میرے دادا حضرت مرزا عبدالحق صاحب

جریدہ ’’نحن انصاراللہ‘‘ جولائی تا ستمبر 2006ء میں مکرم مرزا نوید احمد صاحب اپنے دادا حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے بارہ میں لکھتے ہیں:
٭ شروع سے ہی آپ صرف چار گھنٹے وکالت کے کام کو دیتے تھے اور باقی سارا وقت جماعتی خدمت کو دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان چارگھنٹوں میں اتنی برکت ڈالی تھی کہ ساری بار کونسل میں سب سے زیادہ ٹیکس آپ دیتے تھے۔
٭ نوجوانی میں تہجد پڑھنی شروع کی اور پھر ساری زندگی باقاعدگی سے اُس پر قائم رہے۔ اگر کہیں کوئی عزیز ان کو دعا کے لئے کہتا تو یہ کہتے کہ تہجد پڑھنی شروع کرو تمام مسئلے حل ہو جائیں گے۔ وہ کہتے تھے کہ دنیا جہان کی دولت کی بھی ایک سجدے کے سامنے وقعت نہیں ہے۔ کبھی بھی مشکلات کے وقت زیادہ پریشان نہیں ہوتے تھے اور فوراً دعا میں لگ جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ میری لمبی عمر کا یہ راز بھی ہے کہ میں اپنی تمام پریشانی اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دیتا ہوں اور خود پریشانی نہیں لیتا۔ آپ نے 40 سال کی عمر میں دعا کی کہ یااللہ اب میں بڑھاپے کی طرف جانے والا ہوں مجھے کبھی کسی کا جسمانی اور مالی لحاظ سے محتاج نہ کرنا۔ اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تسلی دی کہ فکر نہ کرو اور پھر تمام زندگی کسی کا محتاج نہ کیا۔ ابھی اس عمر میں بھی وہ دوسروں کو دیتے ہی تھے۔ یہاں تک کہ سرگودھا میں سب سے زیادہ چندہ وقف جدید بھی آپ دیتے تھے اور عین وقت پر دیتے تھے۔ صحت بھی ہمیشہ اچھی رہی۔ تقریباً 70 سال کی عمر تکTennis کھیلتے رہے پھر اُس کے بعد 3 سے 5 میل Walk کرنا شروع کی اور اب پچھلے دو تین سال سے صرف ہلکی پھلکی واک کرتے اور کہتے کہ اب تہجّد کی نماز ہی میری ورزش ہے جو میرے لئے کافی ہے۔
٭ سچ سے محبت تھی اور وکالت جیسے پیشہ میں رہتے ہوئے بھی کبھی جھوٹ نہ بولا اور صرف سچے کیسوں کی پیروی کرتے تھے۔ بار کونسل میں اُن کی نیکی کی وجہ سے خاص رعب تھا اور غیر احمدی شرفاء بھی اُن کی بہت عزت کرتے تھے اور دعائوں وغیرہ کی درخواست کرتے تھے۔
٭ جنرل ضیاء الحق نے ایک بار ڈپٹی کمشنر سرگودھا کے ذریعے آپ کو Advisor to the president for minorities with the role as Central Minister. کا عہدہ قبول کرنے کی پیشکش کی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کوئی پیشکش قبول کروں گا تو مسلمان کے طور پرہی قبول کروں گا چنانچہ معذرت کر لی۔ چند دن کے بعد انسپکٹر جنرل کا فون اسلام آباد سے آیا اور کہا کہ کیوں نہ جماعت کو غیر قانونی قرار دے کر آپ کی جائیداد ضبط کرلی جائے۔
٭ 1974ء میں جب وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامےؔ کی سرگودھا شہر میں موجودگی کے دوران شہر بھر میں احمدیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو شرپسندوں اور بلوائیوں نے آگ لگا کر خاکستر کر دیا تو حنیف رامے نے حضرت مرزا صاحب کے پاس رات کی تاریکی میں آ کر اس نقصان پر معذرت کی۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہمارا معاملہ خدا کی عدالت میں ہے۔ بعد میں جلد ہی حنیف رامے بھی بھٹو کے زیرِ عتاب آگئے۔ پھر ضیاء دَور میں جب احمدیوں کے سینوں سے کلمہ طیبہ کے بیجز نوچے جا رہے تھے تو حنیف رامے صاحب کا ضمیر جاگا اور انہوں نے اس کے خلاف اخبار میں ایک آرٹیکل بعنوان ’’یہ کلمہ دوستی ہے یا کلمہ دشمنی‘‘ شائع کروایا جس کو پڑھ کر حضرت مرزا صاحب نے بہت مسرت کا اظہار فرمایا اور کہا: ’’ہم نے حنیف رامے کو معاف کیا!‘‘
آپ نے فارسی زبان صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام سمجھنے کیلئے سیکھی۔ آپ نے نو دس کتابیں لکھیں اور آپ کی کتاب ’’صداقت حضرت مسیح موعودؑ‘‘ کے بارہ میں ایک بزرگ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا ہے کہ یہ کتاب مَیں نے اپنے حضور قبول کرلی ہے۔
وفات سے تقریباً ایک مہینہ پہلے آپ نے کشف دیکھا کہ روح القدس آپ کے جسم میں اُتر گیا ہے اور ہر طرف انتہائی خوبصورت رنگ اور منظر ہیں اور اس منظر کی لذّت کی وجہ سے دو دن آپ نے کسی سے بات نہ کی۔
وفات سے قبل کئی دنوں تک آپ روزانہ خواب میں ساری ساری رات اپنے محبوب آقا حضرت مصلح موعودؓ کی صحبت میں گزارتے اور صبح بتاتے کہ کتنی پیاری رات گزری ہے۔ چند دنوں سے کہہ رہے تھے کہ میں قبر اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں مگر آپ کی طبیعت میں ایک سکون تھا جو بڑھتا جا رہا تھا۔ وفات کی صبح دِل کی دھڑکن کچھ تیز تھی۔ پھر آپ نے آرام سے لیٹ کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے، چند لمحے کچھ عربی میں دعائیں پڑھتے رہے اور ہاتھ اُٹھائے اُٹھائے اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں