میں نے پاکستان بنتے دیکھا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2010ء میں مکرم رانا محمد اسلم خان صاحب نے قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان میں ایک مہاجر کیمپ کی مشکلات اور دہلی سے بذریعہ ٹرین لاہور تک کے تکلیف دہ سفر کی کہانی بیان کی ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ تریسٹھ سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہو۔ جلتی آگ اور خاک و خون کے سمندر میں سے گزرکر ہم پاکستان پہنچے۔ اُن لمحات کا تصور آج بھی دل کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ بلوے جو پاکستان کے قیام سے پہلے ہی شروع ہوچکے تھے، 14؍اگست 1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی شدّت اختیار کر چکے تھے۔ کل تک جو ہندو اور سکھ مسلمانوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک تھے یکایک ان کی جان کے دشمن بن گئے تھے اور مسلمان بیچاروں پر یہ قیامت کی گھڑی تھی جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اپنے آبائی وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہا اور گرتے پڑتے مجبوراً پاکستان کا رُخ کیا۔ بہت سے گھرانوں نے دہلی کا رخ کیا کیونکہ ابھی تک دہلی اس آگ سے قدرے محفوظ تھی۔ لیکن جلد ہی فسادات کی آگ وہاں بھی بھڑک اٹھی اور شہر میں کرفیو لگاکر گورکھا فوج متعین کردی گئی جو دن دیہاڑے بلوائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی جان سے ہولی کھیل رہے تھے۔ اناج کی قلّت پیدا کردی گئی۔ مسلمانوں پر پانی تک بند کر دیا گیا۔ کنوؤں اور تالابوں میں زہر ملا دیا گیا۔ مسلمانوں کے کیمپوں میں بھی اُن کی جان، مال اور عزت و آبرو قطعاً محفوظ نہ تھی۔ ان کیمپوں کے محافظ ہندو اور گورکھا سپاہی تھے۔ جب حالات مزید دگرگوں ہوگئے تو کیمپوں سے مسلمانوں کو لال قلعہ دہلی میں منتقل کردیا گیا۔ یہ اکتوبر نومبر کی بات ہے۔ بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اُدھر سردی اپنے جوبن پر تھی اور بیچارے مسلمان بے سروسامانی کی حالت میں کیمپوں میں مقید تھے۔ سردی سے بچنے کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ کیونکہ وہ صرف جان ہتھیلی پہ رکھ کے، تین کپڑوں میں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ماؤں کی گود میں دودھ اور خوراک کے لئے بلک رہے تھے لیکن ان کے پاس سوائے تسلی کے دو بول کے اور کچھ نہ تھا۔ ان کو خود بھوک کے ہاتھوں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ سارے کیمپ میں صرف ایک نل پانی کا تھا جس سے پانی حاصل کرنے کے لئے لمبی قطاریں لگی رہتیں۔
لال قلعہ میں کیمپ کی حفاظت کے لئے بلوچ رجمنٹ متعین تھی جو بڑی مستعدی سے حفاظت کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ قائداعظم کی ہدایت پر ہندوستانی کیمپوں میں مقید مسلمانوں کے لئے خوراک کا بندوبست کیا گیا تھا جو ڈبل روٹیوں کی صورت میں ہوائی جہازوں سے گرائی جاتی تھیں اور جنہیں بعد میں کیمپ میں مقیم مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اپنا اور اپنے بال بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے لوگ درختوں کے پتے ابال کر کھاتے۔ جو ڈبل روٹی پاکستان سے ہوائی جہازوں کے ذریعے گرائی جاتی تھی وہ جلد ہی خراب بھی ہوجاتی تھی۔ لیکن بھوکے مسلمانوں کو باوجود اس کے پاکستانی رسد کا شدّت سے انتظار ہوتا۔ سب صبر و شکر کرکے کھاتے اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ آتا۔ شام ہوتے ہی ہر سُو گھپ اندھیرا چھا جاتا۔ ہر کوئی کھلے آسمان کے نیچے فرشِ زمین پر بستر بناکر لیٹ رہتا۔ نیند کس کافر کو آتی تھی۔ بچوں کے رونے پر مائیں بیچاری بے چین ہو ہو جاتیں اور انہیں چپ کرانے کے جتن کرتیں۔ مکمل بلیک آؤٹ ہوتا تاکہ دشمن ہوائی حملہ نہ کرسکے۔ بلوچ رجمنٹ کے نڈر جوان رات بھر کیمپ کا پہرہ دیتے۔ ان کے پاس صرف رائفلیں تھیں لیکن حوصلے پہاڑ جیسے بلند۔
بیچارے مسلمانوں پر ایک ایک دن قیامت کا گزرتا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی اور قرآن مجید کی تلاوت ہوتی۔ زبان پر درود جاری ہوتا اور جلد پاکستان پہنچنے کے لئے ہر نماز میں دعائیں مانگی جاتیں۔ بالآخر معلوم ہوا کہ سپیشل ریل گاڑیاں پاکستان کے لئے چلائی جارہی ہیں۔ بدانتظامی سے بچنے کے لئے مہاجرین کومختلف قافلوں میں بانٹ دیا گیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء ریلوے سٹیشن سے گاڑی میں سوار ہونا تھا۔
پہلی گاڑی کے لئے مہاجرین کو قلعہ سے فوجی ٹرکوں میں سوار کرکے جیالے سپاہیوں نے بحفاظت ریلوے سٹیشن پہنچایا۔ ریلوے کا نظام درہم برہم تھا۔ ریلوے کے ہندو اور سکھ ملازمین ہرگز یہ نہ چاہتے تھے کہ کوئی مسلمان زندہ بچ کر پاکستان چلا جائے۔ مختلف بہانوں سے گاڑیاں لیٹ کر دیتے۔ کبھی ڈرائیور نہ ملتے اور اکثر ڈرائیور اور ریلوے گارڈز گاڑی لے کر پاکستان جانا نہ چاہتے تھے۔ پھر کئی جگہوں سے ریل کی پٹڑی ہی اکھاڑ دی گئی تھی تاکہ راستہ میں گاڑی روک کر لوٹ مار کرسکیں اور نہتے مسلمانوں کو تہ تیغ کریں اور ان کی عورتوں کو بے عزت کریں۔ گاڑیوں کا کوئی مقرر شدہ ٹائم ٹیبل اور رُوٹ نہ تھا۔ گاڑیاں دہلی سے لاہور کئی کئی دن میں پہنچتیں۔ چنانچہ دوسرے ہی روز کیمپ میں یہ خبر پہنچی کہ پہلی سپیشل ریلوے ٹرین امرتسر سے گزرتے ہی چند میل کے فاصلے پر لُوٹ لی گئی اور مسلمان مرد و عورت، بچے بوڑھے سب گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیئے گئے اور کوئی بھی فرد زندہ نہ بچ سکا۔ سارے کیمپ میں سراسیمگی پھیل گئی۔
دوسری سپیشل ٹرین میں جانے والوں کے دلوں میں اس خبر نے بے یقینی سی پیدا کردی تھی۔ لیکن بلوچ رجمنٹ کے جیالے سپاہیوں نے کہا کہ اس مرتبہ حفاظت کے لئے وہ گاڑی کے ساتھ جائیں گے اور گاڑی کو بحفاظت پاکستان پہنچا کر واپس لوٹیں گے۔ پہلی سپیشل ٹرین کے ہمراہ گورکھا فوج کا دستہ حفاظت کے لئے مامور کیا گیا تھا جو خود فسادیوں کے ساتھ شامل ہو کر قتل و غارت گری میں مشغول رہا اور لوٹ مار میں بھی حصہ دار بنا۔
کیمپ سے فوجی ٹرکوں میں باقی مسلمانوں کو ریلوے سٹیشن پہنچایا گیا۔ دوسری سپیشل ٹرین پلیٹ فارم پر لگ چکی تھی اور اس قافلہ کے مسلمان دھکم پیل کرتے سب سے پہلے گاڑی میں سوار ہونے کی کوششیں کرنے لگے۔ گاڑی کے ڈبے بہت کم تھے لیکن مسافروں کی تعداد لاتعداد تھی۔ بلامبالغہ انسانوں پر انسان سوار تھے۔ اس وقت کسے اتنا ہوش تھا۔ وہ باپردہ بیبیاں جن کی ایک جھلک بھی کسی نامحرم نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اب خستہ حال، کھلے منہ اپنی جان کے خوف سے ہزاروں مردوں کے درمیان گاڑی میں سوار تھیں۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ حشر کا منظر تھا۔ گاڑی کی چھت پر بھی یہی منظر تھا۔ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ کئی لوگ راستہ میں گاڑی کی چھت پر سے پھسل کر گرنے کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔
گاڑی کے چھوٹتے ہی بلوچ رجمنٹ کے سپاہیوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ گاڑی آہستہ آہستہ چلتی رہی۔ راستہ میں کسی بھی ریلوے سٹیشن پر گاڑی نہ روکی گئی۔ کئی روز کی مسافت کے بعد نہ جانے کون کون سے راستوں سے چلتی چلاتی بالآخر سہارنپور گاڑی رُکی۔ گاڑی کے رکتے ہی ریلوے سٹیشن پر نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے اور اللہ اکبر کی صدا سے فضا گونج اٹھی۔ سہارنپور میں غالباً مسلمانوں کی اکثریت تھی اور ابھی تک انہیں کوئی گزند نہ پہنچا تھا اور سہارنپور کے جوشیلے مسلمان اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے پلاؤ، گوشت، روٹی اور دیگر کھانے کا سامان بڑی افراط میں تقسیم کررہے تھے اور ساتھ ساتھ تسلیاں اور بحفاظت پاکستان پہنچنے کی دعائیں بھی دیتے جاتے۔ گاڑی کے مسلمان مہاجرین نے کئی دنوں بعد سیر ہو کر کھانا کھایا تو اُن کی آنکھوں میں روشنی سی آگئی۔ تقریباً پون گھنٹہ رُکنے کے بعد گاڑی پھر اپنے سفر کے لئے روانہ ہوئی۔ اور بالآخر کئی روز کی مسافت طے کرکے گاڑی امرتسر ریلوے سٹیشن کے قریب پہنچی تو گاڑی کی رفتار دھیمی ہوگئی۔ غالباً ریلوے لائن کی پٹڑی مرمت کی وجہ سے کمزور تھی۔ ریلوے سٹیشن پر سکھوں کا ایک بہت بڑا جتھہ کرپانوں، بھالوں اور کلہاڑیوں سے لیس سپیشل ٹرین کا انتظار کررہا تھا۔ امرتسر سکھوں کا گڑھ تھا جو ہندوؤں کے اشارے پر مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے۔ گاڑی کے پلیٹ فارم پر لگتے ہی سکھوں نے نعرہ مارا اور اپنی کرپانیں میانوں سے نکال لیں۔ ابھی وہ گاڑی پر حملہ کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ گاڑی کے محافظ بلوچ رجمنٹ کے نڈر سپاہیوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور تمام گاڑی والوں نے اس کے جواب میں اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ بلوچ رجمنٹ کے کمانڈر نے بآواز بلند سکھوں پر واضح کردیا کہ اگر کسی نے گاڑی کے قریب پھٹکنے کی کوشش کی تو اسے گولی ماردی جائے گی۔ بلوچ رجمنٹ کے سپاہیوں کو پوزیشنیں سنبھالتے دیکھ کر سکھوں کے حوصلے پست ہوگئے اور کسی کو آگے بڑھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اس دوران گاڑی میں سوار نہتے مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ جو کاٹو تو بدن میں لہو نہ تھا کیونکہ انہیں گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے تلاشی لے کر نہتا کر دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ چاقو تک ان کے پاس نہ رہنے دیا گیا تھا۔
مردوزن درود شریف کا ورد کررہے تھے۔ کچھ قرآن پاک کھولے تلاوت میں مصروف تھے۔ بچوں نے چیخ و پکار سے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ ہر کوئی ہراساں اور پریشان تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ ابھی دو گھڑی میں کیا ہونے والا ہے۔ بالآخر خدائے بزرگ و برتر کو مسلمانوں کی حالت پر رحم آگیا۔ رحمت خداوندی نے جوش مارا اور گاڑی آہستہ آہستہ رینگنا شروع ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈرائیور نے رفتار تیز کردی۔ امرتسر سے چارج لینے والے گاڑی کے نئے گارڈ اور ڈرائیور مسلمان تھے۔ راستہ میں ریلوے لائن کی دونوں جانب مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگے پڑے تھے اور ان بے سروپا لاشوں کو دفنانے کی بھی مہلت کسی کو نہ ملی تھی۔ گدھوں کے جھنڈ ان پر منڈلا رہے تھے۔ بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔ لیکن کون تھا جو آہنسا کے پرچاریوں کو ان کے کارنامے دکھلاتا۔ گاڑی میں موجود ہرآنکھ اشکبار تھی اور ہر دل حزن و ملال سے بھرا تھا۔ آخرکار گاڑی اٹاری ریلوے سٹیشن پر رُکی۔ جو ہندوستان کی سرحد کا آخری سٹیشن تھا۔ لوگ خدا کا شکر ادا کررہے تھے کہ جس نے انہیں اس مصیبت سے نکال لیا تھا۔ ہماری گاڑی کے بالکل سامنے دوسری ریلوے لائن پر ایک اَور سپیشل ٹرین کھڑی تھی جو پاکستان سے ہندوؤں اور سکھوں کو لے کر بھارت جارہی تھی۔ ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی کہ سامنے والی گاڑی میں ہندوؤں اور سکھوں نے اپنے گھر کا معمولی سے معمولی سامان بھی اپنے ساتھ اٹھا رکھا تھا اور ان کے چہروں پر کوئی حزن وملال اور خوف و ہراس کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں گاڑیاں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئیں۔
پاکستان کی سرزمین سے صرف چند میل کے فاصلے پر دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں کہ ابھی چند لمحوں میں ہماری وہ منزل مراد ہمارے سامنے ہوگی جس کے لئے مسلمانوں نے سردھڑ کی بازی لگادی تھی۔ دل خدائے بزرگ و برتر کے حضور سربسجود تھے کہ جس نے ان سارے مراحل میں مدد اور حفاظت فرمائی۔ لوگوں کے دل بلیوں اچھل رہے تھے اور وفور جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ لیکن یہ خوشی کے جذبات تھے۔ خدا خدا کرکے ’لاہور‘ آیا۔ اپنی منزل کو سامنے پاکر بعض لوگ وفور جذبات میں دھاڑیں مار مار کے رو رہے تھے۔ غالباً وہ منزل پر پہنچ کر یہ حساب کررہے تھے کہ انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں