوں کی جِلدبندی کی مجھے توفیق ملی اور آپؓ کا پیار مجھ ناچیز سے بڑھتا گیا۔
ایک دن کسی کا نکاح تھا۔ آپؓ ہاتھ میں لڈو پکڑے، تلاش کرتے ہوئے آ ئے اور لڈو میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔
ایک دن آپؓ نے مجھے اپنا بستر ٹھیک کرنے کو کہا۔ مَیں بہت خوش ہوا اور جلدی جلدی بستر ٹھیک کیا۔ مَیں نے دیکھا کہ آپؓ نے اپنی پتلون تہ کر کے تکیہ کے نیچے رکھی ہوئی تھی تاکہ اُس کی تَہ ٹھیک رہے۔ بستر دیکھ کر آپؓ مسکرائے اور فرمایا لگتا ہے تمہارا بستر تمہاری بیوی ٹھیک کرتی ہے۔
ایک دن مَیں آپؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب تشریف لائے، جو بہت خوش نظر آرہے تھے۔ انہوں نے خوشخبری سنائی کہ اُن کو کوئی بہت بڑا اعزاز ملا ہے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو اسی وقت مطلع کیا گیا۔ اُس وقت مجھے نوبل انعام کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔جب ڈاکٹر صاحب تشریف لے گئے تو پھر آپؓ نے مجھے نوبل انعام کے بارے میں تفصیل سے ساری بات سمجھائی۔
میرے ہاتھ کے بنے ہوئے پکوڑے آپؓ کو بہت پسند تھے۔ لیکن صرف ایک یا دو لیتے تھے اور اچھے مُرکڑے (Crispy) پکوڑے پسند فرماتے تھے۔
ایک دن فرمانے لگے : ’’حسن صاحب! مجھے علم ہے کہ آپ میرے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں۔ آج میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مَیں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘۔ اسی محبت کے اظہار کی خاطر جب آپؓ آخری بار لندن سے پاکستان تشریف لے گئے تو اس عاجز کے لئے اپنا ایک استعمال شدہ سوٹ چھوڑ گئے۔
…………………
محترم شیخ محمد حسن صاحب کی وفات 5فروری 2003ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
ان بزرگوں کا تذکرہ ہو تو یہ سلسلہ منقطع کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن ایک تو ہمارے محدود صفحات کچھ زیادہ قلمبند کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور دوسرے قارئین کے لئے تشنگی کا کچھ احساس باقی بھی رہنا چاہئے۔
اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اُن شریف النفس، سادہ لوح اور دین العجائز پر قائم بزرگوں کے ساتھ گزارے ہوئے ایام بھی شدّت کے ساتھ یاد آئے اور یہ دعا دل سے بار بار اٹھی کہ خدا تعالیٰ اس پیاری جماعت کو ایسے پیارے نفوس عطا فرماتا چلا جائے جو بے نفسی کے ساتھ خدمت دین اور خدمتِ خلق کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کریں، جن کی زندگیاں بھی اپنے ربّ کی محبت میں بسر ہوں اور اُن کا انجام بھی ہر پہلو سے بخیر ہو اور جن کی نیکیاں اُن کی آئندہ نسلوں میں ہمیشہ کے لئے چلتی چلی جائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں