میرے اغواء کی کہانی
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اپریل2009ء میں مکرم میجر ریٹائرڈ زین العابدین صاحب نے پاکستان میں اپنے اغوا اور رہائی کی عزم و ہمت سے بھرپور داستان بیان کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دعا کی طاقت تمام مشکلات سے نجات دلاسکتی ہے اور یہ بھی کہ جسمانی طور پر طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ 19؍اگست 1989ء کی صبح جب میں کراچی میں معمول کے مطابق سمندر کی سیر کے لئے نکلا تو کچھ ہی فاصلہ پر مجھے دو آدمی کھڑے نظر آئے اور دو آدمی کار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چونکہ اُس جگہ ہر وقت لوگ سیر کے لئے آتے رہتے تھے اس لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ مَیں اپنے دھیان میں چلتے ہوئے جیسے ہی اُن کے قریب سے گزرا تو دونوں آدمیوں نے کلاشنکوفیں نکال کر مجھے کار کی پچھلی سیٹ میں دو آدمیوں کے درمیان بٹھادیا اور ڈرائیور نے تیزی سے کار چلادی اور چلّاکر مجھے کہا کہ سر نیچے رکھو۔
وہ چاروں تیس پینتیس سال کی عمر کے تھے، صاف کپڑوں میں ملبوس تھے اور سندھی میں باتیں کر رہے تھے۔ کبھی اردو اور انگلش میں بھی بات کرتے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرے کتنے بچے برطانیہ اور امریکہ میں زیرِ تعلیم ہیں اور میں کتنی فیکٹریوں اور بنگلوں کا مالک ہوں۔ میں نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا امریکہ میں زیرِ تعلیم ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم کتنا تاوان ادا کر سکتے ہو؟ میں نے کہا میں ریٹائرڈ سول افسر ہوں اور پچاس ہزار روپے ہی ادا کر سکتا ہوں ، جس پر انہوں نے مجھے اپنی رائفلز کے بٹوں سے مارا اور کہا تم کیا ہمیں فقیر سمجھتے ہو، عام طور پر ہم پانچ سے دس لاکھ لیتے ہیں۔
کراچی میں ایک گھنٹہ تک سفر کرنے کے بعد ہم نے سپر ہائی وے پر حیدرآباد کی جانب دوگھنٹے کا سفر کیا۔ دوران سفر وہ مجھے بار بارآنکھیں بند اور سر نیچے رکھنے کے لئے کہتے اور ایسا نہ کرنے پر سر پر گھونسہ مارتے۔ دوران گفتگو وہ ضیاء الحق، بینظیر اور نواز شریف کو گالیاں دیتے۔ اُن کی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ جئے سندھ پارٹی کے حامی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کی طرح اَور بھی کئی گروہ ہیں جو اغواء برائے تاوان کرتے ہیں۔ ایک نے کہا ’’تم شریف آدمی لگتے ہو، ہم بھی شریف ہیں۔ جتنی جلدی تم پیسوں کا بندوبست کروگے اتنی ہی جلدی تم رہا ہوجاؤ گے‘‘۔
پھر ایک جگہ گاڑی روک کر انہوں نے کہا کہ اگر میں نے اُن کی بات نہ مانی تو وہ مجھے مار ڈالیں گے اور کتے کی طرح سڑک پر پھینک دیں گے۔ پھر انہوں نے مجھے گاڑی کی ڈگی میں بٹھادیا اور ایک گھنٹے کے سفر کے بعد کار روکی۔ مجھے باہر نکالا گیا تو میں تکان اور پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔ یہ دو پہاڑیوں کے درمیان بہت تنگ سا راستہ تھا اور وہاں دو موٹر سائیکلوں پر تین تین مسلح افراد سوار تھے۔ میرے اغواء کاروں نے میرا پتہ اور ٹیلی فون نمبر لکھ لیا اور پھر مجھے موٹرسائیکل سواروں کی جانب دھکیل کر کہا کہ ’’ہم نے تمہیں بیچ دیا ہے اب تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں‘‘۔
پھر مجھے ایک موٹرسائیکل پر درمیان میں بٹھایا گیا اور ہم تنگ راستے پر جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ایک آدمی تیس سال کا جبکہ دوسرا صرف بیس سال کے قریب تھا۔ چونکہ موٹرسائیکل پرانے اور ہچکولے دے رہے تھے میں نے اُن سے پیدل چلنے کے لئے درخواست کی۔ وہ مان گئے اور ہم پیدل چل پڑے۔ ہم پورا دن چلتے رہے اور تین دفعہ ڈیڑھ گھنٹے کیلئے رُکے۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے جو کہ ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ اس دوران مَیں اغواء کاروں کے ساتھ دوستی کی کوشش کرتا رہا۔ اُن میں سے ایک کے پاس گن تھی جبکہ دوسروں کے پاس کلہاڑیاں تھیں۔ طویل مسافت کی وجہ سے اُن دونوں کے چہروں سے تھکاوٹ صاف ظاہر تھی۔ انہوں نے کافی خستہ حال لباس اور جوتے پہن رکھے تھے۔ قریباً 9 بجے گن والا سونے کے لئے چلاگیا اور دوسرے نے مجھے بھی سونے کے لئے کہا۔ لیکن مجھے نیند نہ آئی تو میں نے اُس سے چائے مانگی جو اُس نے بنادی۔ پھر مَیں نے اُس سے پیشاب کرنے اور منہ دھونے کی اجازت مانگی۔ دن کے وقت میں جائزہ لے چکا تھا کہ جہاز کس طرف جارہے ہیں اور سپر ہائی وے کس طرف ہے اور میں نے کچا راستہ بھی دیکھا تھا۔ چنانچہ مَیں نے اندھیرے میں بھاگنا شروع کر دیا۔ قریباً دس منٹ بعد میں نے فائر کی آوازیں سنیں، لیکن میں اُس وقت تک ایک میل دُور جاچکا تھا۔ تھکاوٹ سے چُور میں ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔
تھوڑی دیر انتظار کے بعد جب یقین ہوگیا کہ میری طرف کوئی نہیں آرہا تو چاند کی روشنی میں مَیں نے سفر دوبارہ شروع کر دیا۔ دس گیارہ پہاڑیاں گزرنے کے بعد میرا خیال تھا کہ سپر ہائی وے کے سائن مل جائیں گے ، لیکن میں غلط تھا۔ قریباً دو بجے مجھے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا جس کے باہر دو آدمی چارپائی پر سورہے تھے۔ میں کچھ فاصلہ پر تھا کہ اُن کا کتا بھونکا۔ میں اُن کے پاس گیا اور پانی مانگا تو ایک بوڑھے آدمی نے مجھے گلاس میں پانی دیدیا۔ وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکتے تھے کیونکہ میں اردو بول ر ہا تھا اور وہ سندھی۔ کچھ باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ سپر ہائی وے قریباً چھ میل دُور ہے۔ اور کراچی جانے کے لئے کچھ فاصلہ پر ایک کچا راستہ ہے۔ بوڑھے آدمی نے مجھے پگڈنڈی کی طرف کا راستہ بتایا۔ میں نے پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ بھاگنا شروع کر دیا جو ایک غلط فیصلہ تھا۔ کیونکہ قریباً ایک گھنٹہ دوڑنے کے بعد، صبح تین بجے میرے سامنے وہی آدمی آگیا جس سے میں فرار ہو کے بھاگا تھا۔ اُس نے کلہاڑی پکڑی ہوئی تھی اور مجھ سے پوچھا ’’تم بھاگ کیوں گئے تھے؟