نوبیل انعام
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اپریل2008ء اور روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جنوری 2008ء میں نوبیل انعام کے بارہ میں مختصر معلوماتی مضامین شامل اشاعت ہیں۔
نوبیل انعام دراصل ایک دلچسپ اور ثمر آور غلطی کا ردّعمل ہے جو قریباً 117 سال پہلے ہوئی جب فرانس کے ایک اخبار نے ایک شخص کی موت کی خبر اپنے اخبار میں یوں شائع کی ’’موت کے فرشتے کا انتقال‘‘۔ دراصل یہ آدمی زندہ تھا یعنی آتش گیر مادے (بارود) کا موجد الفریڈ برن ہارڈ نوبیل۔ اور جو فوت ہوا تھا وہ نوبیل کا ہم شکل بھائی تھا۔ خبر پڑھ کر الفریڈ نوبیل کو بہت صدمہ پہنچا کہ اُس کے مرنے کے بعد دنیا اُسے کس نام سے یاد کرے گی حالانکہ اُس کا خیال یہ تھا کہ بادرود کو دریاؤں کا رخ بدلنے اور کان کنی وغیرہ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ تاہم وہ اپنی بدنامی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی دولت کا 94 فیصد حصہ انسانیت کے کام آنے والے پانچ شعبوں طبیعات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے لئے وقف کردیا اور اس طرح نوبیل پرائز کا آغاز ہوا۔ الفریڈ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم کا رہنے والا تھا۔
نوبیل پرائز کو متنازع ہونے سے بچانے کے لئے ایک سو سے اڑہائی سو نام پیش ہوتے ہیں۔ ان ناموں کو سختی سے صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے اور صرف کامیاب ہونے والوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہر سال 13؍اکتوبر تک نوبیل انعام کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
٭ جن لوگوں نے انعامی رقم کی وصولی سے انکار کردیا اُن میں جرمن رچرڈ کوہان نے 1938ء کا کیمیا میں، جرمن گیرڈ ڈامک نے 1939ء کا طب میں اور جرمن ایڈولف فریڈرک جان نے 1939ء کا کیمیا کا انعام جرمنی کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر وصول کرنے سے انکار کردیا۔ نیز سابقہ سوویت یونین کے بورس پیسٹرنک نے 1958ء کا امن کا نوبیل انعام قبول کرنے کے بعد سوویت اعلیٰ حکام کی ہدایت کے مطابق مسترد کردیا، تاہم ان سب حضرات نے نوبیل فاؤنڈیشن کے تمغے اور نوبیل ڈپلوما وصول کئے۔
٭ فرانس کے عظیم ناول نگار، نقاد، ڈرامہ نگار اور دانشور ژاں پال سارتر نے ذاتی وجوہات کی بنا پر 1964ء میں ادب کے شعبے میں ملنے والا نوبیل انعام وصول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ کوئی بھی ایسا اعزاز وصول نہیں کرتے جس میں سرکاری عمل دخل ہو۔ تاہم گیارہ برس بعد 1975ء میں انہوں نے نوبیل کمیٹی کو خط تحریر کیا کہ نوبیل پرائز کے بارے میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی ہے، لہٰذا انہیں کم ازکم ان کے نوبیل پرائز کی انعامی رقم دی جائے مگر نوبیل کمیٹی نے انکار کردیا۔
٭ ویت نام کے سیاسی رہنما لی ڈک تھو نے بھی 1973ء میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ساتھ ملنے والا امن کا نوبیل انعام قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ چونکہ اُن کے ملک میں امن قائم نہیں ہے لہٰذا وہ امن کا نوبیل انعام لینے کے حقدار نہیں ہیں۔ نیز وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر بھی امریکہ کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے ساتھ نوبیل انعام لینا مناسب نہیں سمجھتے۔ (ہنری کسنجر نے انعام تو قبول کیا تھا مگر انعامی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی)۔
٭ بنگالی زبان کے عظیم گیت نگار، ناول نگار، نثرنگار، آرٹسٹ اور تقریباً 2000 گیتوں کے خالق بھارت کے رابندرناتھ ٹیگور پہلے ایشیائی ہیں جنہیں نوبیل انعام ملا۔ اُنہیں 1913ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ 2004ء میں ان کا نوبیل تمغہ عجائب گھر سے چوری ہوگیا تو نوبیل کمیٹی نے حکومت بھارت کو متبادل نوبیل تمغہ جاری کیا۔
٭ سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ برطانیہ کے لارنس برگ ہیں جنہوں نے 1915ء میں طبیعات میں اپنے والد کے ساتھ محض 25 سال کی عمر میں نوبیل پرائز حاصل کیا تھا۔ سب سے طویل عمر میں نوبیل پرائز حاصل کرنے کا اعزاز ایران میں پیدا ہونے والی برطانیہ کی ادیبہ ڈورس لیسنگ کو حاصل ہے جنہوں نے ادب میں 2007ء میں 87 برس کی عمر میں اسے حاصل کیا ۔
٭ نوبیل پرائز کے انعام یافتگان کا اعلان ہرسال اکتوبر کی 13تاریخ کو بذریعہ پریس ریلیز کیا جاتا ہے۔ نوبیل پرائز کو متنازع بنانے یا عوامی انداز کا مقابلہ بنانے سے بچانے کے لئے کسی بھی کیٹیگری کی نامزدگیوں کو جو بالعموم 100 سے 250 افراد تک ہوتی ہیں، 50 سال تک صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے اور صرف کامیاب افراد ہی کا اعلان کیا جاتا ہے۔
٭ نوبیل پرائز بعد ازمرگ نہیں دیا جاتا تاہم اگر نامزد شخص اکتوبر تک زندہ رہے اور اسے انعام کے لئے بھی منتخب کرلیا جائے مگر اس کا انتقال تقریب انعامات یعنی 10 دسمبر سے پہلے ہو جائے تو اسے انعام دیدیا جاتا ہے ۔
٭ 1975ء میں معیشت کے نوبیل پرائز کے تمغے جو امریکہ کے ٹجلنگ کو پمانس اور سوویت یونین کے لیوند ویتا لیا اوچ نے مشترکہ طور پر حاصل کئے تھے۔ غلطی سے ایک دوسرے سے تبدیل ہوگئے تھے۔ چونکہ یہ زمانہ سرد جنگ کا تھا لہٰذا تقریباً چار سال بعد سفارتی سطح پر گفت و شنید کے بعد درست تمغے ماہرین کو تبدیل کئے گئے۔