نومبائعین کی تربیت کے لیے قیمتی نصائح

(قسط اوّل – مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی جون 2024ء)

میر انجم پرویز، قائد تربیت نومبائعین مجلس انصاراللہ یوکے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی ایک سنت بیان فرمائی ہے کہ جب بھی زمین خشک سالی کا شکار ہو جاتی ہے تو میں آسمان سے پانی اتارتا ہوں اور جب بحروبر میں فساد برپا ہو جاتا ہے تو میں آسمان سے لوگوں کی ہدایت کے سامان کرتا ہوں۔ ہر نبی کی بعثت ایسے ہی وقت میں ہوئی۔ جب آنحضرت ﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت بھی بحروبر میں فساد برپا تھا۔ پھر آپؐ نے اپنی قوتِ قدسیہ سے عبادِ صالحین کی ایسی جماعت قائم کی جو اس خشک سالی کے عالم میں مژدۂ بہار بن کر دنیا میں پھیل گئے اور جہاں بھی گئے دنیا کو سبزہ زار میں بدل دیا۔ آنحضرت ﷺ نے صدق واخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو جہاں اسلام کی ترقی اور سربلندی کی خوشخبریاں عطا فرمائیں وہیں یہ انذار بھی فرمایا کہ ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب مسلمان کہلانے والے اسلام کی تعلیمات سے روگردانی اختیار کر لیں گے۔ کہنے کو تو وہ مسلمان ہوں گے مگر ان کے دل نورِ ایمان سے خالی ہوں گے۔ ایمان دُنیا سے اٹھ جائے گا۔ لیکن ساتھ ہی آپؐ نے یہ خوشخبری بھی دی کہ ایسے عالم میں تم بالکل مایوس نہ ہونا۔ اُس وقت ایک رجلِ فارس اس ایمان کو دوبارہ دلوں میں قائم کر دے گا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ جو لوگ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہوئے انھوں نے اپنے اندر غیرمعمولی تبدیلی پیدا کی اور صدق واخلاص کے وہ نمونے دکھائے کہ صحابہ کا درجہ پایا۔

دارالبیعت لدھیانہ

ہر احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مقصد کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے کیونکہ یہی ہماری اصلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں دوسرے مسلمانوں سے بھی اور غیرمسلموں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ اگر ہم نے محض زبانی اقرارِ بیعت کرلیا اور اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا نہ کیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے تو پھر ہماری بیعت بے فائدہ ہے، بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچان کر اور آپ کی بیعت میں آکر اگر ہم اپنے اندر نیک تبدیلی نہ پیدا کریں اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہ کریں اور دین کو دنیا پر مقدم نہ کریں تو پھر ہم دوسروں سے زیادہ سزا کے مستحق ٹھہریں گے کیونکہ دوسروں کے لیے تو کچھ عذر ہو سکتا ہے کہ انھوں نے آپؑ کو پہچانا ہی نہیں۔ اگر پہچان لیتے تو ہوسکتا ہے کہ ایمان لا کر نیک تبدیلیاں پیدا کرتے۔ مگر یہ معاملہ تو سراسر عالم الغیب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے۔ بہرحال ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ جو روشنی ہمیں نصیب ہوئی ہے اس سے نہ صرف خود بھرپور استفادہ کریں بلکہ اپنے خویش واقارب اور اصحاب ومعارف کو بھی اس سے منور کرنے کے لیے مقدور بھر سعی کریں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے دلوں کو اس آسمانی نور سے روشن کریں تب ہی ہم دوسروں کے لیے چراغِ راہ بن سکتے ہیں۔
اس مضمون میں خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کے ارشادات جمع کیے ہیں جن سے نہ صرف بیعت کرنے والوں کو بیعت کی اہمیت اور اپنی ذمہ داریوں کا علم ہوتا ہے بلکہ شعبہ تربیت نومبائعین سے وابستہ عہدیداروں کو ان کے فرائض وواجبات کی ادائیگی سے متعلق راہنمائی بھی میسر آتی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ یہ مجموعۂ ارشادات جہاں نومبائعین کو اپنی تربیت کرنے میں فائدہ دے گا وہاں منتظمین وناظمینِ تربیت نومبائعین کو بھی اپنی ذمہ داریاں بطورِ احسن بجا لانے میں ممد ومعاون ثابت ہوگا۔


ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

فہرست مضامین show

زندگی صرف سلسلہ احمدیہ میں ہے

جب انسان میرے ہاتھ پر بیعت توبہ کرتا ہے تو پہلی ساری بیعتیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ انسان دو کشتیوں میں کبھی پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ ….اس وقت اللہ تعالیٰ نے ساری بیعتوں کو توڑ ڈالا ہے صرف مسیح موعود ہی کی بیعت کو قائم رکھا ہے جو خاتم الخلفاء ہو کر آیا ہے۔ ….اس وقت سب گدیاں ایک مُردہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور زندگی صرف اسی سلسلہ میں ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر قائم کیا ہے۔ اب کیسا نادان ہوگا وہ شخص جو زندوں کو چھوڑ کر مُردوں میں زندگی طلب کرتا ہے۔ (ملفوظات جلد 02 صفحہ 294۔ ایڈیشن 2022ء)

مبائعین بہت خوش قسمت ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کرنے والے کو مخاطب کرکے فرمایا: تم بہت خوش قسمت ہو۔ یہ جو بڑے بڑے مولوی تھے ان کے لیے خدا نے دروازے بند کر دیے اور تمھارے لیے کھول دیے۔ خدا کا تم پر بہت احسان ہے۔ (ملفوظات جلد 03 صفحہ 268۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت ایک تخم ریزی ہے جس کی آبیاری ضروری ہے

آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے۔ یہ تخم ریزی کی طرح ہے۔ چاہیے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کریں اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو آج قائم ہؤا ہے۔ جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر کار خشک ہو کر گر جاتی ہے۔ جو شخص زندہ ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی پروا نہیں رکھتا۔ دنیا ہر طرح مل جاتی ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہی مبارک ہے لیکن جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ ایک مردار کی طرح ہے جو کبھی سچی نصرت کا منہ نہیں دیکھتا۔ یہ بیعت اس وقت کام آسکتی ہے جب دین کو مقدم کرلیا جاوے اور اس میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔ بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا۔ اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخم ریزی پر ہی قناعت کرے اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے۔ نہ زمین کو درست کرے اور نہ آبپاشی کرے اور نہ موقع بہ موقع مناسب کھاد زمین میں ڈالے، نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کا کھیت بالضرور تباہ اور خراب ہوگا۔ کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا۔ سو ایک طرح کی تخم ریزی آپ نے بھی آج کی ہے۔ خدا جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لیے دعا کرتا رہے۔ (ملفوظات جلد 06 صفحہ 201-202۔ ایڈیشن 2022ء)

جلسہ سالانہ پر بیعت کا منظر

نومبائعین کو نصائح

آپ نے جو مجھ سے آج تعلق بیعت کیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ کچھ بطور نصیحت چند الفاظ تمہیں کہوں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ اگر کوئی شخص خدا پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن کریم میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ خدا تعالیٰ کا ہوجاوے۔ یہ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت باخداوند۔ اب خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوشخص خدا کی طرف آنا چاہتا ہے اور فی الواقع اس کا دل ایسا نہیں کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہو تو وہ خدا کے نزدیک قابلِ سزا ٹھہرتا ہے۔ ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے جب تک کافی حصّہ اپنا ان کی طلب میں خرچ نہ کر دیں وہ مقاصد حاصل ہونے ناممکن ہیں۔ مثلاً اگر طبیب ایک دوائی اور اس کی ایک مقدار مقرر کر دے اور ایک بیمار وہ مقدار دوائی کی تو نہیں کھاتا بلکہ تھوڑا حصّہ اس دوائی کا استعمال کرتا ہے تو اس کو کیا فائدہ اس سے ہوگا؟ ایک شخص پیاسا ہے تو ممکن نہیں کہ ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس دور ہو سکے۔ اسی طرح جو شخص بھوکا ہے وہ ایک لقمہ سے سیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ یا اس کے رسول پر زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہرًا رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بے سُود ہے جب تک انسان پوری طاقت سے خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگ جاوے۔ نفس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ انسان پورے طور پر وہ حصّہ لے جو روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ صرف یہ خیال کہ میں مسلمان ہوں کافی نہیں۔ میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے (خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے) اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں لیکن یاد رہے کہ صرف اقرار ہی کافی نہیں جب تک عملی رنگ سے اپنے آپ کو رنگین نہ کیا جاوے۔ (ملفوظات جلد 06 صفحہ 193-194۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت کی غرض

میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں مگر ان میں یہی لکھا ہوتاہے کہ میرے املاک کے لیے یا اولاد کے لیے دعا ہو۔ فلاں مقدمہ ہے یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتاہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دور ہونے کیلیے درخواست کی گئی ہو۔ بعض خطوط میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر مجھے پانسو روپیہ مل جاوے تو میں بیعت کر لوں۔ بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں۔ اسی لیے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اوپر ذکر ہوا اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں جیسے کسی کا لڑکا مَرگیا تو شکایت کرتا ہے میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود کہ پیغمبر تھے مگر آپ ؐکے گیارہ لڑکے فوت ہوگئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خداوندا تو نے تو مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچے کیوں مار دیے؟
غرضیکہ یاد رکھوکہ دین کو دنیا سے ہرگز نہ ملانا چاہیے اور بیعت اس نیت سے ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ میں بادشاہ ہی بن جاؤں گا یا ایسی کیمیا حاصل ہو جاوے گی کہ گھر بیٹھے روپیہ بنتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تو اس لیے مامور کیا ہے کہ ان باتوں سے لوگوں کو چھڑا دیویں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ صدق اور وفا سے خدا کی طرف آتے ہیں اور اس کے لیے ہر ایک دکھ اور مصیبت کو سر پر لیتے ہیں تو خدا ان کو اور ان کی اولاد کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ (ملفوظات جلد 06 صفحہ 281۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت کو نبھائیں

تم لوگوں نے اس وقت جو بیعت کی ہے اس کا زبان سے کہہ دینا اور اقرار کر لینا تو بہت ہی آسان ہے مگر اس اقرار ِبیعت کا نبھا نا اور اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ نفس اور شیطان انسان کو دین سے لاپروا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دنیا اور اس کے فوائد کو آسان اور قریب دکھا تے ہیں لیکن قیامت کے معاملہ کو دور دکھا تے ہیں جس سے انسان سخت دل ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتربن جاتا ہے اس لیے یہ بہت ہی ضروری اَمر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو جہاں تک کوشش ہوسکے ساری ہمّت اور توجہ سے اس اقرار کو نبھانا چاہیے اور گناہوں سے بچنے کے لیے کوشش کرتے رہو۔ (ملفوظات جلد 06 صفحہ 109۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت کے بعد اعمالِ صالحہ کی ضرورت

یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بیعت کے بعد اعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ بیعت کے بعد حجّت پوری ہو جاتی ہے پھر اگر اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کرتا تو سخت جوابدہ ہے پس ضرورت اس بات کی ہے کہ سچے مسلمان بنو تاکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری کوئی قدروقیمت ہو جو چیز کار آمد ہوتی ہے اسی کی قدر کی جاتی ہے۔ دیکھو! اگرتمہارے پاس ایک دودھ دینے والی بکری ہو جس سے تمہارے بیوی بچے پرورش پاتے ہوں تو تم بھی اس کو ذبح کرنے کے لیے طیار نہیں ہوجاتے لیکن اگر وہ کچھ بھی دودھ نہ دے بلکہ نری چارہ دانہ کی چٹی ہو تو تم فوراً اس کوذبح کر لوگے۔ اسی طرح پر جو آدمی اللہ تعالیٰ کا سچا فرمانبردار، نیک کام کرنے والا اور دوسروں کو نفع پہنچانے والا نہ ہو اس وقت تک خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ وہ اس بکری کی طرح ذبح کے لائق ہوتا ہے جو دودھ نہیں دیتی ہے اس لیے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ تم اپنے آپ کو مفید ثابت کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے بندوں کو نفع پہنچاؤ۔ (ملفوظات جلد 06 صفحہ 114-115۔ ایڈیشن 2022ء)

دشمن بھی گواہی دے کہ بیعت کے بعد یہ شخص وہ نہیں رہا

فتنہ کی بات نہ کرو، شر نہ کرو، گالی پر صبر کرو، کسی کا مقابلہ نہ کرو، جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ، شیریں بیا نی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ، سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو اور دشمن بھی جان لیوے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا مقدمات میں سچی گواہی دو، اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہیے کہ پورے دل، پوری ہمّت اور ساری جان سے راستی کا پا بندہو جاوے۔ (ملفوظات جلد 06 صفحہ 127۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت کے مغز کو اختیار کرو

یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے، مغز تو اس کے اندر ہے۔ ….جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی، اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے لیکن یہ یقینی امر ہے کہ مرنا ضرور ہے۔ پس نِرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ۔ وہ ہرگز ہر گز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کر ے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو پا نہیں سکتا۔ (ملفوظات جلد 02 صفحہ 53۔ ایڈیشن 2022ء)

جماعت میں داخل ہوکرانسان کیا تبدیلی پیدا کرے

اس جماعت میں داخل ہو کر اوّل تغیر زندگی میں کرنا چاہیے کہ خدا پر ایمان سچا ہو کہ وہ ہر مصیبت میں کام آتا ہے۔ پھر اس کے احکام کو نظر ِخفت سے ہرگز نہ دیکھا جاوے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جاوے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جاوے۔ (ملفوظات جلد 05 صفحہ 328۔ ایڈیشن 2022ء)

اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں

انسان جب خود توبہ کرتا ہے تو وہ اکثر ٹوٹ جاتی ہے۔ بار بار توبہ کرتا اور باربار توڑتا ہے مگر مامور من اللہ کے ہاتھ پر جو توبہ کی جاتی ہے جب وہ سچے دل سے کرے گا تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہو گی وہ خدا خود اسے قوت دے گا اور آسمان سے ایک طاقت ایسی دی جاوے گی جس سے وہ اس پر قائم رہ سکے گا۔ اپنی توبہ اور مامور کے ہاتھ پر توبہ کرنے میں بھی فرق ہے کہ پہلی کمزور ہوتی ہے دوسری مستحکم، کیونکہ اس کے ساتھ مامور کی اپنی توجہ، کشش اور دعائیں ہوتی ہیں جو توبہ کرنے والے کے عزم کو مضبوط کرتی ہیں اور آسمانی قوت اسے پہنچاتی ہیں جس سے ایک پاک تبدیلی اس کے اندر شروع ہو جاتی ہے اور نیکی کا بیج بویا جاتا ہے جو آخر ایک باردار درخت بن جاتا ہے۔ پس اگر صبر اور استقامت رکھوگے تو تھوڑے دنوں کے بعد دیکھو گے کہ تم پہلی حالت سے بہت آگے گزر گئے ہو۔ غرض اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں: ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے۔ دوسرے مامور کے سامنے توبہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے۔ (ملفوظات جلد 05 صفحہ 281۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہے

یاد رکھو کہ بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہوتی ہے۔ اگر بیعت کے بعد اپنی حالت میں تبدیلی نہ کی جاوے تو پھر یہ استخفاف ہے۔ بیعت بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔ درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر ایک اَمر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ پہلے تعلقات معدوم ہو کر نئے تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔ جب صحابہؓ مسلمان ہوتے تو بعض کو ایسے امور پیش آتے تھے کہ احباب رشتہ دار سب سے الگ ہونا پڑتا تھا۔ ….غرض اس سلسلہ میں جو ابتلاؤں کا سلسلہ ہوتا ہے بہت سی ٹھو کریں کھانی پڑتی ہیں اور بہت سی موتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ ان انسانوں میں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان میں بعض بزدل بھی ہوتے ہیں، شجاع بھی ہوتے ہیں۔ بعض ایسے بزدل ہوتے ہیں کہ صرف قوم کی کثرت کو دیکھ کر ہی الگ ہو جاتے ہیں۔ انسان بات کو تو پورا کر لیتا ہے مگر ابتلا کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہے۔ خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت۳ ) یعنی کیا لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ایمان لائیں اور امتحان نہ ہو۔ غرض امتحان ضروری شَے ہے۔ اس سلسلہ میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلا سے خالی نہیں رہ سکتا۔ (ملفوظات جلد 03 صفحہ 135-136۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ نہیں

بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اوراپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے، غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتاہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ (ملفوظات جلد 03 صفحہ 62۔ ایڈیشن 2022ء)

بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ دنیا کے اغراض کو نہ ملاؤ

ہر ایک شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی بیعت کی کیا غرض ہے؟ کیا وہ دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے؟ بہت سے ایسے بد قسمت انسان ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غایت اور مقصود صرف دنیا ہوتی ہے۔ ورنہ بیعت سے ان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی یقین اور معرفت کانور جو حقیقی بیعت کے نتائج اور ثمرات ہیں ان میں پیدا نہیں ہوتا،ان کے اعمال میں کوئی خوبی اور صفائی نہیں آ تی، نیکیوں میں ترقی نہیں کرتے، گناہوں سے بچتے نہیں۔ ….یاد رکھو! اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ کیونکہ دنیا تو گزر نے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی۔ ….بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ، جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں، دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ، نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو نوعِ انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو، راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کردے گا۔ عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے رو کو، پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ۔ ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے، اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے۔ (ملفوظات جلد 05 صفحہ 278-282۔ ایڈیشن 2022ء)

جو بیعت کرکے پھر گناہ سے نہیں بچتا….

جو بیعت کرکے پھر گناہ سے نہیں بچتا وہ گویا جھوٹا اقرار کرتا ہے۔ اور یہ میرا ہاتھ نہیں خدا کا ہاتھ ہے جس پر وہ ایسا جھوٹ بولتا ہے اور پھر خدا کے ہاتھ پر جھوٹ بول کر کہاں جاوے؟ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف۴:) مَقْت خدا کے غضب کو کہتے ہیں۔ یعنی بڑا غضب ان پر ہوتا ہے جو اقرار کرتے ہیں اور پھر کرتے نہیں۔ ایسے آدمی پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے، اس لیے دعائیں کرتے رہو۔ کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خدا نہ رکھے۔ (ملفوظات جلد 04 صفحہ 321-322۔ ایڈیشن 2022ء)

دین کو دنیا پر مقدم رکھیں

بیعت کے وقت جو اقرار کیا گیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے۔ اب چاہیے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہو ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ دین، دنیا میں برکت دے گا۔ اپنے اللہ کے منشا کے موافق پوری پوری تقویٰ اختیار کرو۔ (ملفوظات جلد 04 صفحہ 186۔ ایڈیشن 2022ء)

اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کریں

اب ایک اور جماعت مسیح موعود کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرنا ہے۔ صحابہ کی تو وہ پاک جماعت تھی جس کی تعریف میں قرآن بھرا پڑا ہے۔ کیا آپ لوگ ایسے ہیں؟ جب خدا کہتا ہے کہ مسیح کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو صحابہ کے دوش بدوش ہوں گے۔ صحابہ تو وہ تھے جنھوں نے اپنا مال ، اپنا وطن راہ حق میں دیا اور سب کچھ چھوڑا۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 37۔ ایڈیشن 2022ء)

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

================================

(قسط دوم۔ مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی اگست 2024ء)

ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

ایمان کی مضبوطی کے لیے نومبائعین کو پیش آنے والی مشکلات

جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہوجاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبولِ حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے۔ ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خد اتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 354-355 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت ، گناہ سے توبہ کا اقرار ہے

بیعت میں انسان زبان کے ساتھ گناہ سے توبہ کا اقرار کرتا ہے مگر اس طرح سے اس کا اقرار جائزنہیں ہوتا جب تک دل سے وہ اس اقرار کو نہ کرے۔ …. جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ مجھے اپنے بھائیوں، قریبی رشتہ داروں اور سب دوستوں سے قطع تعلّق ہی کرنا پڑے مگر میں خدا تعالیٰ کو سب سے مقّدم رکھوں گا اور اسی کے لیے اپنے تعلقات چھوڑتا ہوں۔ ایسے لوگوں پر خدا کا فضل ہوتا ہے کیونکہ انھی کی توبہ دلی توبہ ہوتی ہے۔ پھر جو لوگ دل سے دعا کرتے ہیں خدا ان پر رحم کرتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ آسمان، زمین اور سب اشیاء کا خالق ہے ویسے ہی وہ توبہ کا بھی خالق ہے اور اگر اس نے توبہ کو قبول کرنا نہ ہوتا تو وہ اسے پیداہی نہ کرتا۔ گناہ سے توبہ کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ سچی توبہ کرنے والا خدا سے بڑے بڑے انعام پاتا ہے۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 22-23 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت کے ساتھ دنیا کی خواہش نہ ملاؤ

اس شرط سے دین کو کبھی قبول نہ کرنا چاہیے کہ میں مالدار ہو جاؤں گا۔ مجھے فلاں عہدہ مل جاوے گا۔ یاد رکھو کہ شرطی ایمان لانے والے سے خدا بیزار ہے۔ بعض وقت مصلحت الٰہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی۔ طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامُرادیاں لاحق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہیے۔ موت ہر ایک کے واسطے کھڑی ہے اگر بادشاہ ہوجاوے گا تو کیا موت سے بچ جاوے گا؟ غریبی میں بھی مرنا ہے۔ بادشاہی میں بھی مرنا ہے۔ اس لیے سچی توبہ کرنے والے کو اپنے ارادوں میں دنیا کی خواہش نہ ملانی چاہیے۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 23 ۔ ایڈیشن 2022)

اقرارِ بیعت کے اثرات

اس وقت تم لوگوں نے ا للہ تعالیٰ کے سامنے بیعت کا اقرارکیا ہے اور تمام گناہوں سے توبہ کی ہے اور خدا سے اقرار کیا ہے کہ کسی قسم کا گناہ نہ کریں گے۔ اس اقرار کی دوتاثیر یں ہوتی ہیں۔ یا تو اس کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کا وارث ہو جاتا ہے کہ اگر اس پر قائم رہے تو اس سے خدا راضی ہو جائے گا اور وعدہ کے موافق رحمت نازل کرے گا اور یا اس کے ذریعے سے خدا کا سخت مجرم بنے گا کیونکہ اگر اقرار کو توڑے گا توگو یا اس نے خدا کی توہین کی اور اہانت کی۔ جس طرح سے ایک انسان سے اقرار کیا جاتا ہے اور اسے بجا نہ لا یا جاوے تو توڑنے والا مجرم ہوتا ہے ایسے ہی خدا کے سامنے گناہ نہ کرنے کا اقرار کرکے پھر توڑنا خدا کے روبروسخت مجرم بنا دیتا ہے۔ آج کے اقرار اور بیعت سے یا تو رحمت کی ترقی کی بنیا د پڑگئی اور یا عذاب کی ترقی کی۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 4 ۔ ایڈیشن 2022)

خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں

وہ جو اس سلسلے میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلن اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقت نماز باجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنے کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 220مطبوعہ ربوہ)

اس دھوکا میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے

پس یاد رکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سود مند نہیں۔ جب کوئی شخص شدتِ پیاس سے مرنے کے قریب ہوجاوے یا شدتِ بھوک سے مرنے تک پہنچ جاوے تو کیا اس وقت ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ کھانے کا اس کو موت سے بچا لے گا؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح اس بدن کو بچانے کے واسطے کافی خوراک اور کافی پانی بہم پہنچانے کے سوائے مفر نہیں۔ اسی طرح پورے جہنم سے تھوڑی سی نیکی سے تم بھی بچ نہیں سکتے۔ پس اس دھوکا میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے۔ ہدایت بھی ایک موت ہے جو شخص یہ موت اپنے اوپر وارد کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہے اور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطہ فرمایا يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ(المآئدۃ۱۰۶:) یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو، اپنے امراض کو دور کرو، دوسروں کا فکر مت کرو۔ ہاں رات کو اپنے آپ کو درست کرو اور دن کو دوسروں کو بھی کچھ ہدایت کر دیا کرو۔ خدا تعالیٰ تمھیں بخشے اور تمہارے گناہوں سے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمالِ صالح اور نیکی میں ترقی کرنے کی توفیق دیوے۔ آمین (ملفوظات جلد 7 صفحہ 21 ۔ ایڈیشن 2022)

خدا سے عہد کرکے توڑا موجب عذاب ہے

اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا کی محبت میں ذوق و شوق پیدا ہو اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں۔ جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لیے مجاہدہ اور کوشش نہیں کرتا جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بےحرمتی کرتا ہے ۔ …. تم لوگوں نے اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ توبہ تمہارے لیے باعث برکت ہونے کی بجائے لعنت کا موجب ہوجاوے۔ کیونکہ اگر تم لوگ مجھے شناخت کر کے بھی اور خدا تعالیٰ سے اقرار کر کے بھی اس عہد کو توڑتے ہو تو پھر تم کو دوہرا عذاب ہے کیونکہ عمداً تم نے معاہدہ کو توڑا ہے۔ دنیا میں جب کوئی شخص کسی سے عہد کر کے اسے توڑتا ہے تو اس کو کس قدر ذلیل اور شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ وہ سب کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ پھر جو شخص خدا تعالیٰ سے عہد اور اقرار کر کے توڑے وہ کس قدر عذاب اور لعنت کا مستحق ہوگا۔ پس جہاں تک تم سے ہو سکتا ہے اس اقرار اور عہد کی رعایت کرو اور ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہو۔ پھر اس اقرار پر قائم اور مضبوط رہنے کے واسطے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 21-22 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت اعمالِ صالحہ کی تخم ریزی ہے

یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمالِ صالحہ کی۔ جس طرح کوئی باغبان درخت لگاتا ہے یا کسی چیز کا بیج بوتا ہے۔ پھر اگر کوئی شخص بیج بو کر یا درخت لگا کر وہیں اس کو ختم کر دے اور آئندہ آبپاشی اور حفاظت نہ کرے تو وہ تخم بھی ضائع ہو جاوے گا۔ اسی طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے۔ پس اگر انسان نیک عمل کر کے اس کے محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ عمل ضائع جاتا ہے۔ …. یاد رکھو کہ بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ساتھ اس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگا لے تو ترقی ہوتی ہے۔ مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امدادِ الہٰی کی سخت ضرورت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت۷۰:) کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کوشش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہوجاتا ہے اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا! ہماری مدد کر تو فضلِ الہٰی وارد نہیں ہوگا اور بغیر امدادِ الہٰی کے تبدیلی ناممکن ہے۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 12-13 ۔ ایڈیشن 2022)

مشروط بیعت والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں

جو لوگ اس قسم کی شرائط پیش کرتے ہیں کہ اس قدر آمدنی ہو جاوے تو ایمان لائیں گے وہ گویا یہ سمجھتےہیں کہ ایمان لا کر اللہ تعالیٰ پر یا اس کے رسول پر احسان کرتے ہیں۔ وہ احمق نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا کیا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہدایت کی راہ ان کو بتائی اور اپنے مامور کو ہدایت کے واسطے بھیجا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا صاف احسان ہے وہ الٹا خدا تعالیٰ پر احسان رکھنا چاہتے ہیں۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نشان اللہ کے پاس ہیں۔ اور دوسری جگہ فرماتا ہے زمین و آسمان میں نشان ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کیسے بیوقوف ہیں جو اتنا نہیں سمجھتے کیا یہ وقت کسی نبی کی ضرورت کا ہے یا نہیں؟ حالت زمانہ خود اس پر شہادت دیتی ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر اور وہ کیا نشان چاہتے ہیں؟ ہر شخص اس امر کا محتاج ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور وہ اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے جاوے۔ جب اس امر کی ضرورت ہے تو یہ شرط کیسی بیہودہ اور فضول ہے کہ وہ کام ہو یا اس قدر آمدنی ہو تو بیعت کروں گا۔ ضرورت جو ہر وقت مد نظر ہونی چاہیے وہ تو حسنِ انجام کی ضرورت ہے۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 182 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت سے دنیا مقصود نہ ہو

بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔ اگر بیعت کے بعد ان کی دنیا داری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتےہیں۔ یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گذرے۔ ایسے شخص سے تو خدا بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے۔ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ تو کَل بھی گیا اور آج بھی گیا۔ یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتا ہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔ انسان کو چاہیے کہ آنحضرت ﷺاور صحابہ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کےلیے طیار بیٹھے تھے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلا دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا کو بھول جاتےہیں۔ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گذرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہوجائے۔ خدا رحیم و کریم ہے۔ مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دے۔ خدا ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہوجاتا ہے۔ طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں۔ اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ تب وہ صبر کرتے ہیں اور خدا ان کی حفاظت کرتا ہے۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 28-29 ۔ ایڈیشن 2022)

اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور غیر میں کچھ فرق نہیں

ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پورا کرنے والی ہو۔ اندرونی تبدیلی کرنی چاہیے۔ صرف مسائل سے تم خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں پھر کچھ فرق نہیں۔ اگر تم میں مکر، فریب، کسل اور سستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کیے جاؤ گے۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 31 ۔ ایڈیشن 2022)

جب تک استقامت نہ ہو بیعت بھی ناتمام ہے

ثابت قدمی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک استقامت نہ ہو بیعت بھی ناتمام ہے۔ انسان جب خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک ان میں سے انسان گذر نہ لے منزلِ مقصود کو پہنچ نہیں سکتا۔ امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو طیار ہے۔ مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 40 ۔ ایڈیشن 2022)

جو دنیا کو مقدم کرتا ہے وہ اقرار بیعت کو توڑتا ہے

یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مومن اور بیعت میں داخل ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرلےجیسا کہ وہ بیعت کرتے وقت کہتا ہے۔ اگر دنیا کی اغراض کو مقدم کرتا ہے تو وہ اس اقرار کو توڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ٹھیرتا ہے۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 132 ۔ ایڈیشن 2022)

سچی بیعت سے گذشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں

حدیث میں آیا ہے کہ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ۔ اب جو تم لوگوں نے بیعت کی تو اب خدا تعالیٰ سے نیا حساب شروع ہؤا ہے۔ پہلے گناہ صدق و اخلاص کے ساتھ بیعت کرنے پر بخشے جاتے ہیں۔ اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ اپنے لیے بہشت بنا لے یا جہنم۔ …. ہماری جماعت کو تو ایسا نمونہ دکھانا چاہیے کہ دشمن پکار اٹھیں کہ گو یہ ہمارے مخالف ہیں مگر ہیں ہم سے اچھے۔ اپنی عملی حالت کو ایسا درست رکھو کہ دشمن بھی تمہاری نیکی خدا ترسی اور اتقا کے قائل ہوجائیں۔ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 238 ۔ ایڈیشن 2022)

مشروط بیعت قابل قبول نہیں

میں کھول کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری بیعت اس لیے کرتا ہے کہ اسے بیٹا ملے یا فلاں عہدہ ملے یعنی شرطی باتوں پر بیعت کرتا ہے تو وہ آج نہیں۔ کل نہیں۔ ابھی الگ ہو جاوے اور چلا جاوے۔ مجھے ایسے آدمیوں کی ضرورت نہیں اور نہ خدا کو ان کی پروا ہے۔ یقیناً سمجھو! اس دنیا کے بعد ایک اور جہان ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس کے لیے تمہیں اپنے آپ کو تیار کرنا چا ہیے۔ یہ دنیا اور اس کی شوکتیں یہاں ہی ختم ہو جاتی ہیں مگر اس کی نعمتوں اور خوشیوں کا بھی انتہا نہیں ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جو شخص ان سب باتوں سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہی مومن ہے اور جب ایک شخص خدا کا ہوجاتا ہے تو پھر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اسے چھوڑ دے۔ (ملفوظات جلد 9صفحہ 25 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت کے بعد ایک امتیاز دکھائیں

ہماری جماعت کو چاہیے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے۔ اگر کوئی شخص بیعت کر کے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا، اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح ہی پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں۔ اگر بیعت کے بعد بھی وہی بد خلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟ چاہیے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ ….سچے آدمی کا ضرور رعب ہوتا ہے۔ چاہیے کہ بالکل صاف ہو کر عمل کیا جاوے اور خدا کے لیے کیا جاوے تب ضرور تمہارا دوسروں پر بھی اثر اور رعب پڑے گا۔ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 238 ۔ ایڈیشن 2022)

میں کثرت جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا

میں کثرت جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔اب اگرچہ چار لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہے مگر حقیقی جماعت کے معنے یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف بیعت کر لی۔ بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کار بند ہو۔سچے طور سے ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاوے اور ان کی زندگی گناہ کی آلائش سے بالکل صا ف ہو جاوے۔ نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجہ سے نکل کر خدا کی رضا میں محو ہو جاویں۔ حق اللہ اور حق العباد کو فراخ دلی سے پورے اور کامل طور سے ادا کریں۔ دین کے واسطے اور اشاعتِ دین کے لیے ان میں ایک تڑ پ پیدا ہو جاوے اپنی خواہشات اور ارادوں، آرزؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاویں۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 119 ۔ ایڈیشن 2022)

اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بناؤ

ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہیے اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر بُرا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ بُرے نمونے سے اَوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 120 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت کی حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے

بیعت کرنے سے مطلب بیعت کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہے۔ ایک شخص نے روبرو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی، اصل غرض اور غایت کو نہ سمجھا یا پر وا نہ کی تو اس کی بیعت بے فائدہ ہے اور اس کی خدا کے سامنے کچھ حقیقت نہیں۔ مگر دوسرا شخص ہزار کوس سے بیٹھا بیٹھا صدقِ دل سے بیعت کی حقیقت اور غرض وغایت کو مان کر بیعت کرتا ہے اور پھر اس اقرار کے اوپر کار بند ہو کر اپنی عملی اصلاح کرتا ہے وہ اس رو برو بیعت کر کے بیعت کی حقیقت پر نہ چلنے والے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 123 ۔ ایڈیشن 2022)

بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت اور اس پر کاربند ہونا ضروری ہے

ظاہر نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں۔ تم بھی مسلمان ہو۔ وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ تم کلمہ گو ہو وہ بھی کلمہ گو ہیں۔ تم بھی اتباع قرآن کا دعویٰ کرتے ہو۔ وہ بھی اتباع قرآن ہی کے مدعی ہیں۔ غرض دعووں میں تو تم اور وہ دونوں برابر ہو مگر اللہ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعوے کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو۔ اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ ظاہری طور سے جماعت (کی) تعداد میں تو بہت ترقی ہو رہی ہے کیا خطوط کے ذریعہ سے اور کیا خود حاضر ہو کر دونوں طرح سے سلسلہ بیعت میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے۔ آج کی ڈاک میں بھی ایک لمبی فہرست بیعت کنندگان کی آئی ہے، لیکن بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہیے اور اس پر کاربند ہونا چاہیے۔ اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کرکے دکھاوے اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس واسطے اور بھی باعث عذاب ہو گی کیونکہ معاہدہ کرکے جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 289 ۔ ایڈیشن 2022)

نومبائعین جلسہ سالانہ میں شامل ہوں

بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہوا اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کے لیے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی برہانِ یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقینِ کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولۂ عشق پیدا ہو جائے۔ سو اس بات کے لیے ہمیشہ فکر رکھنا چاہیے اور دعا کرنا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہریک کے لیے باعث ضعفِ فطرت یا کمیِ مقدرت یا بُعدِ مسافت یہ میسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لیے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لیے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں، لہٰذا قرینِ مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لیے مقرر کیے جائیں۔ جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرطِ صحت و فرصت و عدم موانعِ قویہ تاریخِ مقررہ پر حاضر ہوسکیں۔ …. ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا ۔ (مجموعۂ اشتہارات جلد1 صفحہ318-319)

میں بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ایسی ہو….

میں تو بہت دُعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اُٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دُنیا کے کیڑے نہیں ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے میں اور میرا خدا اُن سے بیزار ہیں ۔ میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کر لیں کیونکہ خدا اس جماعت کو ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنھوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو لیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ، پھر وہ اپنے گھروں میں جا کر ایسے مفاسد میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ صرف دنیا ہی دنیا اُن کے دلوں میں ہوتی ہے۔ نہ اُن کی نظر پاک ہے نہ اُن کا دل پاک ہے اور نہ ان کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پیر کسی نیک کام کے لیے حرکت کرتے ہیں اور وہ اس چوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اسی میں رہتا اور اسی میں مرتا ہے۔ وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں۔ وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیونکہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے۔ جو شخص میری اس وصیت کو نہیں مانتا کہ در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے اور در حقیقت ایک پاک انقلاب اس کی ہستی پر آجائے اور در حقیقت وہ پاک دل اور پاک ارادہ ہو جائے اور پلیدی اور حرام کاری کا تمام چولہ اپنے بدن پر سے پھینک دے اور نوعِ انسان کا ہمدرد اور خدا کا سچا تا بعدار ہو جائے اور اپنی تمام خودروی کو الوداع کہہ کر میرے پیچھے ہولے۔ ….کیا میں اس بات کا محتاج ہوں کہ وہ لوگ زبان سے میرے ساتھ ہوں اور اس طرح پر دیکھنے کے لیے ایک جماعت ہو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ دیں اور ایک بھی میرے ساتھ نہ رہے تو میرا خدا میرے لیے ایک اور قوم پیدا کرے گا جو صدق اور وفا میں اُن سے بہتر ہو۔ (مجموعۂ اشتہارات جلد3 صفحہ 330-331)

(باقی آئندہ شمارہ میں ان شاءاللّٰہ)

===============================

(قسط سوم۔ مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبراکتوبر 2024ء)

 ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

نومبائعین مرکز میں آئیں

تمام بیعت کنندوں کے واسطے ضروری ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے کچھ نہ کچھ فرصت نکال کر ملاقات کے واسطے سب قادیان آویں کیونکہ اس سے روحانی ترقی ہوتی ہے اور ایمان میں تقویت پیدا ہوتی ہے۔ (البدر جلد نمبر ۲۳ مؤرخہ ۱۱ جون ۱۹۰۸ صفحہ ۹)

نومبائعین مرکز میں آکر امام کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں

مجھے ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو سلسلۂ بیعت میں داخل ہیں مگر یہاں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو اس قدر جلدی کرتے ہیں کہ ایک دن رہنا بھی ان کے لیے ہزاروں موتوں کا سامنا ہو جاتا ہے۔ ان کے جتنے کام بگڑتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر بگڑتے ہیں۔ جتنے مریض ہوتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر ہوتے ہیں۔ ہزاروں ہزار عذر کرتے ہیں۔ یہ بات مجھے بہت ہی نا پسند ہے۔ مجھے ایسے عذرسن کر ڈر لگتا ہے کہ ایسے لوگ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ (الاحزاب14:) کے الزام کے نیچے نہ آجائیں ۔ پس جب یہاں آؤ تو امام کی صحبت میں رہ کر ایک اچھے وقت تک فائدہ اٹھاؤ۔ کسل اور بُعد اچھا نہیں ہے۔ خدا کرے ہمارے احباب میں وہ مزہ دار طبیعت پیدا ہو جو وہ اس ذوق اور لطف کو محسوس کر سکیں جو ہم کر رہے ہیں۔  (خطاباتِ نور ص 106)

بیعت سے کمزوریاں دور ہوتی اور خوبیاں  پیدا ہوتی ہیں

نماز میں ایک خاص قسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ان میں ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اپنے ظرف اور استعداد کے موافق ان سے حصہ لیتا ہے۔ پھر امام کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بیعت کے ذریعہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ وسیع ہوتا ہے۔ ہزاروں کمزوریاں دور ہوتی ہیں جن کو غیر معمولی طور پر دور ہوتے ہوئے محسوس کر لیتا ہے اور پھر کمزوریوں کی بجائے خوبیاں آتی ہیں جو آہستہ آہستہ نشو و نما پا کر اخلاق فاضلہ کا ایک خوبصورت باغ بن جاتے ہیں۔  (حقائق الفرقان جلد 1 ص 61)

بیعت کی حقیقت

بیعت کے معنے اپنے آپ کو بیچ دینے کے ہیں اور جب انسان کسی کو دوسرے کے ہاتھ پر بیچ دیتا ہے تو اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا۔ صحابہ کرام نے اپنے نفسوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں پر بیچ کر آپ کی اطاعت کو کہاں تک مدّ نظر رکھا ہوا تھا۔   (خطباتِ نورص171)

بیعت کے معنی بِک جانے کے ہیں

بیعت کے معنی بِک جانے کے ہیں۔ جو شخص بیعت کرتا ہے وہ اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے۔ یاد رکھو کہ اپنے آپ کوبیچ دینا معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ جو شخص بیعت لیتا ہے اس کی ذمہ داری کو تو تم سمجھ ہی نہیں سکتے۔  (خطاباتِ نورص۳۵۲)

نومبائعین کو چار باتوں کی نصیحت

میں ان لوگوں کو جنہوں نے ابھی بیعت کی ہے نصیحت کرتا ہوں کہ 
۱۔ وہ بہت استغفار کیا کریں ۔ استغفار انسان کو بہت سی بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور پھر بدیوں کے برے نتائج سے بچاتا ہے اور استغفار کی جڑ یہی ہے۔
۲۔ پھر الحمد شریف بہت پڑھو۔ الحمد شریف ایک بے نظیر دعا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے مگر اس کے مطالب کو خوب سوچ کر پڑھو اور خوب توجہ سے پڑھو۔
۳۔ پھر درود شریف بہت پڑھو۔ درود شریف کے پڑھنے میں اس بات کو یاد رکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی مدارج ہو۔ درود شریف کے پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بڑھتی جاتی ہے۔ آپؐ کے اتباع کا جوش پیدا ہوتا ہے۔ ملائکہ سے تعلق بڑھ جاتا ہے۔ درود شریف کا کثرت سے پڑھنا بڑا ہی مفید امر ہے۔
۴۔ پھر لاحول بہت پڑھا کرو۔ اس سے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں کے لیے توفیق اور بدیوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے اور ہر قسم کی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ یہ میرا اور تمام راستبازوں کا مجرب نسخہ ہے۔   (خطابات نور، ص۳۵۴)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

نومبائعین کے ساتھ باہم محبت کا تعلق قائم کریں

جو جماعت خدا تعالیٰ پیدا کرے اس کا تعلق مرکز سے اس طرح قائم کریں جس طرح عضو کا تعلق جسم سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہؤا تو ہماری ترقی ہی موجب ِتنزل ہو گی اور وہی مصرع صادق آئے گا    ؎
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اگر کوئی قوم ترقی کرے مگر اس میں اتحاد نہ ہو، مختلف ممالک کے لوگوں کے درمیان ایسا رشتۂ و داد نہ ہو جو سب کو ایک وجود کی طرح نہ بنائے، ان کے شعور اور افکار کو ایک سے نہ کر دے تو اس کا بڑھنا تنزل کا باعث ہوتا ہے۔ اور ایک ایک آدمی جو اس میں داخل ہوتا ہے اس کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ ۔۔ ۔ پس مبلغین کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے والوں کا آپس میں ایسا رشتہ اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے ساری جماعت اس طرح متحد ہو کہ کوئی چیز اسے جدا نہ کر سکے۔  (زریں ہدایات جلد اول صفحہ 245-246)

نومبائعین کا مرکز اور خلافت سے تعلق مضبوط ہو

روحانیت میں نظام بہت بڑا تعلق رکھتا ہے۔ پس کوشش کرنی چاہیے کہ لوگوں  (نومبائعین) کا مرکز اور خلافت سے تعلق مضبوط ہو۔ ان کو یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ مرکز میں خط لکھیں ۔ سلسلہ کی طرف سے جو تحریکیں ہوں وہ سنائی جائیں۔ خطبات پڑھائے جائیں۔ مذہبی طور پر خلافت کے نظام کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ خلافت مذہبی نظام کا جز ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ دعاؤں سے کام لیا جائے۔   (زریں ہدایات جلد اول، صفحہ 332)

نومبائعین کی تربیت کا بہترین وقت

جس طرح انسانی زندگی کا بہترین حصولِ علم کا وقت بچپن ہے اسی طرح ایک نو مسلم کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا بہترین وقت اس کے اسلام لانے کے قریب کا زمانہ ہے۔ جس طرح بڑے ہو کر بچہ کے سیکھنے کا وقت نکل جاتا ہے اسی طرح کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد نو مسلم کے اندر تغیر پیدا کرنے کی قابلیت کمزور ہو جاتی ہے۔ اس کا تازہ جوش سرد پڑ جاتا ہے اور ٹھنڈے لوہے کو کوٹنے سے کچھ نہیں بنتا۔ پس ایک جلسہ خاص نو مسلموں کے لیے کر کے اس میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف توجہ دلانی چاہیے اور ایک جلسہ عام تبلیغ کا ہونا چاہیے جس میں عام وعظ ہو۔  (زریں ہدایات جلد اول،صفحہ 116)

نومبائعین کی اخلاقی اصلاح کے لیے ایک نکتہ

ایک محاورہ کثرت سے استعمال کریں اور نامعلوم طور پر نو مسلموں میں اس کے استعمال کو رائج کریں۔ اس سے عظیم الشان فوائد حاصل ہوں گے اور دنیا ایک عجیب پلٹا کھائے گی۔ اور وہ ’’اسلامی اخلاق ‘‘ کا محاورہ ہے۔ جب کسی بدی کا ذکر کریں تو کہیں یہ ’’غیر اسلامی خلق‘‘ ہے اور جب نیکی کا ذکر کریں تو کہیں یہ اسلامی شعار اور خلق ہے۔ اور مثلاً کسی قوم کی تباہی کا ذکر کریں تو کہیں کہ اگر وہ اسلامی اخلاق کی پابندی کرتی تو کیوں تباہ ہوتی۔ اس نکتہ کو یاد رکھیں فوائد عظیمہ حاصل ہوں گے  ان شاء اللہ ۔  جو لوگ اس نصیحت پر عمل کریں گے اگلی نسلیں ان کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گی اور ان کے لیے دعا کریں گی۔ ان شاءاللہ  (زریں ہدایات جلد اول، صفحہ 118-119)

نومسلموں میں سے قومی منافرت دور کرنے کی کوشش کریں

ہمارے لیے سب قومیں برابر ہیں۔ پس حبشیوں اور سفید رنگ والوں کو یکساں سمجھیں، مگر لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ جس طرح جسم کو تکلیف دینی منع ہے دل کو تکلیف دینی بھی منع ہے۔ پس جب تک اسلام یا ایمان یا اخلاق یا جماعت کے فوائد کو نقصان نہ پہنچتا ہولوگوں کے احساسات کا خیال رکھیں مگر چاہیے کہ نومسلموں میں سے قومی منافرت کے دور کرنے کی کوشش کریں۔  (زریں ہدایات جلد اول ، صفحہ 119)

نو مبائعین کا فرض

ساری تباہی اور بربادی اسی لیے ہوتی ہے کہ نو مسلم یا نو احمدی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں میں سلسلہ کی وہ عظمت نہیں ہوتی جو پہلوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے جماعت کا قدم تنزل کی طرف اُٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ …. بےشک پہلوں کا بھی فرض ہے کہ وہ نئے لوگوں کو سکھائیں مگر نئے شامل ہونے والوں کا یہ ذاتی طور پر بھی فرض ہے کہ وہ کمی کو پورا کریں اور پہلے لوگوں کی اچھی باتوں کی تقلید کریں۔   (خطاباتِ شورٰی  جلد دوم، صفحہ 517)

بیعت کرنے والے کا فرض

جو شخص فوج میں بھرتی ہو گا اس کا فرض ہو گا کہ لڑائی کے لیے جہاں اسے جانا پڑے جائے۔ اسی طرح مسیح موعود کے سلسلہ میں داخل ہونے والے کا بھی فرض ہے کہ جس طرح صحابہ کرام نے دین کے لیے اپنا مال، اپنا وقت، اپنا وطن، اپنے رشتہ دار حتی کہ اپنی جان بھی قربان کر دی تھی وہ بھی اس کے لیے تیار رہے اور ایسا نمونہ بن کر دکھلائے کہ دنیا دیکھے اور معلوم کرے کہ اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ پھر ایسے سلسلہ میں داخل ہونے والوں پر ابتلا بھی آتے ہیں، مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تکالیف بھی پہنچتی ہیں، ان کو برداشت کرنا چاہیے۔ (بیعت کرنے والوں کے لیے ہدایات، انوار العلوم جلد6 صفحہ 73)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

نومبائعین کے ساتھ نرمی اور ملائمت کا سلوک کریں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں ان لوگوں کا بڑا خیال تھا جو اُس وقت کچھ عرصہ پہلے سلسلہ میں داخل ہوئے۔ ….قرآن شریف میں آیا: تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى۔ کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ۔ عملی ، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ، بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے۔ اس کی یہی صورت ہے کہ ابتدا میں ان کی پردہ پوشی کی جائے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلمانوں کی کمزوریاں دیکھ کر چڑو نہیں کیونکہ جب تم اسلام میں داخل ہوئے تھے تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت اور ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔ کس قدر شفقت ہے نئے آنے والوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اور یہ اس لیے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر رکھتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی عزت اور احترام کی مہر لگ جاتی ہے اور خدا دنیا کو یہ کہتا ہے کہ یہ میرا مکرم اور محبوب بندہ ہے۔ دنیا اس میں کمزوریاں دیکھتی ہے اور وہ علام الغيوب اس مقام کو دیکھ رہا ہے کہ جہاں وہ ایک وقت میں اپنے خون اور جان کو فدا کر کے پہنچنے والا ہے اور جو شخص اس طرح پر اپنی قربانیوں اور مقبول مجاہدات کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت پانے والا ہے آج میرا اور تمہارا یہ حق نہیں ہے کہ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں ۔ پس نئے آنے والوں سے محبت اور ملائمت اور پیار کا سلوک کرو۔ جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اس حکم کو اچھی طرح نہیں سمجھتا جو شعائر اللہ کی عظمت اور احترام کے لیے دیا گیا ہے۔   (خطبہ جمعہ 26 دسمبر  1969ء۔ خطباتِ ناصر جلد دوم، صفحہ 1027)

نومبائعین کو بجٹ میں ضرور شامل کریں

چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک فعال اور زندہ جماعت پیدا ہو چکی ہے اس لیے جو لوگ نئے نئے آ کر اس میں شامل ہوتے ہیں ان پر پرانے مخلصین کو بعض دفعہ غصہ آتا ہے کہ یہ لوگ چندہ کم کیوں دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی اپنی حالت یا ان کے باپ اور دادا کی حالت یہ تھی کہ چونی خرچ کر کے قیامت تک کی زندگی حاصل کر لی ۔ ٹھیک ہے کہ ہم آپ علیہ السلام کے فیض اور آپ کے خلفاء کی روحانی برکات کے نتیجہ میں زیادہ چست ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیوں کے لیے زیادہ ہمت دیتا چلا جاتا ہے لیکن ہماری ابتدا تو دونی اور چونی سے ہوئی تھی نا!  اسی طرح جو نئے آنے والے ہیں انھیں بھی تو تربیت حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت دینا چاہیے اور ان کے متعلق غصہ کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ایسے ماحول سے نکل کر آئے ہیں جس میں خدا کے نام پر ایک دھیلا دینا بھی موت سمجھا جاتا تھا۔ اور ایسے نئے ماحول میں داخل ہوئے ہیں جس میں دنیا کی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور خدا اور رسول ﷺ کے نام پر سب کچھ قربان کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان کو تر بیت پاتے ہوئے کچھ وقت لگے گا۔
آپ ان کا نام بجٹ میں شامل نہ کر کے انھیں تربیت سے محروم کرتے ہیں۔ اگر بجٹ میں ان کا نام آجائے تو ہمیں علم ہے کہ یہ نئے دوست ہیں۔ اگر وہ اب چونی بھی دے دیں تو ٹھیک ہے لیکن وہ آئندہ سال بغیر کسی کوشش اور زیادہ دباؤ کے اپنے اندر ایک نیا احساس پائیں گے کیونکہ وہ سال بھر دیکھیں گے کہ مسجد میں جو شخص ان کے دائیں کھڑا ہوتا ہے وہ موصی ہے اور اپنی آمد کا دس فیصدی ادا کرتا ہے اور وقف جدید اور دوسری تحریکوں میں بھی حصہ لیتا ہے اور بائیں بھی ایسے ہی لوگ کھڑے ہیں ۔ آخر خودبخود ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے کیوں پیچھے رہیں۔اس طرح اللہ تعالیٰ ان پر فضل فرمائے گا اور خود بخود ان کے دل میں قربانی کے لیے جوش پیدا ہوتا جائے گا۔
پس جب آپ ایسے لوگوں کو بجٹ میں شامل ہی نہیں کرتے تو وہ تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں، کیونکہ آپ انھیں چندہ کی تحریک ہی نہیں کرتے۔ اگر چہ اور بھی بہت سی تربیتی سکیمیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے ہیں لیکن چندہ بھی ایک اہم سکیم ہے کیونکہ ہر ماہ محصل چندہ کی وصولی کے لیے لوگوں کے پاس جاتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ چندہ دو۔ جب کسی کا نام بجٹ میں شامل ہی نہ کیا جائے گا تو اسے تحریک کیسے کی جائے گی؟
اسی طرح اس نے تو آپ کے ماحول میں جو اس کے لیے اجنبی تھا خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر چھلانگ لگا دی لیکن اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو یقیناً وہ تربیت حاصل نہ کرسکے گا اور آخر پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ بڑا ظلم ہوگا ایسے انسان پر ۔
پھر میں سمجھتا ہوں کہ ریسرچ کے لیے بھی یہ ایک بڑا دلچسپ مضمون ہو گا کہ مثلاً زید ۱۹۶۶ء میں احمدی ہوتا ہے۔ اسے قاعدہ کے لحاظ سے پچاس روپے چندہ دینا چاہیے لیکن وہ کہتا ہے کہ میں صرف ایک روپیہ دوں گا۔ ہم اسے کہتے ہیں ٹھیک ہے تم ایک روپیہ ہی دو کیونکہ اس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی، لیکن وہ ہمارے ماحول میں رہتے ہوئے اس ایک روپیہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسرے سال وہ ایک روپیہ سے بڑھا کر پانچ، دس پندرہ اور بیسں روپیہ کر دے گا اور آخر پچاس روپے کی بجائے وہ ساٹھ روپے ادا کرنے لگے گا اور دو تین سال تک جب اس کی تربیت پختہ ہو جائے گی تو وہ کسی صورت میں آپ سے پیچھے رہنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کی غیرت یہ تقاضا کرے گی کہ وہ دوسرے ساتھیوں سے آگے بڑھ جائے۔ کیونکہ اسے احساس ہو گا کہ میرے ساتھی تو گذشتہ بیسں سال سے قربانیاں کر رہے ہیں اور میں وہ بد قسمت انسان ہوں کہ اس بیسں سال کے عرصہ میں میں ان کی مخالفت کرتا رہا ہوں۔ اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر صداقت کھول دی ہے مجھے پچھلے دھونے بھی دھونے ہیں۔ اس طرح وہ آگے بڑھنے والوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا۔ ایسی کئی مثالیں ہماری اسلامی تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ پس بجٹ پورا بنا ئیں اور اس وہم ، خوف اور خطرہ کی بنا پر کہ اگر آپ نے صحیح بجٹ بنایا تو شاید آپ کی گرانٹ میں کمی ہو جائے اپنے کمزور یا نئے احمدیوں پر ظلم نہ ڈھائیں۔ ….ہم ان کے لیے دعا ئیں بھی کریں گے اور تدابیر سے بھی انھیں سمجھانے کی کوشش کریں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہمارا رب آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں ایک نیک تبدیلی پیدا کرتا چلا جائے گا اور وہ پہلے آنے والوں کی نسبت پیچھے رہنے والے نہیں بنیں گے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد شاید وہ ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دیں۔ (خطبات ناصر جلد 01 صفحہ 231-232۔ خطبہ جمعہ 22  اپریل 1966ء)

نومبائعین ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں

خدا تعالیٰ سے یہ دعا بھی کریں ۔ ….کہ اب ملک ملک کے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ وہ ہزار ہا میل دور ہیں چار ہزار میل دور، پانچ ہزار میل دور، دس ہزار میل دور۔ تربیت کے مواقع ان کے لیے کم ہیں۔ ایک ایمان کا جذبہ ہے، ایک محبت ہے جو ان کے اندر موجود ہے۔ لیکن ہر جذ بہ اپنی نشوونما کے لیے کچھ تدبیر مانگتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے لیے کچھ کیا جائے۔ اس چیز کی کمی ہے۔ خدا تعالیٰ ان کے لیے ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے لیے اسوہ ٔمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بنیں اور اس طرح پر وہ لوگوں کی توجہ اُس حسن اور اس احسان کی طرف کھینچنے والے ہوں جس حسن اور احسان نے حقیقتًا نوعِ انسانی کے دل کو اپنی طرف کھینچ کر ایک انقلابِ عظیم بپا کرنا ہے، وہ حسن اور وہ احسان جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن واحسان ہے کہ جس سے بڑھ کر کہیں اور نوعِ انسان میں آدم سے لے کر آج تک ہمیں نظر نہیں آیا۔ پس وہ لوگ بھی بہت دعاؤں کے مستحق ہیں۔ ان لوگوں کی بڑی قربانی ہے۔ ان کا اپنا ایک ماحول ہے، وہ گندہ ہے، خراب ہے، جو کچھ بھی ہے، لیکن وہ اس ماحول کی پیداوار ہیں۔ اس میں سے وہ نکلے ہیں اور وہاں سے اُنھوں نے اپنے قد اُٹھائے ہیں، لیکن خدا اور رسول کی خاطر انھوں نے اس ماحول کو چھوڑا ہے۔ ایک جذبہ کے ساتھ ایک ایمان کے ساتھ اُنھوں نے اپنے اس گندے ماحول کو چھوڑا ہے۔ خدا کرے کہ ان کو تربیت کے ایسے سامان مل جائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں اور خدا کی نگاہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں شامل ہونے والے ہو جائیں۔ وہ لوگ بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔ (خطبات ناصر جلد6  صفحہ 488۔ خطبہ جمعہ 16 جولائی 1976ء)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

نومبائعین کی تربیت سے غفلت کی وجہ سے درپیش خطرات

جہاں کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو خوشخبریاں مل رہی ہیں اور فوج درفوج بعض علاقوں میں لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں، وہاں اس کے ساتھ ہی ایک انذار کا پہلو بھی ہے اور وہ انذار کا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم ان کی تربیت سے غافل رہے، یہ احمدیت میں داخل ہوئے اور ویسے کے ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے یا ان کے ایمان کے استحکام کا انتظام نہ کیا اور ان کو ثابت قدم رکھنے کے لیے دعا ئیں نہ کیں، ان کی تربیت اس رنگ میں نہ کی کہ ان کی بدیاں مٹنی شروع ہوجائیں اور ان کے بدلے نیکی کے رنگ چڑھنے شروع ہو جائیں تو یہ سارے جو نومبائع ہیں یا جو احمدیت میں اور اسلام میں نئے داخل ہوئے ہیں یہ خطرے کی حالت میں ہیں۔
کئی قسم کے خطرے ان کو درپیش ہیں اول یہ کہ ایمان کے بعد اگر کچھ عرصہ انسان علم اور تربیت سے محروم رہے تو اسی حالت میں وہ پختہ ہو جایا کرتا ہے۔ پھر اس کو سمجھانے اور اس کی تربیت کرنے کے مواقع کم رہتے ہیں اور اگر آپ سمجھانے کی کوشش بھی کریں تو وہ شخص جو تازہ ایمان لایا ہو اس کے سمجھنے اور اس کے تعاون کرنے کے نفسیاتی طور پر زیادہ امکانات ہیں اور جو اس حالت میں دیر تک آکر سرد ہو چکا ہو اس کے تعاون کرنے کے امکانات بعید ہیں، اس لیے کہ نئے آنے والے کی حالت ایک بچے کی سی ہوتی ہے۔….
پس یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے جو جماعت کے اوپر ڈالی گئی ہے اور کثرت کے ساتھ لوگوں کا فوج در فوج داخل ہونا ہمیں انتباہ بھی کر رہا ہے کہ اگر تم نے بروقت ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو تمہارے لیے اور آئندہ بنی نوع انسان کے لیے خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ عدم تربیت یافتہ اور رنگ میں بھی دنیا کے لیے خطرات کا موجب بن جاتے ہیں کیونکہ وہ عقائد کے لحاظ سے بعض دفعہ نئی نئی باتیں گھڑ لیا کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام کی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں تو بہت سے بدعقائد جو آج مسلمانوں میں رائج دکھائی دیتے ہیں وہ باہر سے آنے والی قوموں کی پیداوار تھے۔ بہت سے فرقوں کی بنیاد اسی طرح ڈالی گئی۔ (خطبات طاہر جلد  9 صفحہ256-  257۔ خطبہ جمعہ 11مئی 1990ء)

تربیت نومبائعین کے لیے وقف عارضی کے نظام کو دوبارہ زندہ کریں

احمدی ہونے والوں کا جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ وہ اخلاص میں ترقی کریں بھی اس کے باوجود ان کے اندر علمی خلا دکھائی دیں گے اور جماعت کے عقائد کے لحاظ سے ان کی گہرائی میں اترنے کے لیے ان کو ابھی کئی سفر کرنے ہیں۔ ….آج کل خدا کے فضل سے کثرت سے تبلیغ ہو رہی ہے اور جوق در جوق بعض جگہ لوگ اسلام یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان سب جگہوں میں وقف عارضی کے نظام کو دوبارہ زندہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ ….خدام اور انصار اور لجنات قرآن کریم سکھانے اور نمازیں سکھانے کے اپنے پروگرام میں اس مضمون کو پیشِ نظر رکھیں اور وہ بھی ایک تربیتی اور تعلیمی نظام جاری کر دیں جو سارا سال کام کرتا رہے۔ اس طریق پر جب ہم کام کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ جس کثرت کے ساتھ دنیا میں اسلام پھیلے گا اسی رفتار کے ساتھ ساتھ اسلام کا روحانی نظام مستحکم ہوتا چلا جائے گا اور جو شخص بھی اسلام میں داخل ہوگا وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامل طور پر ایک ایسے نظام کا حصہ بن جائے گا جو اس کو سنبھالنے والا ہوگا اور نئے آنے والوں کو سنبھالنے والا ہوگا۔ ان کی ذہنی اور علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہوگا۔ ان کی اخلاقی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہوگا اور وہ ایک ٹھوس مستقل نظام کا جزو بن کر ایک عظیم قافلے کے طور پر شاہراہِ اسلام پر آگے بڑھنے والے ہوں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ داخل ہوئے۔ رپورٹوں میں ذکر آگیا ۔ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہو گئے اور پھر دو سال چار سال کے بعد نظر ڈال کے دیکھی تو پتا چلا کہ وہ سارے علاقے آہستہ آہستہ عدم تربیت کا شکار ہو کر واپس اپنے اپنے مقام پر چلے گئے ہیں۔
(خطبات طاہر جلد  9 صفحہ 262-  265۔ خطبہ جمعہ 11مئی 1990ء)

تبلیغ کرنے والا نومبائعین سے مستقل رابطہ رکھ کر ان کی تربیت کرے

پس ایمان لانے کے ساتھ ہی سب برائیاں دور نہیں ہو جایا کرتیں اور یہ خصوصاً ان مسلمانوں کو یا درکھنا چاہیے جو دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں محض تبلیغ کے ذریعے کسی کو مسلمان بنالینا اور یہ سمجھ لینا کہ فرض ادا ہو گیا ہرگز کافی نہیں کیونکہ بہت سے ایسے ایمان لانے والے ہوں گے جو بچے دل سے توبہ بھی کر چکے ہوں گے لیکن اپنی بہت سی بدیاں ساتھ لے کر آئیں گے جن سے چھٹکارا پانا ان کے بس میں نہیں۔ اگر ان کی طرف توجہ نہ کی گئی ، اگر تبلیغ کرنے والا ان سے مستقل تعلق رکھ کے ان کی برائیاں دور کرنے میں ان کی مدد نہیں کرتا تو ایسے ہی ہوگا جیسے بعض بچے وبائی امراض کا شکار ہوتے ہیں اور مائیں ان کو جگہ جگہ لیے پھرتی ہیں، اتنا نہیں سوچتیں کہ مجالس میں لے کے جائیں گی تو اور بھی بیماریاں پھیلائیں گی کئی مائیں میرے پاس بھی لے آتی ہیں جب میں پیار کرتا ہوں تو بتاتی ہیں کہ اس کو تو فلاں وبائی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا ہے وہ الگ بات ہے لیکن جو مضمون ہے اس کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ لِأُولِي الْأَلْبَابِ اقرار کرتے ہیں کہ محض ایمان لانے کے نتیجے میں ہم پاک وصاف نہیں ہو گئے، ہمارے گناہ بخشے بھی جا چکے ہوں تب بھی ہمارے اندر برائیاں موجود رہیں گی اور تیری مدد کے سوا وہ برائیاں دور نہیں ہو سکتیں ۔ پس مومنوں کو نو مبایعین کی فکر کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ لگ کر ان کی کمزوریاں دور کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہئے ورنہ اسی طرح کھلے چھوڑ دیے گئے تو باقی جماعت میں بھی وہ اپنی بیماریاں پھیلاتے رہیں گے۔   (خطبات طاہر جلد 10صفحہ332- خطبہ جمعہ 19 اپریل 1991ء)

پہلے تین مہینے تربیت پر خاص زور دیں

پہلے تین مہینے تربیت پر خاص زور دیں۔ یعنی جو نئے آنے والے ہیں ان کو سنبھالیں، ان کو تعلیم دیں، ان کی تربیت کریں، ان کو اعلیٰ اخلاق کے مضامین سمجھائیں اور ان پر عمل پیرا کرنے میں ان کی مدد کریں۔ ….جو پھل اللہ تعالیٰ عطا فرما رہا ہے اسے سنبھالیں۔ جو بھی احمدی ہوتا ہے امیر کا کام ہے کہ جائزہ لے کہ وہ کسی کے سپرد ہؤا بھی ہے کہ نہیں؟ کوئی اس سے مستقل تعلق رکھ بھی رہا ہے کہ نہیں؟ کوئی نظر ڈال بھی رہا ہے کہ نہیں کہ احمدی ہونے کے بعد کہیں کھسکنا تو نہیں شروع ہو گیا؟ یعنی غیروں کے اثر اور ان کے دباؤ کے نیچے یا معاشرے کی دوسری کشش کے نتیجے میں اس نے آہستہ آہستہ واپسی کا سفر تو نہیں کر لیا؟ یہ ہو جایا کرتا ہے مگر آپ کو اس ضمن میں ہوشیار ہونا پڑے گا۔ اگر نگرانی رکھیں اور ہوشیار رہیں، ہر نئے احمدی پر نظر ہو، پتا ہو کہ کوئی پیار کرنے والا، کوئی محبت کرنے والا، کوئی اچھی نصیحت کرنے والا، کوئی نیک اعمال والا شخص یا خاندان ان کی نگرانی کر رہا ہے، ان کو جذب کر رہا ہے تو پھر یہ اطمینان ہوگا کہ ہاں یہ کام صحیح خطوط پر چل پڑا ہے لیکن جس کثرت سے خدا کے فضل سے احمدی ہو رہے ہیں اسی کثرت سے جو تربیت کے تقاضے ہیں میں سمجھتا ہوں اس میں ابھی کمی ہے۔ (خطبات طاہر جلد 12 صفحہ720- 721۔  خطبہ جمعہ 17 ستمبر 1993ء)

نومبائعین کو سنبھالنے کی ایک ترکیب

ان (نومبائعین) کو سنبھالنے کی ایک ترکیب یہ ہے کہ ان کو مبلغ بنادیں۔ جس طرح آپ جب دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں تو آپ کا نفس آپ کو نصیحت کرتا ہے، اسی طرح جو نیا ایمان لانے والا ہے جب وہ دوسرے ساتھیوں کو ایمان کا پیغام پہنچاتا ہے تو وہی پیغام اس کے اندر بھی مل رہا ہوتا ہے، وہ اس کو پہلے سے بڑھ کر تقویت دے رہا ہوتا ہے۔ جب غیر اس کے مقابل پر دلائل لاتا ہے تو وہ خود ڈھونڈتا ہے کہ جو مذہب میں نے اختیار کیا ہے اس کی تائید میں دلائل کیا ہیں اور اس طرح اس کا نفس تربیت شروع کر دیتا ہے۔ بارہا میں نے آپ کو توجہ دلائی ہے کہ باہر کا مربی بھی اچھا ہے لیکن جب نفس کے اندر مر بی پیدا ہو جائے تو اس کی کوئی مثال نہیں۔ (خطبات طاہر جلد 12 صفحہ721- 722۔  خطبہ جمعہ 17 ستمبر 1993ء)

نومبائعین کے تربیت کے لیے الگ شعبے کے قیام کی ضرورت

نظام جماعت میں نئے آنے والوں کی تربیت کے لیے ایک الگ شعبہ اس رنگ کا قائم ہو جائے جو پہلے نہیں تھا۔ اصلاح وارشاد تو ہے، تربیت کے سیکرٹری بھی ہیں ، تربیت کے مختلف عہدے موجود ہیں، لیکن میں جس بات کا ذکر کر رہا ہوں وہ خصوصیت سے نو مبائعین کے حوالے سے کر رہا ہوں اور اس پہلو سے ہمیں اب مستقلاً ایسے شعبے کے قیام کی ضرورت ہے اور اعلیٰ پیمانے پر اس نظام کو جاری کرنا ضروری ہے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ اب ہماری تبلیغی کوششوں کو کثرت سے پھل لگنے والے ہیں ۔ …. انہیں سنبھالنے کی تیاری کرنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ یہ لوگ خود بھی نقصان اٹھائیں گے جو بغیر تربیت کے پڑے رہیں گے اور آپ کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور آپ کے اندر بھی غلط رسمیں جاری کریں گے، اسلام سے ہٹی ہوئی عادات اپنے ساتھ لے کر آئیں گے اور کئی قسم کی بدیاں ہیں جو ان کے ساتھ داخل ہو جائیں گی۔ اس لیے لازم ہے کہ نئے آنے والوں کو پہلے Quarantine میں رکھا جائے، ان کی تربیت کی جائے، ان کے جراثیم دھوئے جائیں، ان کو ہر قسم کے گند سے صاف کیا جائے اور پاک صالح وجود بنا کر نظام جماعت کا حصہ بنایا جائے۔ (خطبات طاہر جلد 12  صفحہ 829۔ خطبہ جمعہ 29  ا کتوبر 1993ء)

نومبائعین کے ساتھ ذکر کی مجلسیں لگائیں

دعوت الی اللہ کا اگر صرف یہی مقصد ہو اگر احمدیوں کی تعداد بڑھے تو یہ تو ایک لغو اور بے معنی مقصد ہے۔ اللہ سے محبت کرنے والوں کی تعداد بڑھانا مقصد ہے۔ خدا کا ذکر کرنے والوں کی تعداد بڑھانی ہے۔ پس اگر بھرتی کر کے آپ ایک طرف پھینکتے چلے جائیں ان کو تو کیا فرق پڑتا ہے، خدا کے بندوں کی دنیا تو اربوں تک ہے۔ چند آدمی ہم نے اپنی جماعت میں مزید داخل کر لیے تو کیا فرق پڑے گا۔ وہ آدمی بنا ئیں جن کے آنے سے، جن کے ذکر سے زمین سے آسمان تک فرشتوں سے بھر جائیں اور فرشتے ان پر سایہ کریں اور جوان کے ساتھ بیٹھے اس کے بھی مقدر جاگ جائیں۔ خواہ وہ چلنے پھرنے والا مسافر ہی کیوں نہ ہو۔ جس کے پاس وہ بیٹھیں اس کے نصیب جگا دیں اور یہ ذکر الہی سے ممکن ہے کیونکہ یہ مضمون ذکر الہی کے تعلق میں بیان ہوا۔ پس جن لوگوں کو آپ احمدی بناتے ہیں۔ ان کے ساتھ ذکر کی مجلسیں لگائیں۔ (خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 976۔خطبہ جمعہ17دسمبر 1993ء)

نومبائعین کی کثرت کے وقت آنحضرت ﷺ کی دعا

نئے آنے والے  جب زیادہ ہوں تو جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا آنحضرت ﷺ کا دستور تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصیحت کے پیش نظر یہ دعا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِی پس اس دعا میں نئے شامل ہونے والوں کو بھی یاد رکھیں ، اپنے آپ کو بھی یاد رکھیں ، ان جماعتوں کو یاد رکھیں جن پر نئی ذمہ داریاں عائد ہو رہی ہیں۔ (خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 307۔  خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء)

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

================================

(قسط چہارم۔ مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری 2025ء)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

نو مبائعین کو فوری طور پر چندوں میں داخل کرنا نہایت ضروری ہے

میرے نزدیک نو مبائعین کو فوری طور پر چندوں میں داخل کرنا نہایت ضروری ہے۔ ….میں نے بڑے غور سے مطالعہ کر کے دیکھا ہے کہ جو بیعت کرنے والے شروع میں ایک دو سال بغیر قربانی کے رہ جائیں ساری عمر وہ درخت سوکھا ہی رہتا ہے اور جو شروع میں شروع کر دیں وہ پھر بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں۔ ….جہاں جہاں سے بھی قو میں احمدیت میں داخل ہو رہی ہیں ان کے نگرانی کرنے والوں میں سے ہر ایک کو میں تاکید کرتا ہوں کہ ان آنے والوں کو روزمرہ کچھ قربانی کی عادت ڈالیں اور جن کو عادت پڑ جائے گی ان کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں تھمایا جائے گا۔ خدا ایسے ہاتھ سے ان کو رزق دے گا جس میں آپ کے ہاتھ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ پھر ان کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہو جاتا ہے۔ (خطبات طاہر جلد 13 صفحہ850- 853۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء)

نومبائعین ایک پیسہ دیں تو وہ بھی قبول کرلیں

تحریک جدید کے تعلق میں میں یہ گزارش کروں گا کہ تحریک جدید کا جو کم سے کم معیار ہے ان نئے آنے والوں کی سہولت کے پیش نظر اور قرآن کی اصولی تعلیم کے پیش نظر اس معیار کو نظر انداز کر دیں۔ کوئی پیسہ دے تو پیسہ قبول کر لیں، آ نہ دے تو آ نہ قبول کر لیں، لیکن ان کو بتا دیں کہ تم ایک عظیم عالمگیر جہاد میں حصہ لے رہے ہو جس کے یہ پھل ہیں سب جو ہم آج کھا رہے ہیں۔ کثرت کے ساتھ دنیا میں جو جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور عظیم الشان ترقیات ہو رہی ہیں ان کے پیچھے آغاز میں کچھ خاموش قربانی کرنے والے تھے جنھوں نے تحریکِ جدید کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیں، اپنی جانیں لٹا دیں، دن رات کے آرام کھو دیے۔ (خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 853۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء)

نئے آنے والوں کی عموماً استطاعت کم ہوتی ہے اس لیے اُن کی تالیف کا حکم ہے

اب وقت ہے کہ نو مبائعین جس تعداد سے بڑھ رہے ہیں اسی تعداد سے چندہ دہندگان بھی بڑھیں ۔ پس ان کو مستقل چندے میں بھی سولھویں حصے کی نسبت سے نہیں بلکہ حسبِ توفیق اور یہ مضمون بھی مَا اسْتَطَعْتُمْ سے مجھے ملا ہے۔ فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، جتنی استطاعت ہے تو نئے آنے والوں کی استطاعت کچھ کم ہوتی ہے۔ بعض دفعہ بہت بڑھ جاتی ہے، ایسے بھی آئے ہیں جنھوں نے آتے ہی فوراً قربانیوں میں حصہ لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ہم برابر کا حصہ لیں گے، لیکن عموماً یہی دیکھا گیا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ کیوں کہتا کہ تالیف کی خاطر ان پر خرچ بھی کرو۔ یعنی آغاز میں یہ حال ہوتا ہے بعض دفعہ آنے والوں کا کہ ان کی دلداری کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جلسوں پر بلاتے ہیں تو کرایہ دے کر بلاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ وہ چندے لے کر اپنے جیب خرچ پر چندے دینے کے لیے آتے ہیں، مگر آغاز میں کچھ قربانی لازم ہے۔ اگر بغیر قربانی کے اسی حال پہ وہ ٹھنڈے ہو گئے تو پھر آپ کے لیے ان کو قربانی کے مزے دینا مشکل ہو جائے گا، ان کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ قربانی کا مزہ ہے کیا۔ پس ان کو بھی وقفِ جدید میں شامل کریں۔
(خطبات طاہر جلد 14 صفحہ17۔ خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء)

رمضان اور تربیت نومبائعین

لکھوکھا کی تعداد میں لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں اور ہر قوم سے، ہر مذہب سے، ہر زبان بولنے والوں میں سے آ رہے ہیں تو ان کو آپ کیا سمجھائیں گے؟ کیسے کیسے ان کی طرف تو جہات کا حق ادا کریں گے؟ ایک ہی طریقہ ہے کہ خدا کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ تھما دیں اور رمضان مبارک میں یہ کام ہر دوسرے دور سے زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ان کو روزے رکھنے کی تلقین کریں، روزے رکھنے کے سلیقے سکھائیں، ان کو بتائیں کہ اس طرح دعائیں کرو اور اللہ دعاؤں کو سنتا ہے لیکن اس (خدا)سے عہد باندھو کہ تم اس کو چھوڑو گے نہیں ۔ اصل مقصد مذہب کا خدا سے ملانا ہے۔ اگر کوئی مذہب باتیں سکھا جاتا ہے اور قیدوں میں مبتلا کر جاتا ہے مگر خدا کا قیدی نہیں بناتا تو ایسے مذہب کا کیا فائدہ۔ جتنے زیادہ بندھن ہوں اتنا ہی وہ مذہب مصیبت بن جاتا ہے لیکن اگر وہ بندھن خدا کی محبت کے بندھن ہوں تو پھر وہ مصیبت نہیں وہ رحمت ہی رحمت ہے۔ وہ عشق کے بندھن ہونے چاہئیں۔ پس ہر وہ شریعت جس پر عمل ظاہری ہو وہ ایسی غلامی کے بندھن ہیں جن کے ساتھ اللہ کی محبت کا تعلق نہیں ہے۔ ایسے لوگ ظواہر پرست ہو جاتے ہیں، ظاہری چیزوں کے غلام ہو جاتے ہیں ان کی شریعت ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاتی ۔ کورے کے کورے سخت دل کے سخت دل ، انسانیت کی اعلی قدروں سے عاری اس دنیا سے گزر جاتے ہیں، کچھ بھی فائدہ ان کو نہیں ہوتا۔ لیکن وہ بندھن اگر خدا کی محبت کے بندھن میں تبدیل ہوں اور اس وجہ سے ہوں (کہ) اللہ کی خاطر ایک انسان اپنے آپ کو پابند کر رہا ہے اور اس کی محبت کی خاطر کر رہا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ پھر وہ عبد بنتا ہے، پھر وہ غلام ہوتا ہے ورنہ روزمرہ کی ٹکسالی کے طور پر کام کرنے والے کہاں غلام ہوتے ہیں۔
پس اس معنے میں ان کی تربیت کریں ، ان کو سمجھائیں اور پھر چھوٹے موٹے روزمرہ کے رمضان کے آداب بھی تو بتائیں ۔ روزے کیسے رکھے جاتے ہیں؟ کیوں رکھے جاتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے اس سلسلے میں جو نصیحتیں فرمائیں ان سے کچھ ان کو آگاہ کریں تو رفتہ رفتہ ان کی تربیت ہوگی اور اگر ان کو یہ تجربہ رمضان میں ہو گیا کہ ان کو لیلتہ القدر نصیب ہوگئی، یعنی وہ رات آئی ہے جو رات کہلاتی ہے مگر سب سے زیادہ منور ہے اور سب سے زیادہ دائمی روشنیاں پیچھے چھوڑ جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہو سکتا ہے وہ آپ کو سنبھالنے والے بن جائیں۔ آپ کو ان کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسے لوگ میں نے دیکھے ہیں جب ان کی احمدیت میں ان میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے وہ ہر ابتلا سے اوپر نکل جاتے ہیں، کوئی ٹھو کر ان کے لیے ٹھو کر نہیں رہتی۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ دیکھو جی فلاں یوں کر رہا ہے۔ انھوں نے ہمیں احمدیت دی، اپنا یہ حال ہے ۔ وہ اپنے آپ کو خدا کا ان سے بہتر نمائندہ سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی فکر کرتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، ان کو سمجھاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جن کی آج ہمیں ضرورت ہے دنیا کو سنبھالنے کے لیے۔ اگر ایسے ہی رہنے دیا گیا کہ ہر وقت آپ ہی نے ان کو سنبھالے رکھنا ہے تو آپ کی طاقت میں تو یہ سنبھالنا بھی نہیں انہوں نے پھر آگے دنیا کو کیا سنبھالنا ہے، اس لیے رمضان سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ (خطبات طاہر جلد 14صفحہ89-90۔خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء)

ابتلاؤں میں صبر کرنے والے نومبائعین دوسروں کی ہدایت کا سبب بنتے ہیں

ہر نیا آنے والا جو اللہ کی آواز پر لبیک کہتا ہے وہ لازماً ایک ابتلا کے دور سے گزارا جاتا ہے اور خدا کی تقدیر یہی ہے کہ دعوت الی اللہ کے ساتھ ابتلا بھی پھیلتے چلے جائیں اور دعوت الی اللہ کے نتیجے میں آنے والوں کو بعض دفعہ اپنے سامنے آگ دکھائی دے۔ اس آگ میں سے گزریں تو پھر وہ جنت تک پہنچ سکتے ہیں۔ ….نئے آنے والے جب تکلیفوں اور مصیبتوں میں سے گزریں تو لوگوں سے رحم نہ مانگا کریں بلکہ جس کو رب بنایا تھا، جس کی خاطر ایمان لائے اسی سے رحم طلب کیا کریں۔ ….ایسے نئے بیعت کرنے والے کثرت سے دوسروں کی بیعت کرواتے ہیں اور اپنے سارے ماحول کو تبدیل کر دیا کرتے ہیں اور اس کی بھی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ شروع میں تکلیفیں اٹھائیں ، ثابت قدم رہے مگر کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دن بدلنے شروع کیے۔
ابھی دو دن پہلے ایک خط اسی موضوع پر ملا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک نوجوان نے جب بیعت کی ہے تو اس کو مارا کوٹا گیا، پہلے گھر میں بند رکھا ،پھر جب وہ بالآخر رِہائی پا کر باہر نکلا تو ہر قسم کی مصیبتیں اس نے برداشت کیں، مزدوریاں کیں لیکن اپنے پاؤں پر کھڑا رہا۔ بالآخر اس کی ماں کا دل پسیجا، اس نے واپس بلایا اور جب دیکھا کہ اس کی کایا پلٹی ہوئی ہے، یہ تو پانچ وقت کا نمازی بن گیا ہے، تہجد گزار ہے تو اس نے اپنے باقی بچوں کو بھی سمجھایا کہ تم کیا کر رہے ہو، کس کی دشمنی کر رہے ہو، یہ تو پہلے سے بہت بہتر ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر سارے گھر کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ (خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 548۔ خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء)

نومبائعین کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ان پر کام کے بوجھ ڈالیں

مجھے تو بس یہی ایک فکر لگا رہتا ہے کہ ان آنے والے مہمانوں کو سنبھالیں کیسے، کس طرح ان کی عزت افزائی بھی کریں اور ان کو اپنی ذمہ داریاں بھی سمجھائیں تا کہ یہ ہمارے ساتھ Dead weight کے طور پر نہ چلیں بلکہ بوجھ اٹھانے والے ساتھی بن جائیں کیونکہ جتنی آئندہ رفتار میں ترقی دکھائی دے رہی ہے اس رفتار کے ساتھ ہمیں بہت کارکنوں کی ضرورت ہے جو ان کو سنبھالیں ، ان کو ساتھ لے کر چلیں اور نئے آنے والوں میں سے ہمیں لازما وہ تیار کرنے ہوں گے۔ اس وجہ سے میں بہت دیر سے زور دے رہا ہوں کہ اگر آپ نئے آنے والوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ان پر کام کے بوجھ ڈالیں۔ میرا لمبا تجربہ ہے کہ جماعت احمد یہ میں جو پیدائشی احمدی بھی ہوں جب تک ان پر کام کے بوجھ نہ ڈالے جائیں وہ چمکتے نہیں۔ ان کی صلاحیتیں خوابیدہ رہتی ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کنارے کے احمدی ہیں۔ ان سے بھلا کیا کام لیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب فطرت رکھی ہے کہ مومن پر جب بوجھ ڈالا جاتا ہے تو اَور ترقی کرتا ہے۔ (خطباتِ طاہر جلد 14 صفحہ 702۔ خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء)

نومبائعین کے لیے اجتماعی منصوبہ بندی کی ضرورت

نو مبائعین کا اب سلسلہ ایسا بڑھ چکا ہے کہ ان کے لئے ہمیں وسیع تر انتظامات کرنے ہوں گے۔ اب انفرادی کوشش پر ان کو چھوڑ انہیں جاسکتا۔ اگر اتفاقات پر ان کو چھوڑ دیں گے، انفرادی کوشش پر چھوڑ دیں گے تو ایک بھاری تعداد ان میں سے ایسی رہ جائے گی جن کو پوچھنے والا، دیکھنے والا کوئی نہیں رہے گا اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جو تالیفِ قلب کی ہدایت دیتا ہے، مؤلّفة القلوب بیان کرتا ہے ان لوگوں کو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ابتدائی دور میں اگر محبت پالیں تو ہمیشہ کے لیے آپ کے ہو جائیں گے۔ اگر ابتدائی دور میں ان سے سرد مہری کا سلوک ہو اور ان کا کوئی نہ ہو جو انھیں اپنا سکے اور سینے سے لگا سکے تو بعید نہیں ہوتا کہ یہ لوگ آہستہ آہستہ سرک یا پیچھے ہٹ جائیں یا اپنی ایک بے عملی کی سی حالت میں ٹھنڈے پڑ جائیں اور جیسے لوہا گرم ہو تو اس وقت اسے شکلیں عطا کی جاتی ہیں اور ٹھنڈا ہو جائے تو وہ شکلیں قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ پس یہی دور ہے جبکہ آپ کی مہمان نوازی کا خلق ایک ایسے اجتماعی رنگ میں ان آنے والے مہمانوں کے دل جیتنے والا بنے جس کے ساتھ منصوبہ ضروری ہے۔ پس تمام جماعتوں کو اس پہلو سے منصوبہ بنانا چاہیے کہ کثرت سے آنے والے نئے احمدیوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے جسے جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان کے طور پر سر آنکھوں پر نہ لے اور جس کی خدمت ایک دلی جذبے سے نہ کرے۔ یہ کچھ دیر کی بات ہے۔ یہ مہمان وہ ہیں جو چند دنوں میں میزبان بننے والے ہیں۔ (خطباتِ طاہر جلد 15 صفحہ 678۔ خطبہ جمعہ 30 اگست 1996ء)

انفاق فی سبیل اللہ کی روح تعلق باللہ ہو

جماعتوں کو میں پھر دوبارہ یاد دہانی کرواتا ہوں کہ نو مبائعین کو ضرور شامل کریں خواہ معمولی رقم لے کر بھی ان کو شامل کریں۔ ایک دفعہ جس کو خدا کی راہ میں محبت سے کچھ پیش کرنے کی توفیق مل جائے پھر وہ چسکا پڑ جاتا ہے پھر وہ زندگی بھر اس کا وہ چسکا اتر تا نہیں ہے۔اس لئے بڑے بڑے بھاری بھاری چندے وصول نہ کریں۔ شروع میں جتنی توفیق ہے اتنا وصول کریں تا کہ وہ جو محبت کا مضمون ہے وہ قائم رہے، چٹی کا مضمون نہ آجائے۔ ایک دفعہ آپ نے نئے آنے والوں پر توفیق سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیا اور اصرار کیا کہ تم سولھواں حصہ ضرور دو اور فلاں میں اتنا دو اور فلاں چندے میں اتنا دو تو بعید نہیں کہ وہ چونکہ کمزور ہیں ان کی کمریں ٹوٹ جائیں اور ایمان میں بڑھنے کی بجائے وہ پہلے مقام سے بھی نیچے گر جائیں، اس لیے حکمت کے تقاضے پورے کریں ۔ خدا نے جو انفاق فی سبیل اللہ کی روح بیان فرمائی ہے کہ وہ تعلق باللہ ہونی چاہیے اور انسان اپنے شوق سے محبت کے طور پر پیش کرے۔ اس رو سے جتنا کوئی توفیق پاتا ہے اس توفیق کو مدنظر رکھ کر اس سے لیں ۔ لیکن کچھ نہ کچھ کی توفیق تو ہر ایک رکھتا ہے۔ اگر ایک معمولی رقم بھی وہ دے دے ، خوشی سے دے دے تو وہ بھی قبول کرلیں اور تعداد بڑھانے کی کوشش کریں۔ (خطبات طاہر جلد15 صفحہ17۔ خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996)

نومبائعین ہی میں سے ان کے معلم تیار کریں

نئےآنے والے کثرت سے آ رہے ہیں اور ان کی تربیت کے تقاضے پھیلتے جا رہے ہیں۔ ….وہ احمدیت تو قبول کر چکے ہیں لیکن ان کے سامنے وہ احمدیت کا عملی نمونہ موجود نہیں ہے جو دراصل اب ان کو سنبھالنے کے لیے ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم اس مسئلے کا کیا حل پیش فرماتا ہے؟ اس مسئلے کا حل قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ تم ان تک پہنچتے رہو گے تو یہ کافی نہیں ہوگا ۔ اب ان کا فرض ہے یا تمہارا فرض ہے کہ یہ انتظام کرو کہ وہ تم تک پہنچیں اور انہی میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں جو نیک اعمال کے نمونے دکھا سکیں اور پھر نیکی کی طرف بلا سکیں ۔ یہ وہ حیرت انگیز نظام ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے اور جہاں تک میرا مذہب کا مطالعہ ہے مجھے کہیں اور دکھائی نہیں دیا کہ باہر سے لوگ آئیں، وفود کی صورت میں آئیں تمہارے پاس ٹھہریں تربیت حاصل کریں اور پھر واپس اپنی قوم کی طرف جا کر ان کے سامنے وہ پختہ باتیں دکھائیں جن کی تائید ان کے عمل کر رہے ہوں۔ یہ وہ طریق ہے۔ ایک یہ طریق ہے جو آج جماعت احمدیہ کے کام آسکتا ہے۔ …. چونکہ یہ بھی اب ممکن نہیں رہا کہ ہر ملک کے مرکز میں تمام ایسے لوگوں یا قوموں کے نمائندوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاسکے جنہوں نے واپس جاکر پھر قرآن کے بیان کے مطابق یا قرآن کے سکھائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی اپنی قوم کی تربیت کرنی ہے۔ اب ہم نے یہ حل نکالا ہے کہ ہر علاقے میں ایک مرکز بنایا جائے اور وہ احمدیت کا مرکز ہو جہاں ہمہ وقت تربیت کے دور چلتے چلے جائیں۔ وہاں کچھ لوگ ایسے تربیت یافتہ بٹھا دیے جائیں جن کا کام ہی یہ ہو کہ لوگ باہر سے آئیں، ان کے پاس رہیں، پندرہ پندرہ دن، بیسں بیسں دن کے لیے۔ مہینہ دو مہینہ ٹھہر سکتے ہیں تو اور بھی بہتر ہے۔ ان کی رہائش کا انتظام ہو، ان کے کھانے کا انتظام ہو اور وہ تربیت حاصل کر کے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹیں ۔ (خطبات طاہر جلد 15 صفحہ450-452۔ خطبہ جمعہ 7 جون 1996ء)

تربیتی مراکز کا انتظام ہو

بہت بڑی بڑی جماعتیں ہیں جن سے ابھی تک ہمارا ڈش انٹینا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ …. ان سب جگہوں میں ایک تو میں نے یہ ہدایت کی کہ ڈش انٹیناز لگائے جائیں کثرت کے ساتھ اور مرکزی انتظام کے تابع روزانہ اس علاقے کے باشندے ایک جگہ اکٹھےہو سکیں۔ دوسرا یہ کہ وہاں ان کے لیے بڑی مساجد بننی چاہییں۔ ایسے مراکز بننے چاہییں جہاں ان کی تربیت کا انتظام ہواور انھی میں سے مبلغین بنائے جائیں اور پھر ان کو انھی علاقوں میں مستقل جگہوں پر مقرر کر دیا جائے۔ (خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 997۔ خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء)

نومبائعین کا خدا کی ذات میں سفر

اللہ کی ذات کا سفر اگر کوئی شخص شروع کر دے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی اور نظام کی اس کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ۔۔اگر نو مبائع خدا کی ذات میں سفر کے ارادے سے قدم اٹھائے اور داخل ہو کر اس سفر کے حالات پر نظر رکھے اور دیکھے کہ وہ کس حد تک خدا کا قرب اختیار کر رہا ہے تو پھر ایسے شخص کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بسا اوقات ایسے شخص دوسروں کو سنبھالتے ہیں۔ میں نے کئی نو مبائعین دیکھے ہیں جو جماعت کی کاہلی اور سستی کی وجہ سے ٹھو کر نہیں کھاتے بلکہ جماعت کو ٹھوکروں سے بچانے والے بن جاتے ہیں۔ وہ آگے بڑھتے ہیں، ان کو کہتے ہیں دیکھو! ہم نے تو پا لیا، تم نے پاکے کیوں کھویا ہوا ہے؟ تم سمجھتے ہو کہ تم نے پالیا مگر تم بالکل بے حاصل انسان ہو۔ دیکھو! ہم خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ میں آ کر کیسی ترقی کر رہے ہیں۔ یعنی ان معنوں میں نہ بھی کہیں تو ان کا ذہن کمزوروں کو سنبھالنے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور وہ جو پہلے نو مبائع تھے وہ مبائعین کی تربیت کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ (خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 629۔ خطبہ جمعہ 22 اگست 1997ء)

نومبائعین کے لیے تربیتی کلاسز کی ضرورت

قرآن کریم نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب کثرت سے قو میں اسلام میں داخل ہورہی ہوں گی تو اس وقت ان میں سے کچھ لوگ ضرور سفر کر کے مدینے پہنچیں اور وہاں تربیت حاصل کریں اور پھر واپس اپنی قوم میں پھیل جائیں اور وہاں جا کر وہی تربیت کی باتیں آگے کریں۔ اس قرآنی تعلیم میں بہت گہری حکمت ہے۔ میں سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ کس طرح اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ساری دنیا کا معلم بنا کر ساری دنیا کو رام کرنے کا طریقہ بھی ساتھ ہی سکھا دیا۔ جب تک بیرونی لوگ کسی قوم کو پیغام دیتے رہتے ہیں وہ پیغام بیرونی ہی رہتا ہے۔ جب ان میں سے کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں جو پیغام سمجھنے کے بعد پیغام کی نمائندگی خود اپنی قوم میں کرنے لگتے ہیں تو تب وہ پیغام بیرونی نہیں رہا کرتا۔ (خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 390۔ خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء)

نومبائعین کی تالیف قلب

تالیفِ قلب کی شرط یہ ہے کہ نئے آنے والے لوگ اپنے دلوں کی تالیف کے لیے کچھ زیادہ احسان چاہتے ہیں۔ وہ احسان کا سلوک کرو۔ اور یہ احسان اگر سچا ہو اور حقیقی ہو، آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہو تو تھوڑی دیر کے بعد یہ احسان کے محتاج رہتے ہی نہیں۔ یہ مؤلفۃ القلوب ایک دو سال کی باتیں ہیں۔ (خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 395۔ خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء)

ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نومبائعین نماز پڑھیں اور اس کا ترجمہ سیکھیں

مورخہ 11؍اکتوبر 2022ء بروز منگل کو مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ میں نومبائعین کو مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
آپ سب سورت فاتحہ سیکھیں اور نماز میں پڑھیں۔ یہ پڑھنی ضروری ہے۔ پھر اس کا ترجمہ سیکھیں۔اس کے معانی کا آپ کو پتا ہونا چاہیے۔ (الفضل انٹرنیشنل3 جنوری 2023، رپورٹ دورہ امریکا ستمبرواکتوبر 2022)

نومبائعین مشکلات میں کیسے صبر وحوصلہ پیدا کریں

12؍فروری 2022ء کوبرطانیہ میں رہائش پذیر نو مبائعین سے آن لائن ملاقات میں ایک نومبائع نے ذاتی مشکلات میں صبر اور حوصلہ پیدا کرنے کے حوالہ سے راہنمائی طلب کی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ جب کبھی بھی آپ پریشان ہوں یا غمگین ہوں تو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ اگر کبھی نماز کا وقت نہ بھی ہو تو نوافل میں اللہ کے سامنے روئیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت سے باہر نکالے اور آپ کے دل کو سکون اور راحت عطا فرمائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ جس کا مطلب ہے کہ دل کے اطمینان اور سکون کے لیے تمہیں اللہ کو یاد کرنا چاہیے۔ تو اب یہی واحد حل ہے اور ساتھ ساتھ آپ کو ایسے دوست بھی بنانے چاہئیں جو آپ کے لیے مددگار ہوں۔ (الفضل انٹرنیشنل 8 مارچ 2022)

نومبائعین اللہ تعالیٰ سے کیسے قریبی تعلق پیدا کر سکتے ہیں

12؍فروری 2022ء کوبرطانیہ میں رہائش پذیر نو مبائعین سے آن لائن ملاقات میں ایک نومبائع نے سوال کیا کہ نو مبائعین کے لیے کیا ہدایت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے قریبی تعلق کیسے پیدا کرسکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ انہیں سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ کے الفاظ سیکھنے چاہییں، جو قرآن کریم کی پہلی سورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سورۃ الفاتحہ کو عربی میں سیکھنے کی کوشش کریں اورپھر اس کا ترجمہ بھی سیکھیں۔ پھر آپ کو پانچ وقت نماز ادا کرنی چاہیے اور اگر ممکن ہوسکے تو با جماعت ادا کریں۔ اس کے علاوہ آپ نوافل ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو مضبوط ایمان سے نوازے۔ اس حوالہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ کبھی کوئی نماز نہ چھوڑیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پانچ وقت نماز ادا کرنا فرض ہے۔ نہایت باقاعدگی سے نمازیں ادا کریں اور سجدوں کے دوران رو ر و کر اللہ سے مدد مانگیں۔ پھر چند ماہ میں آپ اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کریں گے۔ (الفضل انٹرنیشنل 8 مارچ 2022)

نومبائعین کتاب ’احمدیت کا پیغام‘‘ کا مطالعہ کریں

12؍فروری 2022ء کوبرطانیہ میں رہائش پذیر نو مبائعین سے آن لائن ملاقات میں شاملین میں سے ایک نے سوال کیا کہ احمدی مسلمانوں اور غیر احمدی مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ ’’آپ احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ کریں خاص طور پر ’Invitation to Ahmadiyyat‘ پڑھیں، جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تصنیف ہے۔‘‘
حضورِ انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ جیساکہ دیگر مسلمان حضرت مسیح موعودؑ اور امام مہدی کے انتظار میں ہیں، احمدی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب بطور مسیح موعود اور امام مہدی تشریف لا چکے ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل 8 مارچ 2022)

نومبائعین کو کیسے نظام جماعت کا حصہ بنائیں

مورخہ 15؍نومبر 2020ء کو Virtualملاقات میں ایک مربی صاحب نے سوال کیا کہ بعض دوسری قومیں جو جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہی ہیں، وہ جماعت کے علم الکلام سے تو بہت متاثر ہوتی ہیں لیکن جماعتی نظام اور خصوصاً مالی قربانی میں وہ پوری طرح شامل نہیں ہو پاتیں اور مقامی جماعت کے ساتھ بھی ان کے مستحکم رابطے نہیں ہو پاتے۔ اس بارے میں حضور انور کی خدمت میں راہ نمائی کی درخواست ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بات یہ ہے کہ جماعتی نظام کو بھی ان کےلیے اتنا مشکل نہ کریں۔ اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نےشروع میں یہی کہا تھا، اور ان سے پہلے بھی خلفاء یہی کہتے رہے اور مَیں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو نئے آنے والے نو مبائعین ہیں وہ جب آتے ہیں اور آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو ان کو پہلے تین سال کے عرصہ میں سمجھائیں کہ سسٹم کیا ہے، نہ کہ ان سے اس طرح سلوک کریں کہ وہ کوئی ولی اللہ ہیں یا صحابہ کی اولاد میں سے ہیں یا پیدائشی احمدی ہیں۔پیدائشی احمدی تو بلکہ کم جانتے ہیں وہ جو نئے آنے والے ہیں وہ دینی علم بھی آپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اکثر میں نے دیکھا ہے جو صحیح طرح سوچ سمجھ کے جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والا زیادہ ہوتا ہے ، وہ استغفار کرنے والا بھی ہوتا ہے، وہ تہجد پڑھنے والا بھی ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کرنے والا ہوتا ہے۔ تو بہرحال ہمارا یہ کام نہیں کہ جو بھی شامل ہوتا ہے اس کو پہلے دن سے ہی (تمام چیزوں کا پابند) کریں۔ اسی لیے تین سال کےلیے ان کے اوپر چندہ کا نظام لاگو نہیں کیا جاتا ہے۔ تین سال کا عرصہ ان کی ٹریننگ کاہوتا ہے تا کہ ا س میں تربیت ہوجائے۔ ان کو بتائیں کہ یہ جماعت کا نظام ہے لیکن تم ابھی نئے ہو تم اس کو پہلے غور سے دیکھو ،سمجھو۔
پھر مثلاً مالی قربانی ہے ، اللہ تعالیٰ نے کیونکہ مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے تو تم وقف جدیداور تحریک جدید کا چندہ جو ہے اس میں جتنی تمہاری حیثیت ہے تم دے سکتے ہو چاہے سال کا ایک یورو دو تاکہ تمہیں احساس پیدا ہو کہ جماعت سے تمہاری کوئی Attachment ہے۔
اسی طرح نمازوں کے بارے میں ان کو بتائیں کہ نماز سیکھو۔اب جب غیر مسلموں سے ایک مسلمان ہوتا ہے ، احمدی مسلمان ہوتا ہے۔ اس کو سورت فاتحہ سکھانی شروع کریں۔ جب اس کو سورت فاتحہ آجائے،یاد ہو جائے ۔ تو جب نماز اس نے پڑھنی ہے تو نماز کے فرائض اس کو بتائیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے۔ پہلی بنیادی چیز تو نماز ہےناں؟ تو نماز اللہ تعالیٰ نے جب فرض کی ہے تو اس میں آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ سورت فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ نماز کی جو بنیادی چیز ہے وہ سورت فاتحہ ہے۔ اور سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس لیے اس کو پہلے سورت فاتحہ یاد کرائیں۔پھر اس کو کہیں کہ اچھا تم ترجمہ یاد کرو۔یا اسے کہہ دیں کہ تم ترجمہ یاد کر لو تا کہ جو بالجہر نمازیں ہیں ان میں جب امام سورت فاتحہ پڑھ رہا ہے تو ساتھ ساتھ تمہیں دل میں پتہ لگتا رہے کہ امام کیا پڑھ رہا ہے۔پھر اس کو خود شوق پیدا ہوگا کہ سورت فاتحہ یاد کرلے۔یہاں کئی انگریز احمدی ہوئے ہیں مَیں نے ان کو دیکھا ہے کہ انہوں نے بڑے شوق سے اسے یاد کیا ۔یا کسی بھی ملک کے میرے سے جو کوئی بھی ملتے ہیں ان کو جب میں کہتا ہوں تو وہ سورت فاتحہ یاد کرتے ہیں اور بڑی اچھی طرح اللہ کے فضل سےیاد کرلیتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔تو تین سال کا عرصہ ان کو ایک ٹریننگ دینے کا عرصہ ہے۔جب ان کی تین سال میں وہ ٹریننگ ہو جائے گی تو پھر ان کو جماعت کےسسٹم میںIntegrate ہونا مشکل نہیں لگے گا۔
اگر آپ پہلے دن سے ان سے توقع رکھیں کہ وہ ولی اللہ بن جائیں تو وہ نہیں ہوسکتا۔ (یہ توقع رکھنا)پھر آپ لوگوں کا قصور ہے۔ تین سال کا عرصہ رکھا ہی اس لیے گیا ہے کہ نہ ان سے چندہ لینا ہے، نہ ان کو زیادہ زور دینا ہے۔ ان کی صرف تربیت کرنی ہے کہ جماعت کا نظام کیا ہے۔اور نہ ان کیHarshly تربیت کرنی ہے بلکہ پیار سے، محبت سے سمجھانا ہے کہ نماز کیا چیز ہے؟ نماز کیوں فرض ہے؟ نماز پڑھو۔ تم ایک نماز پڑھو گے ، دو پڑھو گے، تین پڑھو گے چار پڑھو گے۔ جو پکا مومن ہے اس پر پانچ نمازیں فرض ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ نمازجب پڑھتے ہیں اس کی حکمت کیا ہے؟ توعلم الکلام سے جو متاثر ہوتے ہیں ان کو پھر نماز کی حکمت سمجھائیں۔ اگر اس میں اتنی عقل ہے کہ اس کو علم الکلام کی باتیں پتہ لگ گئیں۔ فلسفہ پتہ لگ گیا۔ گہرائی پتہ لگ گئی ۔تو پھر اس کو یہ کہنا کہ نماز نہیں پڑھو گے تو جہنم میں چلے جاؤ گے ۔ یہ نہیں کہنا اس کو۔ اس کو پیار سے یہ کہیں کہ نماز کی حکمت کیا ہے۔ پانچ نمازیں کیوں فرض کی گئی ہیں۔ جب اس کو حکمت سمجھ آجائے گی تو آپ سے زیادہ نمازیں پڑھنے لگ جائے گا۔ مَیں نے تو تجربہ کر کے یہی دیکھا ہے۔ اسی طرح چندہ ہے۔ چندےکی حکمت کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ پہ ایمان کی حکمت کیا ہے؟
صرف علم الکلام سے متاثر ہونا بات نہیں ہے اس علم الکلام کو ہی لے کے آگے اس کو حکمت سمجھائیں۔ جس علم الکلام سے وہ متاثر ہوئے ہیں اسی علم الکلام کو ذریعہ بنائیں ۔ مثلاً ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ ہے۔لوگ متاثر ہو کر اسے پڑھتے ہیں۔اب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘سےہی اللہ تعالیٰ کے وجود کا پتہ لگ جاتا ہے ۔’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ سے ہی عبادت کی حقیقت پتہ لگ جاتی ہے۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘سے ہی قربانی کا معیار پتہ لگ جاتا ہے۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘سے ہی جنت اور دوزخ کا نظریہ پتہ لگ جاتا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں جب ان کے علم الکلام سے ہی ان کو سمجھائیں گے تو ان کو سمجھ آ جائے گی۔ تو آپ جو بات کر رہے ہیں اس کی دلیل تو آپ کے پاس خود موجود ہے اسی دلیل کو استعمال کریں۔ (الفضل انٹرنیشنل 10 ستمبر 2021ء)

================================

(قسط پنجم۔ آخر۔ مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل 2025ء)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تربیت نومبائعین کے لیے ایک لائحہ عمل بنائیں

مورخہ۱۷؍دسمبر۲۰۲۳ء کو برطانیہ تشریف لائے ہوئےنیشنل مجلسِ عاملہ انصار الله امریکہ کی حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں نائب قائد تربیت نو مبائعین کو حضور انور نے موصوف کو ہدایت فرمائی کہ آپ کو نومبائعین کی فہرست بنانی چاہیے یعنی ان لوگوں کی فہرست جنہوں نے پچھلے تین سالوں میں بیعت کی ہو اور پھر آپ کو چاہیے کہ آپ ان کی تربیت کے لیے ایک باقاعدہ لائحہ عمل بنائیں۔ انہیں کن کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور کچھ مقرر شدہ کتب ، لٹریچر یا کوئی اور مواد ہونا چاہیے تا کہ انہیں علم ہو کہ احمدیت کیا ہے؟ وہ احمدی کیوں ہوئے یا انہیں احمدی کیوں ہونا چاہیے؟ آپ کو اور نومبائعین کو بھی اس کا علم ہونا چاہیے، نہ کہ صرف یہ کافی ہو کہ انہوں نے بیعت کر لی ہے اور بس! آپ ان کو نظام جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کریں تا کہ ان کی اچھی تربیت ہو جائے۔ تو آپ ان کی اچھی تربیت کریں۔ ان کا علم پرانے احمدیوں سے زیادہ ہو۔ وہ نظام جماعت میں ضم ہو جائیں۔
(الفضل انٹرنیشنل 28 دسمبر 2023ء)

بری خبروں کے اثر اور مشکلات سے نجات پانے کا طریق

مورخہ۵؍نومبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ البانیاکے ممبران کی آن لائن ملاقات ہوئی۔ جس میں ایک نومبائع نے سوال کیا کہ بعض دفعہ بری خبریں یا کوئی مشکل بات بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں، وہ باتیں بھی جن کا میرے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہوتا، بعض دفعہ مجھ پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس کمزوری کو مَیں کیسے دُور کر سکتا ہوں؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مضبوط ایمان دے اور ہر ایک شر سے بچا کے رکھے اور جس طرح پہلے میں نے کہا تھا لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ بھی اس کا ایک علاج ہے۔ نماز میں، سجدے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری گھبراہٹ، میری بے چینی کو دُور کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعا سکھائی ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری اس پریشانی کو ڈھانپ لے اور مجھے میری طبیعت میں عمل عطا فرمائے۔ اس طرح کی دعائیں کرو تو اللہ تعالیٰ سنتا ہے ،قبول کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس پریشانی کو دُور بھی کر دیتا ہے۔ پھر زیادہ سے زیادہ دُرودشریف پڑھیں اور اِستغفار پڑھیں تو اللہ تعالیٰ پریشانیاں دُور کر دیتا ہے۔
باقی دنیا میں آدمی کی جو زندگی ہے اس میں اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں۔ انسان اچھی خبریں بھی سنتا ہے بری خبریں بھی سنتا ہے، لیکن جب اچھی خبریں سنے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، بری خبریں سنے تو دعا کرے، صدقہ بھی دے۔ صدقہ دینا بھی بہت ضروری ہے، جب آدمی صدقات دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بلاؤں، مشکلوں اور پریشانیوں کو دُور بھی کر دیتا ہے۔ دعا اور صدقات دو ہی کام ہیں جو ہمیں کرنے چاہئیں، اسی کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔
(الفضل انٹرنیشنل 16 نومبر 2023ء)

نومبائعین کے لیے انٹریکٹو پروگرام بنائیں اور ان کو نیک نمونہ دکھائیں

مورخہ۵نومبر۲۰۲۳ء کو جماعت احمدیہ البانیاکے ممبران کی آن لائن ملاقات میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: نوجوانوں اور نومبائعین کے ذہنوں میں جو سوال اٹھتے ہیں ان کو صرف ایک دفعہ بیعت کرا کے یا نظام میں شامل کر کے چھوڑ نہ دیا کریں بلکہ نوجوانوں، نومبائعین، بچوں کے لیے بھی ایسے پروگرام کریں جوinteractiveپروگرام ہوں بجائے وفات مسیح، الله تعالیٰ کیexistenceیا اس طرح کے مختلف topic پر تقریر کرنے کے کہ یہ بھی کریں، لیکن اس کے ساتھ زیادہ وقت interactive پروگرام ہونا چاہیے۔جو سوال جواب ہوں، ان سے لوگوں کی، نوجوانوں کی اورنئے آنے والوں کی بھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور جب دلچسپی پیداہو اور اس کے تسلی بخش جواب مل جائیں تو پھر ان میں ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ تو نوجوانوں اور نومبائعین کو قریب لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔
دوسرے یہ کہ اپنی اخلاقی حالتوں کو اتنا بہتر کرلیں کہ آپ کا نمونہ، پرانے احمدی جن کو آٹھ دس سال گزر گئے ان کا نمونہ دیکھ کے لوگ خود بخود متاثرہونا شروع ہو جائیں اور قریب آنے کی کوشش کریں۔ جب وہ آپ کے قریب آئیں گے تو اردو میں محاورہ ہے کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کے خربوزہ رنگ پکڑتاہے تو استفادہ کریں گے۔ اسی طرح مومن کی نشانی بھی یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جب قربت حاصل ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنوں کی مجلس میں بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جن سے لوگ فائدہ ہی اٹھاتے ہیں نقصان نہیں اٹھاتے۔ اس بات کی طرف زیادہ توجہ کریں۔
(الفضل انٹرنیشنل 16 نومبر 2023ء)

ہر ایک نومبائع کو ایک پرانےاحمدی کے سپرد کریں اور مواخات کا سلسلہ قائم کریں

مورخہ۴؍جون۲۰۲۳ء کو مجلس انصاراللہ کینیڈا کے نیشنل، ریجنل اور مقامی ممبران عاملہ کی آن لائن ملاقات میں حضورانور نے قائد تربیت نومبائعین کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر ایک کے لیے آپ کو تربیت اور اپنے سسٹم میں absorbکرنے کے لیے مختلف پلان بنانا پڑے گا ۔ نومبائعین کو شکوہ رہتا ہے کہ آپ لوگ ہمارے ساتھ صحیح طرحinteract نہیں کرتے اور ہمیں صحیح طرحintegrateکرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ان کے ساتھ ذاتی رابطے رکھیں اور مواخات کا سلسلہ بنائیں تو پھر آپ ان کو سنبھال سکتے ہیں۔ہر ایک نومبائع کو ایک پرانےاحمدی کے سپرد کریں اور مواخات کا سلسلہ قائم کریں تب یہ لوگ آپ کے ساتھ absorbہوں گے۔
قائد تربیت نومبائعین نے بتایا کہ ۲۰۱۷ء سے پرانے نو مبائعین سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور ان کوباقاعدگی سے حضور انور کا خطبہ جمعہ بھی بھجوایا جاتا ہے۔
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ سب کچھ بھجوانے کے باوجود جب تک اپنے اندر مجلس میں نہیں بٹھائیں گے، ساتھ نہیں رہیں گے، personal contactنہیں کریں گے، کوئی نہ کوئی ان کا دوست نہیں بنائیں گے، ان کو یہ محسوس ہو گا کہ ہمارے سے آپ نے distanceرکھا ہوا ہے۔یہ احساس نہیں ہونا چاہیےبلکہ ان کو قریب لانے کی کوشش کریں۔
(الفضل انٹرنیشنل 15 جون 2023ء)

نومبائعین کے ساتھ interaction زیادہ ہونا چاہیے

مورخہ۷؍مئی۲۰۲۳ء کو نیشنل عاملہ مجلس انصاراللہ آسٹریلیا کی آن لائن ملاقات میں قائد تربیت نومبائعین سے بات کرتے ہوئے حضور انور ایدہ الله نے نصیحت فرمائی کہ
اچھی طرح تسلی کرنی چاہیے کہ نومبائعین اچھی طرح مل جل گئے ہیں، ان کو اپنے ساتھ attach کریں اور ان کے ساتھ interaction زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ان کو یہی شکوہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگ بیٹھ کے باتیں کرتے رہتے ہیں۔آپ مجھے فجین لگ رہے ہیں۔ آپ کو پھرزیادہ interactکرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ پاکستانی بیٹھ کے اپنی گپیں مارتے رہیں اور ان کو کوئی نہ پوچھے۔ان کو اپنے سسٹم میں absorbکرنے کے لیے ان کو ساتھ ملانا ہو گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 25 مئی 2023ء)

نومبائعین کے لیے دعا کریں اور ان کی زبان میں ان سے باتیں کریں

مورخہ۱۲؍مارچ۲۰۲۳ء کو جماعت ناروے کی لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی آن لائن ملاقات ہوئی جس میں ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ ہم کس طرح نومبائعات کو لجنہ میں بہتر طور پہ integrateکر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ یہ تو dependکرتا ہے کہ تم خود کتنی activeہو۔ پہلی تو بات یہ ہے کہ ان کے لیے دعا کرو کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام احمدیت قبول کر نے کی توفیق دی ہے تو اب ان کو ایمان میں بھی مضبوطی عطا فرما۔ ان کو ثبات قدم عطا فرما۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم ان کی صحیح طرح تربیت کر سکیں۔ ہمارے علم کو بھی بڑھا ، ہماری روحانیت کو بھی بڑھا اور ہماری عملی حالتوں کو بھی بڑھا۔اپنے لیے بھی دعا کرو۔
پھر اپنے علم کو بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرو،دینی علم سیکھو تا کہ ان کے سوالوں کے جواب دے سکو اور اپنی عملی حالتوں کو بڑھاؤ۔جب نومبائعات آئی ہیں تو وہ یہ سمجھ کے آئی ہیں کہ اسلام اور احمدیت میں ایک ایسی چیز ہے جو اُن کو کہیں اَور نہیں ملی مگریہاں ملے گی۔ اگر آپ کے اخلاق اچھے نہیں ہیں اور آپ ان سے پوری طرح interactنہیں کرتیں اور ان کو integrate کرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔ وہ بیچاری یہاں آ کر بیٹھی رہتی ہیں اور پاکستانی اپنی اردو میں باتیں کرتی رہتی ہیں یا پنجابی بولتی رہتی ہیں اور ان سے ان کی زبان میں باتیں نہیں کرتیں تو پھر ان پہ غلط اثر پڑے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان کو قریب لائیں،ان کی زبان میں ان سے باتیں کریں،ان کو اپنی مجلسوں میں بٹھائیں اور ان سے interactکریں۔
اسی طرح جب وہ اجلاسوں میں آتی ہیں اگر پاکستانی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جن کو نارویجین نہیں آتی تو پھر اگر ستّر فیصد اجلاس آپ کا اردو میں ہو رہا ہے تو تیس فیصد نارویجین میں بھی ہونا چاہیے تا کہ ان کو سمجھ آ جائے اور اب تو یہاں بہت ساری لڑکیاں سکولوں میں جاتی ہیں ان کو اردو کی نسبت یہاں کی لوکل زبان زیادہ اچھی سمجھ آتی ہے۔اس لیے اجلاسوں میںبھی دیکھا کریں کہ کون سی زبان سمجھنے والی لڑکیوں بچیوںکی تعداد زیادہ ہے چاہے وہ پاکستانی اوریجن کی ہیں یا نومبائعات ہیں۔ پھر اس زبان میں آپ کی زیادہ میٹنگز ہونی چاہئیں۔ اگر آدھے گھنٹے کا اجلاس ہے تو بیس منٹ کا اجلاس نارویجین میں ہو اوراردو جاننے والوں کے لیےدس منٹ کا اردو میں ہو۔ اردو جاننے والی اکثریت اب بڑی عمر کی عورتیں ہی ہیں۔ان کی جتنی اصلاح ہونی تھی ہو گئی ہے۔اب وہ اصلاح کے قابل نہیں رہیں۔اس لیے کم از کم نئی نسل کو سنبھالیں اور نئے آنے والوں کو سنبھالیں۔
(الفضل انٹرنیشنل 6 اپریل 2023ء)

