ناروے کی خوشگوار یادیں
جماعت احمدیہ ناروے کے رسالہ ’’الجہاد‘‘ مارچ 2007ء میں مکرم مولانا منیرالدین احمد صاحب سابق مبلغ ناروے و سویڈن نے اپنی بعض خوشگوار یادیں بیان کی ہیں۔
آپ لکھتے ہیں کہ میں سویڈن کے شہر گوٹن برگ پہنچا جہاں ہمارا مرکز ایک کرایہ کی عمارت میں تھا۔ مکرم کمال یوسف صاحب سے چارج لیا۔ 1973ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ گوٹن برگ تشریف لائے تو حضور کی رہائش کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا۔ کچھ افراد نے بیعت بھی کی۔ حضور کی شخصیت پُر اثر اور نورانی چہرہ دیکھ کر لوگ بڑے متاثر ہوئے اور اس بات کا اظہار بھی کیا کہ ہم نے ایسی نورانی صورت کبھی نہیں دیکھی۔ اس موقع پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ سویڈن میں مسجد کی تعمیر کے لئے زمین حاصل کی جائے۔ سوزمین حاصل کرنے کیلئے کوشش شروع کر دی گئی۔ سویڈن کی مسجد کے لئے میونسپل کمیٹی کی طرف سے ایک پلاٹ ہمیں الاٹ ہوگیا تو حضورؒ نے فرمایا کہ نقشہ وغیرہ تیار کروالو، مَیں خود آکر بنیاد رکھوں گا۔ 1974ء کے حالات کی وجہ سے حضور جلدی تشریف نہ لاسکے۔ 1975ء میں حضور تشریف لائے اور سویڈن کی مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر سرکاری نمائندے بھی آئے اور اخباری نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اخباروں میں خوب چرچا ہوا کہ سویڈن میں پہلی مسجد بن رہی ہے جو کہ جماعت احمدیہ بنارہی ہے۔ تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ یہ خبر پڑھ کر ایک سویڈش دوست مشن ہاؤس میں آئے اور جماعت کے بارہ میں معلومات حاصل کیں۔ پھر لٹریچر پڑھ کر بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوگئے۔ حضور نے ان کا نام جعفر تجویز فرمایا۔ پھر وہ مشن ہاؤس میں باقاعدہ آنے لگے، نماز سیکھی اور باقاعدگی سے ادا کرتے۔ وصیت بھی کردی اور چندہ ادا کرنے لگے۔ بعض پمفلٹس کا ترجمہ بھی کیا۔ بچوں کے لئے ایک باتصویر کتابچہ بھی تیار کیا اور اسے شائع کرکے ہر گھر میں پہنچایا۔ جب صومالیہ میں قحط پڑا تو وہ ریڈکراس کی طرف سے وہاں جاکر خدمتِ خلق کرتے رہے۔ واپس آکر بھی صومالین کی مدد کے لئے کوشاں رہے۔ اسی سلسلہ میں ایک حادثہ میں شہادت پائی۔ احمدیوں نے جنازہ پڑھا اور اجازت لے کر اسلامی طریق پر قبرستان میں تدفین کی گئی۔ اگلے سال جب حضورؒ مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تو ان کی قبر پر جاکر بھی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
مسجد کی بنیاد رکھے جانے کے بعد تعمیر کے لئے ایک فرم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایک سال میں تعمیر مکمل ہوئی۔ مسجد کا نام حضورؒ کے نام پر مسجد ناصر تجویز ہوا۔ صد سالہ جوبلی فنڈ سے تعمیر ہوئی اور یہ رقم حضور نے لندن سے بھجوائی جو کہ 10 لاکھ سویڈش کراؤن تھی۔ 1976ء میں حضور پھر سویڈن تشریف لائے اور مسجد کا افتتاح فرمایا۔
پھر کچھ عرصہ پاکستان رہنے کے بعد مجھے دوبارہ سویڈن جانے کا ارشاد ہوا۔ ملاقات پر حضورؒ نے فرمایا کہ یوگوسلاو دوست کسی وجہ سے جماعت سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، ان کو واپس لانا ہے اور ناروے میں زمین حاصل کر کے مسجد تعمیر کرنی ہے۔ دونوں کام فوری ہونے چاہئیں۔
اوسلو میں نور احمد صاحب بولستاد نارویجن احمدی تھے جو کہ نوجوانی میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں احمدی ہوئے تھے۔ نہایت مخلص احمدی ہیں۔ جب مسجد کے لئے کوشش کی تو اوسلو میں موقع کی زمین نہ مل سکی۔ البتہ ایک مناسب عمارت کا پتہ لگا کہ بک رہی ہے۔ کسی وقت یہ بلغاریہ کی ایمبیسی تھی۔ حضورؒ سے اجازت لے کر یہ عمارت خریدی۔ اس کے لئے رقم بھی صد سالہ جوبلی فنڈ سے حضورؒ نے عطا فرمائی۔ اس فنڈ سے قائم ہونے والی یہ دوسری مسجد تھی۔ تاہم حضورؒ نے ہدایت فرمائی کہ عمارت کے لئے رقم میں نے دیدی ہے۔ اب اسے مسجد کی ضروریات کے لئے ڈھالنا اور ردّوبدل کرنا احباب جماعت کا کام ہے، اس کا خرچہ بھی مقامی جماعت کرے۔ چنانچہ میں نے جماعت میں تحریک کی کہ اس مقصد کے لئے ہر کمانے والا ایک ماہ کی آمد ادا کرے۔ احباب جماعت نے تعاون کیا اور رقم مہیا کر دی۔ اوسلو میں عبدالغنی صاحب آف کھاریاں عمارتی کام کے ماہر ہیں، ان کی سرکردگی میں وقارعمل کرکے عمارت کو مسجد کی ضروریات کے لئے تیار کرلیا گیا۔ اور حضورؒ کی خدمت میں افتتاح کے لئے درخواست کی گئی نیز اس کا نام مسجد نور تجویز کرکے حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے لکھا گیا جو کہ حضورؒ نے منظور فرمالیا۔ یہ نام رکھنے کی تین وجوہات میرے ذہن میں آئیں جو کہ میں نے حضورؒ کی خدمت میں تحریر کردیں۔ اول یہ کہ نور کا لفظ نارویجن زبان میں بھی ہے۔ جس کے معنے شمال کے ہیں۔ مسجد نور کا مطلب یہ ہوا کہ شمالی علاقہ کی مسجد۔ ناروے کا علاقہ ہے بھی شمال میں گویا یہ مسجد اس لحاظ سے اسم بامسمّٰی ہوئی۔ دوسرے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا اسم گرامی نورالدین تھا اس نسبت سے بھی یہ نام مناسب ہے۔ تیسرے یہ کہ سب سے پہلے نارویجن دوست جو احمدی ہوئے ان کا نام حضرت مصلح موعودؓ نے نور احمد رکھا تھا۔ چنانچہ حضورؒ نے اس نام کی منظوری دیدی۔