نومبائعین (موجودہ طلبہ جامعہ) کی دین کی خاطر ایثار وقربانی
بعض نومبائع افراد کے دین کی خاطر ایثار وقربانی کے بعض واقعات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍فروری 2005ء میں مکرم سلطان احمد صاحب ظفر کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔ یہ افراد اب جامعۃالمبشرین قادیان کے طلبہ ہیں۔
٭ مکرم ماجد حسین صاحب ابن عبد اللطیف صاحب آف جموں نے بیان کیا کہ مَیں میٹرک پاس کرنے کے بعد راج مستری کا کام کرتا تھا۔ دسمبر 2000ء کو چمبہ (ہماچل پردیش) میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی غرض سے گیا جہاں جماعت کے دو معلمین سے ملاقات ہوئی تو صداقت آشکار ہونے پر قبول احمدیت کی سعادت ملی۔ معلمین کی تحریک پر زندگی وقف کرکے جامعۃالمبشرین میں داخلہ لیا۔ جون 2001ء کو موسمی تعطیلات میں اپنے گھر جموں گیا۔ پورا خاندان کٹر جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہے۔انہیں میرے قبولِ احمدیت کا علم ہوا تو پہلے اپنے طور پر جماعت سے منحرف کرانے کی کوشش کی۔ جب ایک دو دن بعد قادیان آنے والا تھا کہ والدین نے گھر پر چند مخالفین کو بلا لیا جنہوں نے خاکسار کو جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جب خاکسار نہ مانا تو میرے والد صاحب نے دھوکے سے مجھے دوسرے کمرے میں بلاکر بند کر دیا اور پندرہ دن محبوس رکھا۔ پھر مجھے چھوڑا گیا لیکن سخت نگرانی کی جاتی رہی۔ ایک دن موقعہ پاکر خاکسار بھاگ کر قادیان آگیا۔ اگلے سال جب موسمی تعطیلات میں گھر نہ پہنچا تو میرے والد صاحب میرے ماموں کو ساتھ لے کر قادیان آئے۔ لنگر میں ایک رات قیام کیا لیکن مخالفت اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ لنگر خانہ سے پانی تک نہ پیا۔ وہ مجھے بار بار گھر چلنے کے لئے کہتے رہے۔ یہ بھی کہا کہ تم کو نہیں روکیں گے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ان کا بہانہ ہے اور سابقہ تجربہ سے بھی میں نے سبق حاصل کر کے جانے سے انکار کر دیا۔
٭ مکرم عبد الخالق صاحب ابن کاظم الدین آسامی نے بیان کرتے ہیں کہ میں نے جولائی 2001ء میں بیعت کی۔ میرے بھائیوں نے میری شدید مخالفت شروع کر دی اور بالآخر مجھے میرے مکان سے نکال دیا ہم تین بھائیوں کی 80 بیگہ زمین تھی۔ مجھے اس سے بھی بے دخل کر دیا اس پر میں زندگی وقف کر کے قادیان جامعۃالمبشرین میں پڑھنے کے لئے آگیا۔ یہاں پہنچنے پر میری بیوی نے مجھے اطلاع دی کہ میرے بھائیوں نے اس کو بھی مار پیٹ کر کے گھر سے نکال دیا ہے۔ اس پر میں پندرہ دن کی چھٹی لے کر آسام گیا تا اپنی اہلیہ اور بچوں کو لے آؤں جب میں اپنے سسرال پہنچا تو میرے بہن بھائیوں نے مجھے پکڑکر کمرہ میں بند کر دیا اور میرا واپسی کا ریزرویشن کینسل کرا دیا۔ دس دن بعد میں کسی طرح اپنے گھر سے نکل بھاگا اور اپنے بچوں کو لے کر پندرہ کلو میٹر پاپیادہ چل کر راتوں رات اسٹیشن پہنچا اور اپنی فیملی کو لے کر قادیان آگیا۔ اب فیملی کے ساتھ قادیان میں مقیم ہوں۔ میری اہلیہ کو بھی اُس کے والدین نے کہا ہے کہ اب تُو ہماری بیٹی نہیں ہے۔
٭ مکرم امجد علی ابن محمد رمضان آسامی نے بیان کیا کہ میں انٹر پاس ہوں۔ اکتوبر 2000ء میں بیعت کی۔ گاؤں والوں کو خبر پہنچی تو انہوں نے میرے والد صاحب کو بلایا کہ تمہارا بیٹا قادیانی یعنی کرسچن ہوگیا ہے۔ ہمارے علاقہ میں اب تک کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی یا تو وہ توبہ کرے ورنہ اسے گاؤں سے نکال دو، اگر گھر میں رکھو گے تو ہم تم سب کو نکال دیں گے۔ میں نے منت سماجت کی کہ مجھے دو ماہ تک رہنے دیا جائے لیکن کسی نے نہ سنی۔ میں اپنی اہلیہ اپنی پھوپھی کے گھر چھوڑ آیا تھا اور اگلی موسمی تعطیلات میں جاکر اپنی فیملی کو بھی قادیان لے آیا۔
٭ مکرم سجاد احمد صاحب ابن عبد اللطیف صاحب آف کلکتہ نے بتایا کہ میں نے انٹر پاس کر کے طبّی سرٹیفیکیٹ حاصل کیا اور میں UP میں چھ سال پریکٹس کرتا رہا ہوں۔ خدا کے فضل سے ماہانہ نو دس ہزار روپے آمد ہوتی تھی۔ خاکسار نے احمدیت کے مخالفین کی کتب پڑھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ معلم وقف جدید سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کی دل کھول کر مخالفت کی۔ ایک بار مجھے کتاب ’’دینی نصاب برائے نومبائعین‘‘ ملی تو اس کو پڑھ کر میری بہت سی غلط فہمیاں دُور ہوگئیں اور میں نے اپنے طور پر لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی اور آہستہ آہستہ ایک خاصی جماعت تیار کر کے انہیں تحقیق حق کی غرض سے قادیان جلسہ سالانہ پر چلنے کو آمادہ کیا۔ چنانچہ خاکسار معلم وقف جدید کے تعاون سے دو بسیں بھر کر قادیان لایا۔ یہاں آکر 2000ء میں بیعت کر کے احمدیت قبول کر لی اور ساتھ ہی دینی تعلیم کے حصول کے لئے جامعۃ المبشرین میں داخلہ لیا۔ پچھلے سال جب موسمی تعطیلات میں اپنے گھر گیا توچونکہ میں نے اپنے گھر والوں کو اپنی قبول احمدیت کی اطلاع دی ہوئی تھی اور کتب بھی بھجوائی تھیں، انہوں نے حق شناخت کر نے کی بجائے خاکسار کی شدید مخالفت کی، مجھے زدو کوب کرکے گھر سے نکال دیا۔ میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ اپنے سسرال گیا تو انہوں نے بھی شدید مخالفت کی اور میری اہلیہ کو بھی میرے خلاف کردیا۔ میری اہلیہ بیمار تھی اس کا اپریشن کروانا پڑا۔ محترم امیر صاحب بنگال نے مالی امداد فرمائی جس سے علاج ہوگیا۔ میری اہلیہ میرے ساتھ قادیان آنے پر رضامند نہ ہوئی اور مجھے اپنی بقیہ تعطیلات احمدیہ مشن کلکتہ میں گزارنا پڑیں۔ میرے گھر اور سسرال سے مجھے ایک ہی جواب ملا ہے کہ تم عیسائی ہوچکے ہو اب ہمارا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اگر قادیانیت سے تائب ہوکر آنا چاہو تو ہمارے دروازے کھلے ہیں ورنہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ پہلے میری اہلیہ قادیان آنے پر آمادہ تھی لیکن اب اس نے بھی صاف انکار کردیا ہے۔
٭ عزیزان حافظ ریحان احمد اور حافظ محمود الحسن صاحب کو مہاراشڑ میں احمدیت کا پیغام ملا اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔ حافظ ریحان احمد سہارنپور کے رہنے والے ہیں جبکہ محمود الحسن صاحب دہرا دون کے متوطن ہیں۔ دونوں ہی جامعۃ المبشرین میں پڑھنے آگئے۔ جب ان کے والدین کو علم ہوا تو دونوں کے والدین قادیان آگئے اور بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ یہ کہتے ہوئے لے گئے کہ کچھ دن وہاں رہ کر آجائیں گے۔ لیکن ان دونوں کو گھر لے جانے کے بعد ورغلانے کی کوشش کی۔ لیکن جب انہوں نے احمدیت کو چھوڑنے سے انکار کیا تو انہیں طرح طرح کی بدنی سزائیں بھی دی گئیں اور گھروں میں بند کر دیا گیا۔ دونوں طلباء کچھ دنوں بعد باری باری خاموشی سے بھاگ کر قادیان آگئے۔ چند دنوں بعد ان کے والدین دوبارہ قادیان آگئے اور انتظامیہ کو یقین دہانی کرائی کہ ایک بار انہیں گھر جانے دیں ہم انہیں چند دن بعد واپس کر دیں گے۔ لیکن اس بار بھی ان کے والدین نے پہلے کی طرح انہیں گھروں میں روک لیا اور طرح طرح کا دباؤ ڈالا گیا لیکن دونوں طلباء ایک بار پھر بھاگ کر قادیان آگئے اور تعلیم مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد حافظ ریحان اب بطور معلّم خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور ان کے والدین خدا کے فضل سے احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ جبکہ حافظ محمود الحسن کو والدین نے غیر معمولی دباؤ ڈال کر اپنے پاس روک رکھا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تم بے شک احمدیت پر قائم رہو لیکن ہمارے پاس رہو۔ چنانچہ موصوف اپنے علاقہ میں بھی اور اپنے والدین کو بھی دعوت الی اللہ کر رہے ہیں۔
٭ عزیزم پیار دین آف ہما چل پہلے ڈرائیور تھے۔ قبول احمدیت کے بعد وہ فیملی کے ہمراہ قادیان آگئے اور خود جامعۃ المبشرین میں داخل ہوگئے۔ ان کے والدین کو علم ہوا تو وہ اور ساس سسر قادیان آئے اوران کو واپس لے جانے کے لئے کافی دباؤ ڈالا لیکن انہوں نے مستقل مزاجی دکھائی بالآخر والدین اپنی بہو کو زبردستی ساتھ لے گئے کہ اس حربہ سے ان کا لڑکا گھر آجائے گا۔ لیکن جب یہ واپس نہ گئے تو والدین نے لکھا کہ آکر اپنی فیملی ساتھ لے جاؤ۔ جب یہ گھر پہنچے تو ان کو زبردستی وہاں روک لیا گیا اور کئی قسم کا دباؤ ڈالا گیا۔ ایک روز یہ اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر سسرال آئے۔ وہاں جا کر اپنی اہلیہ کو قادیان چلنے پر آمادہ کرتے رہے لیکن وہ اپنے والدین کے دباؤ کی وجہ سے رضامند نہ ہوئیں۔ اس پر آپ اکیلے ہی قادیان آگئے۔ خدا کے فضل سے بعد میں ان کی اہلیہ کو بھی احساس ہوا کہ اس نے اپنے میاں کا ساتھ نہ دے کر اچھا نہیں کیا۔ ایک دن موقع پاکر وہ بھی خاموشی سے گھر سے نکل کر قادیان آگئی اور اب قادیان میں اپنے شوہرکے ساتھ مقیم ہے۔