بیٹھ جاؤ‘‘ جب میں بیٹھ گیا تو اُس نے مجھے کلہاڑی کے دستے سے مارا اور پھر سیٹی بجاکر ٹارچ جلائی تو دو موٹرسائیکل پگڈنڈی کے مختلف اطراف سے ہماری طرف آنے لگے۔ میں نے سوچا اگرچہ یہ مجھے قتل نہیں کریں گے لیکن میرے بھاگنے کے پیش نظر مجھے معذور کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے میں نے دوبارہ اندھیرے میں دوڑنا شروع کردیا۔ اس پر اُس آدمی نے مجھ پر کلہاڑی پھینکی جو مجھے پیٹھ پر لگی لیکن زیادہ چوٹ نہ آئی۔ وہ میرے پیچھے تین سو گز بھاگنے کے بعد رُک گیا جبکہ میں قریباً ہزار گز تک بھاگتا رہا پھر ایک طرف مُڑ کر تین سو گز اَور بھاگا۔ وہاں اونچی جھاڑیاں تھیں جن میں مَیں چھپ گیا۔ تھوڑی دیر بعد، موٹر سائیکل سوار وہاں آپہنچے اور جھاڑیوں پر تین فائر کئے اور موٹرسائیکل کی ہیڈلائیٹس مار کر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اللہ کے فضل سے چاند کی صاف روشنی ہونے کے باوجود، نیوی رنگ کے کپڑوں میں ہونے کی وجہ سے وہ مجھے دیکھ نہ سکے۔ اُن کی آوازوں سے صاف لگتا تھا کہ وہ دباؤ کا شکار تھے، اور کہہ رہے تھے کہ ہمیں پگڈنڈی پر جا کر اُسے ڈھونڈنا چاہئے۔ اُن کے جانے کے بعد میں جھاڑیوں سے نکل کر قریباً 300 گز چلاتو ایک چھوٹی سی ندی آگئی جس کے قریب دو فٹ کی باڑ تھی۔میں اُس کے پیچھے جا کر سستانے لگا۔
کچھ دیر کے بعد موٹر سائیکل سوار واپس آگئے۔ اور دو آدمی پگڈنڈی پر ایک دوسرے سے سو گز کے فاصلہ پر کھڑے ہوگئے۔ میں اُن سے دو سو گز دُور تھا۔ میں نے سمجھا کہ کچھ دیر تک وہ چلے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ وہ صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ میں مخالف سمت میں 300گز تک رینگ کر گیا تو دیکھا کہ ایک اَور آدمی وہاں کھڑا تھا جس پر میں واپس اپنی جگہ آگیا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ آدمی نہیں بلکہ جھاڑی تھی۔ پھر خود کو چھپانے کے لئے مَیں نے اپنے چہرہ، ہاتھوں اور پاؤں پر گارا لگا لیا۔ اور اسی حالت میں صبح تک وہاں چھپا رہا۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کلہاڑی کے وار سے بچایا، اور مجھے اتنی تیز رفتار دی کہ اغواء کار مجھے پکڑ نہ سکے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے تین گولیوں سے بھی بچایا۔ میں نے محسوس کیا کہ زندگی بھر جب بھی مَیں خطرات میں گھرا ہوں، اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے۔ چنانچہ وہاں گارے میں لت پت مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اگرچہ میں گنہگار ہوں لیکن حضرت مسیح موعودؑ کا غلام ہوں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ایک معصوم کو یوں ضائع نہیں کرے گا۔ صبح چھ بجے کے قریب موٹرسائیکل سوار واپس آگئے۔ دو آدمی جو میرے قریب کھڑے کئے گئے تھے اُنہوں نے چار مزید گولیاں چلائیں۔ پھر وہ سب کراچی کی جانب روانہ ہوگئے۔ جب موٹر سائیکلوں کی آواز آنا بند ہوگئی تو میں اپنی جگہ سے باہر آگیا۔ اور جھاڑیوں کے درمیان کبھی رینگتا، کبھی بھاگتا پگڈنڈی کے مخالف سمت چلتا رہا۔ جب ایک چھوٹی پہاڑی کو پار کیا تو دو میل دُور ایک جھونپڑا اور کچھ جانور نظر آئے۔ میں تھکن سے چُور تھا لیکن اُس جانب چل پڑا۔ وہاں دو آدمی گارے میں لت پت میرا حلیہ دیکھ کر ششدر ہوگئے۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ کچھ اوباش مجھے یہاں لے آئے تھے اور خود موٹرسائیکل پر واپس چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میری کافی خاطر مدارت کی۔ میں نے منہ دھویا اور بکری کا دودھ پیا۔ چونکہ میری پینٹ پھٹ چکی تھی اور گارے میں لت پت تھی اس لئے انہوں نے مجھے شلوار، پگڑی اور شال پہننے کے لئے دی۔ چونکہ سپر ہائی وے وہاں سے بیس میل کے فاصلے پر واقع تھی اس لئے میں نے اُن سے دریافت کیا کہ آیا وہ مجھے اونٹ پر سپر ہائی وے ٹول پلازہ تک پہنچا سکتے ہیں۔میں نے پانچ سو روپے کی پیشکش بھی کی اور پوچھا کہ کیا کار یا موٹرسائیکل کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ بوڑھے آدمی نے جواب دیا کہ اس کا بیٹا آدھے گھنٹے میں سواری کا انتظام کر سکتا ہے۔ میں نے جھونپڑے کے اندر بیٹھنے کیلئے اجازت مانگی تاکہ کوئی مجھے باہر دیکھ نہ لے۔
تین گھنٹے کے بعد ایک ٹرک آیا جس پر تین آدمی سوار تھے۔ اُن میں سے ایک نے مجھے اپنا تعارف کروایا کہ وہ اِس جگہ کا کونسلر ہے اور اپنے کاغذات بھی دکھائے۔ جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو کونسلر نے کہا کہ وہ مجھے جانتا ہے اور میرے اغواء کی خبر پر میری تلاش کی جا رہی ہے۔ سندھ کے چیف سیکرٹری مکرم کنور ادریس صاحب نے میری گمشدگی کی اطلاع پر سندھ کے تمام تھانوں کو الرٹ کر دیا تھا۔
ٹرک میں بیٹھے تو مَیں نے پگڈنڈی والے راستہ کی بجائے ویران راستہ سے جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ہم سترہ میل کا فاصلہ طے کرکے ٹول پلازہ پہنچے۔ یہاں سے اپنے گھر اور دیگر متعلقہ افراد کو فون کئے۔ میری غیرموجودگی میں میرے اغواء کار میرے گھر فون کر کے میری بیوی کو دھمکیاں دیتے رہے کہ میں اُن کی تحویل میں ہوں اور پوچھا کہ آپ کتنا تاوان دے سکتی ہیں۔ اور یہ بھی دھمکی دی کہ اگر پولیس کو بتانے کی کوشش کی تو میری جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ میری بیوی نے کہا کہ وہ صرف پچاس ہزار ہی ادا کر سکتی ہے۔
میرے ٹول پلازہ پہنچنے پر میری بیوی کو دھمکی ملی کہ وہ میرے گھر کو راکٹ لانچر سے اڑا دیں گے۔ اِس دھمکی کے پیش نظر میرے اہل خانہ نے گھر خالی کر دیا۔
نقشوں کے ذریعہ جب مَیں نے پولیس کو علاقہ کی نشاندہی کی تو انہوں نے کارروائی کرکے بہت سے اغواشدگان کو بازیاب کروایا اور مجرم گینگ کے کئی لوگ بھی گرفتار کئے۔ میرے کیس کا تذکرہ کئی قومی اخبارات میں شائع ہوا ۔ آخر میں مجھے احمدی بھائیوں سے یہ کہنا ہے کہ ’’اپنی مشکلات سے گھبرائیں نہیں، معجزات ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ موجود ہے‘‘۔