میرے والد محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے جریدہ ’’خدیجہ‘‘ (نمبر 1 برائے سال 2011ء) کے حوالہ سے محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا ذکرخیرکرتے ہوئے ان کی بیٹی مکرمہ عالیہ ہیوبش صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ابّا ناامید لوگوں کے لئے ایک سہارا تھے۔ بے حد شوق سے روزانہ بے شمار خطوط لکھا کرتے تھے۔ جب اُن کا دایاں بازو ٹوٹ گیا تو انہوں نے بہت محنت سے ٹائپنگ سیکھی۔
صبر کا بہت اعلیٰ اظہار کرتے۔ کوئی راستہ میں روک لیتا تو اُس کی بات سنتے رہتے۔ فون کی گھنٹی سے نیند سے بیدار ہوتے اور بہت خوش اخلاقی سے گفتگو کرتے۔ ہر کسی کا دکھ سکھ بانٹنے کی کوشش کرتے۔ جب بھی کوئی دعا کے لئے کہتا تو تب تک دعا کرتے رہتے جب تک اُس کا مسئلہ حل نہ ہوجاتا۔ اس بات پر زور دیتے کہ اپنی اَنانیت کو دباکر اپنی سوچ کو دینی، دنیاوی اور روحانی زاویہ سے پرکھا کروں ۔
مَیں نے آپ سے اللہ اور اُس کی مخلوق سے محبت سیکھی، نماز کی پابندی اور اعلیٰ اخلاق یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم سیکھی۔ دعا کی قبولیت مَیں نے بہت زیادہ اُن میں دیکھی۔ ایک بار میرے بھائی کی شادی کے وقت بہت مالی تنگی درپیش تھی۔ اُن کی دعا نے یہ معجزہ دکھایا کہ کسی شخص نے کئی ہزار یورو انہیں دعا کی درخواست کے ساتھ بھجوادیئے۔ اسی طرح ایک بار وہ ربوہ جانے کے لئے بے قرار تھے لیکن رقم نہیں تھی۔ دعا کی تو ایک اخبار نے انہیں لکھا کہ کیا وہ پاکستان جاکر پاکستان کے بارہ میں ایک رپورٹ تیار کرسکتے ہیں جس کے لئے تمام اخراجات اخبار نے ادا کرنے تھے۔ یہ ایک ناقابل یقین معجزہ تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ خدا نے مجھے خود ہدایت دی ہے اور میرا خدا پر ایمان کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔
قادیان جانے کا اُنہیں بہت شوق تھا۔ وہاں اکثر وقت مسجد میں گزارتے۔
٭ مکرمہ امۃالشافی خان صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ابّا کی گفتگو نے مجھے ہمیشہ بہت طاقت دی۔ اکثر اُن کے مشورے بہت صحیح ہوتے کیونکہ وہ اسلامی تعلیم کی گہرائی میں جاکر اس سوچ کے ساتھ مشورہ دیا کرتے تھے کہ دوسروں میں نقص تلاش کرنے کی بجائے اپنی غلطیوں کو سامنے رکھو۔
خلافت کی محبت اور دعا کی اہمیت انہوں نے ہی ہم میں پیدا کی۔ کئی نظمیں بھی ہم بچوں کے لئے لکھیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں