مکرم خورشید پربھاکر صاحب درویش قادیان کے ناقابل فراموش واقعات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍مارچ 2006ء میں مکرم خورشید پربھاکر صاحب (درویش قادیان) کے قلم سے چند ناقابل فراموش واقعات بیان ہوئے ہیں۔ آپ تقسیم ہند کے ایام میں اپنے آبائی گاؤں (ضلع فیصل آباد، پاکستان) آئے ہوئے تھے جہاں آپ کی اہلیہ اپنے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر وفات پاگئیں۔ چند دن بعد آپ قادیان جانے کے لئے روانہ ہوئے تو بعد میں علم ہوا کہ آپ کی روانگی کے بارہ روز بعد آپ کی والدہ کی بھی وفات ہوگئی تھی۔ بہرحال آپ 15؍نومبر 1947ء کی رات کسی طرح قادیان میں محلہ احمدیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد درویشی کے دَور کا آغاز ہوا۔
جب 1948ء میں جماعتی دفاتر میں کام کا آغاز ہوا اور 1950ء میں مکرم خورشید پربھاکر صاحب کو بنارس (یوپی) میں مربی بناکر بھیجا گیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب میں یوپی پہنچا تو چند ماہ قبل وہاں وسیع پیمانہ پر فسادات ہوچکے تھے اور سارا ماحول سہما ہوا تھا۔ ایک روز مجھے قریب سے گزرتے دیکھ کر دو ہندو پنجابیوں نے میرے قتل کا اظہار آپس میں پنجابی زبان میں کیا۔ اُسی شام مَیں دوبارہ اُن سے ملا اور اپنا تعارف کروایا کہ مَیں احمدی مبلغ ہوں اور پنجابی ہوں اور ہمارا اصول ہر ایک سے محبت ہے۔ اُن دنوں میں روزانہ بیس میل پیدل چل کر تبلیغ کیا کرتا تھا۔ دو پیسے کے چوڑا نامی چاول اور گُڑ سے ناشتہ کرتا اور یہی سارے دن کی خوراک تھی۔ پھر قرضہ لے کر ایک سیکنڈہینڈ سائیکل خریدلیا اور روزانہ ستّر میل تک کا سفر بھی کرنے لگا۔ دعوت الی اللہ میں کئی بار گالیاں اور مار پٹائی وغیرہ سب کچھ برداشت کیا۔ متواتر باسی روٹی کھانے اور لمبے لمبے سفروں سے سر کے بال چند ماہ میں جھڑ گئے اور گھٹنوں پر بہت بُرا اثر پڑا جس نے بعد میں چلنا پھرنا بھی موقوف کردیا۔
ایک روز شاہجہانپور شہر سے بیس میل دُور قصبہ محمدی میں تبادلہ خیالات ہوتا رہا تو بہت دیر ہوگئی۔ برسات کا موسم تھا اور بارش شروع ہوچکی تھی۔ خیال آیا کہ رات بیدہ پور میں گزارلوں۔ سفر چھوٹا کرنے کے لالچ میں پکی سڑک چھوڑ کر ایک کچا راستہ لے لیا۔ دو تین میل آگے سڑک پر گڑھے بنے ہوئے تھے جن میں پانی بھرا تھا۔ کیچڑ میں سائیکل چلانا دشوار ہوگیا اور مَیں کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر زور لگاتے ہوئے جلدی جلدی چلنے لگا۔ دُور دُور تک کسی بستی کا نام و نشان نہ تھا۔ تھوڑا آگے چلا تو رات کے اندھیرے میں معلوم ہوا کہ آگے تو پانی ہی پانی ہے۔ سائیکل کاندھے پر رکھ کر آگے بڑھا تو کھیتوں کی اونچی منڈیروں پر بھی دو دو فٹ پانی تھا۔ اچانک سامنے ایک برساتی نالہ نظر آیا جو پوری طغیانی میں بہہ رہا تھا۔ اُس کے کنارے کھڑے ہوکر ایک سرکنڈے سے پانی کی گہرائی کا اندازہ لگایا تو قریباً آٹھ فٹ تھی۔ پانی کی تیزی دیکھ کر ہوش و حواس گم ہوگئے۔ سامان کے بغیر بھی اس کو پار کرنا ممکن نہ نظر آتا تھا۔ ایک تیزرفتار لہر نالے کے دونوں کناروں کے درمیان لہراتی ہوئی چلتی اور کناروں سے ٹکراکر واپس ہوجاتی تھی۔ مَیں نے اسی لہر کی مدد سے نالہ پار کرنے کا فیصلہ کیا اور سائیکل سمیت نالے میں اُتر گیا۔ ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ لہر آگے نکل گئی اور میرے پاؤں اکھڑ گئے۔ سائیکل کو کندھے سے اتارنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ پانی مجھے دھکیلتے ہوئے جھیل نما تالاب کی طرف لے جانے لگا۔ موت سامنے دکھائی دی تو مَیں نے پانیوں میں اپنے خالق و مالک اور قادر مطلق کو پکارا کہ اے خدا! اب تیرے علاوہ کوئی دیکھنے والا، سننے والا، مددگار نہیں۔ میری لاش تالاب میں گل سڑ جائے گی۔ اگر موت آچکی ہے تو تُو فرشتوں کو حکم فرما کہ وہ میری اس حالت سے میرے آقا حضرت خلیفہ ثانی کو آگاہ کریں تاکہ حضور میری نماز جنازہ ادا فرمائیں۔
اتنے میں ایک دوسری بڑی لہر آئی جس نے ڈوبتے ہوئے کو اٹھاکر دوسرے کنارے کے اتھلے پانی میں پھینک دیا۔ میرے پاؤں زمین پر لگ گئے۔ پانی کمر تک تھا جسے چیرتا ہوا مَیں دھان کے کھیتوں کی منڈیروں سے ہوتا ہوا خشکی پر پہنچ گیا۔ سارے دن کا بھوکا تھا اور بہت نڈھال ہوچکا تھا۔ ایک چبوترہ راستہ میں آیا تو اُس پر بیٹھ گیا۔ مغرب عشاء کی نمازیں بیٹھ کر ادا کیں اور چبوترے پر ہی لیٹ گیا۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ کس جگہ پر ہوں۔ نیم بیہوشی میں دُور سے کتّوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی تو خیال آیا کہ کتّے تو آبادی میں ہوتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی ٹوٹی ہوئی ہمت سے کتّوں کی آوازوں پر دُور تک چلتا چلا گیا۔ سامنے ایک گاؤں نظر آیا۔ ایک گلی میں چار پانچ بوڑھے بزرگ لکڑی کے تنوں پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ یہ بیدہ پور تھا۔ ان بزرگوں میں سے پیر محمد خانصاحب نے مجھے پہچان لیا اور بھائی واجد علی خانصاحب احمدی کو گھر سے جگاکر لے آئے۔ انہوں نے کھانا کھلایا اور رات آرام سے اُن کے پاس گزاری۔