لوکل سیکریٹریان تربیت نومبائعین ہر ایک نومبائع تک پہنچیں

مؤرخہ 15؍اکتوبر 2022ء بروز ہفتہ جماعت احمدیہ امریکہ کی نیشنل مجلس عاملہ کی، مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ میں حضورِ انور کے ساتھ ملاقات ہوئی، جس میں سیکریٹری تربیت نومبائعین نے بتایا کہ وہ اسی سال اس شعبہ کے لیے منتخب ہوئے ہیں ۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:
جو پہلے سیکرٹری تربیت برائے نومبائعین تھے انہوں نے کوئی فائلز وغیرہ تیار کی ہوں گی۔ آپ ان فائلز کو پڑھیں۔ اسی طرح لوکل سیکرٹریانِ تربیت برائے نومبائعین کے ساتھ میٹنگز کریں اور ان کی راہنمائی کریں اور ان کو باقاعدہ ٹارگٹ دیں کہ وہ ہر ایک نومبائع تک پہنچیں۔ ورنہ اگر آپ ان سے رابطہ نہیں رکھیں گے تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔
(الفضل انٹرنیشنل 28 دسمبر 2023ء)

مؤاخات ایسے احمدی کے ساتھ کروائی جائے جس کا دینی علم اچھا ہو

۶؍نومبر ۲۰۲۲ء کو نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بیلجیم کی آن لائن ملاقات ہوئی، جس میں سیکرٹری نومبائعات نے ذکر کیا کہ وہ لجنات جنہوں نے حال ہی میں احمدیت قبول کی اور وہ غیر پاکستانی ہیں وہ ان میٹنگز میں شامل نہیں ہوتیں جن کا اکثر حصہ اردو زبان میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حضور انور سےپوچھا کہ ان کو کس طرح ترغیب دلائی جا سکتی ہے کہ وہ ان پروگرامز میں شامل ہوا کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب آپ اپنی میٹنگ کا انعقاد کر رہی ہیں تو ایک جنرل میٹنگ ہونی چاہیے جس کے متعلق میں نے لجنہ کو بتایا ہے کہ ان کو ایسا پروگرام بنانا چاہیے جس میں آدھا پروگرام اردو زبان میں ہو اور بقیہ آدھا مقامی زبان میں ہو۔ یا اگر لجنہ کی ممبرات میں سے آدھی سے زیادہ ایسی خواتین ہوں جنہیں اردو نہ آتی ہو تو ستّر فیصد مقامی زبان میں ہو اور تیس فیصد اردو میں ہو۔اس کے علاوہ آپ کو نومبائعات کے ساتھ علیحدہ میٹنگ بھی رکھنی چاہیے تاکہ آپ ان کی تربیت کر سکیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ نومبائعات کے ساتھ ذاتی رابطہ ہونا چاہیے۔اسی طرح مواخات کا پلان بنائیں جس میں ہر نو مبائعہ کو ایک پیدائشی احمدی لجنہ ممبر کے سپرد کر دیں۔ یہ خیال رکھیں کہ جس پیدائشی احمدی کے سپرد کر رہی ہیں اس کا دینی علم بھی اچھا ہو۔
(الفضل انٹرنیشنل 18 نومبر 2022ء)

نومبائعین، پیدائشی احمدیوں کی کمزوریوں کی پیروی نہ کریں

’’اسی طرح نومبائعین ہیں وہ جب بیعت کرتے ہیں اور جماعت میں اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کی سچائی پر انہیں یقین ہے تو بیعت کے بعد ان پر بھی اس بیعت کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ ان کو بھی اس وجہ سے اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کر دے گا کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم نے پیدائشی احمدیوں کو یا پرانے احمدیوں کو جس طرح کرتے دیکھا اس طرح کیا۔ ….لیکن پرانے احمدیوں کو مَیں یہ بھی کہوں گا کہ آپ کے نمونے دیکھ کر اگر کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو آپ اس غلطی اور گناہ میں حصہ دار ضرور بنتے ہیں۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ 9؍ اکتوبر 2015ء، روزنامہ الفضل )

نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً جماعت کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تاکہ اگر کوئی سست ہو رہا ہے تو اس کو اس طرف توجہ پیدا ہو جائے اور جو نئے آنے والے ہیں اور نوجوان ہیں ان کو مالی قربانیوں کا احساس ہو جائے، اس کی اہمیت کا احساس پیدا ہو جائے کہ مالی قربانی بھی ایک انتہائی ضروری چیز ہے اور وہ اپنی اصلاح کے لئے اور اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بن جائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ{وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّأَ نْفُسِکُمْ}(التغابن:17) کہ اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہو گا۔ ….نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں۔ یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے۔ جب نومبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نومبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے۔ یہ رابطے پھرہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہو گی۔
(خطبہ جمعہ 31؍ مارچ 2006ء)

نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کرنے کے لیے پوری کوشش نہیں کی گئی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے۔ پس ضرور ہے کہ ہزار در ہزار آدمی جو بیعت کرتے ہیں ان کو کہا جاوے کہ اپنے نفس پر کچھ مقرر کریں اور اس میں پھر غفلت نہ ہو‘‘۔ (البدرجلد2نمبر26۔ مورخہ 17؍جولائی 1903ء صفحہ 202) آج گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر وہ احمدی جو اچھی طرح نظام جماعت میں پروئے گئے ہیں قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے ہیں، بعضوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن دنیا میں اکثرجگہ نئے شامل ہونے والوں میں سے، نومبائعین کی مالی قربانی کی طرف توجہ نہیں اور ان کو شامل نہیں کیا گیا، کوشش نہیں کی گئی جس طرح کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ اور یہ بھی میرے نزدیک جماعتی نظام کی کمزوری ہے۔ اگر نظام جماعت شروع دن سے کوشش کرتا تو کچھ نہ کچھ چاہے ٹوکن کے طور پر ہی لیں، قربانی کی عادت ڈالنی چاہیے تھی۔ جہاں کوشش ہوئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے نتیجے نکلے ہیں۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نئے آنے والوں پر ان کی کسی نیکی کی وجہ سے یہ فضل فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیا۔ اب اس فضل کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بناتے ہوئے اور عبادات کے ساتھ اپنے ایمان میں ترقی کی بھی انتہائی ضرورت ہے۔
(خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 2009ء)

نومبائعین کو اپنے اندر پیار و محبت سے جذب کرنا ہمارا فرض ہے

یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کس قدر احسان ہے کہ اس نے زمانہ کے امام کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ دنیا جب آپس میں فساد میں مبتلاہے ہمیں ایک جماعت میں پرویا ہواہے۔ پس اس احسان کا شکر گزار ہوتے ہوئے اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کرنا ہمارا فرض ہے۔ آپس میں پیار اور محبت اور بھائی چارے کو پہلے سے بڑھا کر تعلق کا اظہار کرنا ہمارا فرض ہے۔ اپنے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے بالکل پاک صاف کرنا ہمارا فرض ہے۔ نئے بیعت کرنے والے، نومبائعین کو اپنے اندر پیار و محبت سے جذب کرنا ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم یہ تمام باتیں نہیں کر رہے تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔
(خطبہ جمعہ 25؍ اپریل 2008ء)

نومبائعین کو مالی قربانی کے بارے میں بتایا ہی نہیں جاتا

نومبائعین کے بارے میں فرمایا کہ بیعت کرتے ہیں اور وہ چندہ نہیں دیتے۔ ان کو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی خاطر قربانی کی جائے تو اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ بہت سے نومبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کو ئی مالی قربانی کرنی بھی ہے کہ نہیں۔ تو یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانیاں نہیں کرتے۔ اب اگر ہندوستان میں،انڈیا میں اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی تھی۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 5نومبر2004ء۔ خطبات مسرور، جلد2ص806-807)

نومبائعین کو وقف جدید میں شامل ہونا چاہیے

پس یہ جو وقف جدید کا چندہ ہے اس میں تو ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ ضرور اتنی رقم ہونی چاہیے۔ غریب سے غریب بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے سکتا ہے۔ جب مالی قربانی کریں گے تو پھر دعائیں بھی لے رہے ہوں گے۔ فرشتوں کی دعائیں بھی لے رہے ہوں گے اور خداتعالیٰ کی رضا بھی حاصل کررہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس قربانی کی وجہ سے حالات بہتر فرمائے گا۔ پس ہر احمدی کومالی قربانی کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ نومبائعین کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اصلاح کے لیے بھیجا ہے تو اپنے نفس کی اصلاح کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ مالی قربانی کی جائے، اس میں ضرور شامل ہوا جائے۔ پھر اس پیغام کو پہنچانے کے لیے مالی اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے نومبائعین کو بھی شروع میں ہی عادت ڈالنی چاہیے۔ اپنے آپ کو اس طرح اگر عادت ڈال دی جائے تھوڑی قربانی دے کر وقف جدید میں شامل ہوں، پھر عادت یہ بڑھتی چلی جائے گی اور مالی قربانیوں کی توفیق بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
(خطبہ جمعہ 6؍ جنوری 2006ء۔ خطبات مسرور جلد4،ص7)

نومبائعین کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک ذریعہ مالی قربانی بھی ہے

نومبائعین کی جماعت سے تعلق میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب وہ مالی قربانی میں شامل ہوتے ہیں۔ جب وہ اس اصل کو سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک ذریعہ مالی قربانی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو نومبائعین اس حقیقت کو سمجھ گئے ہیں وہ جماعت سے تعلق، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت اور اخلاص اور آنحضرتﷺ کے عشق میں فنا ہونے کی منازل دوڑتے ہوئے طے کر رہے ہیں۔ بعض نومبائعین قربانیوں میں اوّل درجے کے شمار ہو نے کے بعدبھی لکھتے ہیں کہ یہ قربانی ہم نے دی ہے لیکن حسرت ہے کہ کچھ نہیں کر سکے۔ انہیں یہ احساس ہے کہ ہم دیر سے شامل ہوئے تو قربانیاں کرتے ہوئے اُن منزلوں پر چھلانگیں مارتے ہوئے پہنچ جائیں جہاں پہلوں کا قرب حاصل ہو جائے۔ پس یہ وہ موتی اور ہیرے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے اور عطا فرما رہا ہے۔ جن کی حسرتیں دنیاوی خواہشات کے لئے نہیں بلکہ قربانیوں میں بڑھنے کے لیے ہیں اور جس قوم کی حسرتیں یہ رخ اختیار کر لیں اس قوم کو کبھی کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا۔ جب کہ خدائی وعدے بھی ساتھ ہوں اور اللہ تعالیٰ یہ اعلان کر رہا ہو کہ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔ پس جو کمزور ہیں، نئے احمدی ہوں یا پرانے، تربیتی کمزوریوں کی وجہ سے بھول گئے ہیں یا قربانیوں کی اہمیت سے لا علم ہیں، ہمیشہ یاد رکھیں کہ مسلسل کوشش اور جدوجہد اُنھیں وہ مقام دلائے گی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا مقام ہے۔ اس اہم کام کی سر انجام دہی کے لیے جہاں ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس اہمیت کو سمجھے وہاں انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ احباب جماعت کو اس کی اہمیت بتائیں، نومبائعین کو اس کی اہمیت بتائیں۔
(خطبہ جمعہ 4؍ جنوری 2008ء۔ خطبات مسرور جلد6،ص6)

نومبائعین سے مستقل رابطہ رکھنے کی تلقین

جماعت کا کام ہے کہ ایسے سعید لوگ جو احمدیت میں شامل ہوتے ہیں اُن کو سنبھالے بھی۔ ایسے لوگوں سے مستقل رابطہ رہنا چاہئے تا کہ اُن کو قریب تر لے کے آئیں۔
(خطبہ جمعہ 14؍ اکتوبر 2011ء۔ خطبات مسرور جلد9 ص518)

بعض نومبائعین پرانے احمدیوں کے لیے نمونہ ہیں

یہ لوگ نہ صرف بیعت کر رہے ہیں بلکہ بیعت کر کے اپنے علم کو بڑھا بھی رہے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو پیدائشی احمدی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس ہمارے خون میں احمدیت ہے تو اب مزید علم حاصل کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ اپنے تقویٰ کو، نیکیوں کے معیاروں کو بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
(خطبہ جمعہ 16؍ ستمبر 2011ء۔ خطبات مسرور جلد9 ص468)
(ایک نومبائع نے لکھا کہ)’’ مجھے ڈر لگا کہ عہدِ بیعت کی خلاف ورزی نہ کرنے والا ٹھہروں۔ لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہدایت عطا فرمائے اور مغفرت فرمائے اور استقامت بخشے۔ پس یہ فکریں ہیں نئے آنے والوں کی۔ بہت سارے پرانے احمدی جو بزرگوں کی اولادیں ہیں اُن کوبھی یہ فکریں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں کہ ہم نے عہدِ بیعت کو کس طرح اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ نبھانا ہے اور اُسے پورا کرنا ہے تبھی ہم حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ 16؍ ستمبر 2011ء۔ خطبات مسرور جلد9 ص469)

بیعت کے بعد پاک تبدیلیاں پیدا کرو

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سلسلہ بیعت میں آنے والوں کو جو نصائح فرمائیں ان میں بنیادی اور اہم نصیحت یہی ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرو۔ اپنے خدا سے تعلق جوڑو، اپنے اخلاق کے معیار اعلیٰ کرنے کی کوشش کرو۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ جو اس سلسلے میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلن اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقت نماز باجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنے کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 220مطبوعہ ربوہ)
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے زمانہ کے امام کو مانا ہے یا مان رہے ہیں وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ یہ پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا ہوں اور قائم رہیں۔ ایک انقلاب ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہؤا ہے اور ہو رہا ہے جنھوں نے بیعت کی حقیقت کو سمجھا۔ ….دنیا کی مختلف قوموں، مختلف نسلوں کے لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے میں ترقی کی ہے، نیکیوں کے بجا لانے اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کی ہے، اپنے نفس کی خواہشات کو مارنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند رہنے میں ترقی کی ہے، اپنی روحانیت کے بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اللہ کا خوف اور محبت دنیا کے خوفوں اور محبتوں پر حاوی ہے۔
(خطبہ جمعہ 2؍ ستمبر 2011ء۔ خطبات مسرور جلد9 ص439)

نومبائعین سے مسلسل رابطہ رکھیں

بیعتیں کروانے کے بعد مسلسل رابطے رکھیں اور ہمیشہ رابطوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں۔ وہاں بار بار جائیں تا کہ تربیتی پہلو بھی سامنے آتے رہیں اور تربیت ہوتی رہے۔ ….بہت سی بیعتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا ضائع بھی ہو جاتی ہیں۔ تو جماعتوں کو، خاص طور پر ان ملکوں کی جماعتوں کو اس بات کا انتظام کرنا چاہیے کہ کم از کم شروع میں ایک سال خاص طور پر بہت توجہ دیں۔ اس لیے میں نے خلافت کے پہلے سال میں ہی جماعتوں کو کہا تھا کہ بے شمار بیعتیں ضائع ہو رہی ہیں۔ جو پرانی ہوئی ہوئی بیعتیں ہیں ان کا کم از کم ستّر فیصد رابطے کر کے واپس لائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجے میں جماعتوں نے خاص طور پر افریقہ میں کوششیں بھی کیں اور پھر جب رابطے ہوئے تو ان لوگوں نے شکوے کیے کہ تم بیعت کروا کر ہمیں چھوڑ کے چلے گئے تھے۔ دل سے احمدی ہیں۔ بہت سارے ایسے تھے جو دل سے احمدی تھے لیکن آگے احمدیت کی تعلیم کا نہیں پتا تھا۔ تربیت کی کمی تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی تعداد میں نئے رابطے ہوئے اور وہ لوگ واپس آئے اور اب تربیت کے لیے فعّال نظام شروع ہے۔ اس میں مزید مضبوطی کی ضرورت ہے۔ ….جائزہ لینے کے لئے پروگرام بنانے چاہئیں تا کہ رابطوں کے ٹوٹنے یا پیچھے ہٹنے والوں کی وجوہات کا پتا چلے اور آئندہ کے لئے ان کمیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پھر تبلیغ اور تربیت کی جامع منصوبہ بندی ہو۔ اسی طرح باقی دنیا میں بھی اس نہج پر کام کرنا چاہئے کہ جو جماعت میں شامل ہوتا ہے اس سے ہم کس طرح مسلسل رابطہ رکھیں چاہے وہ کتنا ہی دور دراز علاقے میں رہتا ہو۔ رابطہ انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنے کی جماعتوں کو توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 2015ء۔ خطباتِ مسرور جلد13ص32، 33)

نومبائعین کو تحریک جدید اور وقف جدید میں شامل کریں

اگر نومبائعین کو چندوں کے نظام میں لایا جائے تو پھر ہی مضبوط رابطہ بھی رہتا ہے اور ایمان میں مضبوطی کے ساتھ نظام جماعت سے بھی تعلق قائم ہوتا ہے۔ اسی لیے مَیں نے یہ کہا تھا کہ تحریک جدید اور وقف جدید میں نئے آنے والوں کو بھی شامل کریں۔ پرانوں کو بھی ان کا احساس دلائیں۔ بعض جماعتیں تو اس سلسلے میں بہت فعّال ہیں اور کام کر رہی ہیں لیکن بہت جگہ سُستی بھی ہے۔ مَیں نے تو یہ کہا تھا کہ چاہے کوئی سال میں قربانی کا دس پینس (pence) دیتا ہے تو وہ بھی اس سے لے لیں۔ کم از کم اس کا ایک تعلق تو قائم ہو گا۔ ہر ایک کو پتا ہونا چاہیے کہ ہم نے مالی قربانی کرنی ہے۔
(خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 2015ء۔ خطباتِ مسرور جلد13ص31)

اپنا تبصرہ بھیجیں