نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر23)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر23)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں یونیورسٹی کے طلباء کی حضور انور کے ساتھ نشست
(بتاریخ 28 جون 2013ء بمقام کالسروئے)

جلسہ سالانہ جرمنی کے پہلے روز شام کو منعقد ہونے والی اس نشست میں مجموعی طور پر تین صد سے زائد طلباء شامل ہوئے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے اردو و جرمن ترجمہ کے ساتھ ہوا۔
…٭…بعد ازاں پروگرام کے مطابق ڈاکٹر اویس باجوہ صاحب نے اپنے ایک میڈیکل تھیسس(thesis) پر presentation دی۔ ان کے اس تھیسس کا عنوان “Establishing a Method of Sodium Imaging after Blood-Brain Barrier Disruption” تھا۔
انہوں نے بتایاکہ انسانی جسم میں سوڈیم آئن (Sodium Ion) کی مقدار ہائیڈروجن آئن کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اس کی اہمیت سارے خلیوں میں ہی ہے تاہم نیوران(Neuron) دماغی خلیہ کے باہر اور اندر اس کی کم اور زیادہ مقدار میں موجودگی کے باعث الیکٹرک پوٹینشل پیدا ہوتا ہے۔
اس تحقیقاتی مطالعہ میں ہم نے سوڈیم کی تقسیم کا ایک چوہے کے دماغ میں مشاہدہ کیا۔ کیمیکل شفٹ اِمجنگ (Chemical Shif Imaging or CSI) کا طریقہ جو ہم نے استعمال کیا وہ X-Nucleus طریقہ کہلاتاہے جو عام طور پر استعمال کئے جانے والے MRI یعنی Magnetic Resonace Imaging سے مختلف ہے جس میں عموماً پروٹان کی شفٹ کو استعمال کیاجاتاہے۔ لیکن مسئلہ یہ سامنے آتاہے کہ CSI طریقہ میں سوڈیم کی مقدار میں سیل کے اندر اور باہر والے سوڈیم آئن میں تفریق نہیں کی جاتی اور ٹوٹل سوڈیم کی مقدار ہی معلوم ہوتی ہے جبکہ ہم صرف سیل کے باہر موجود سوڈیم کی مقدار معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ سیل کے اندر اور باہر کے خانوں میں موجود سوڈیم میں فرق کرنے کیلئے ہم نے ایک کیمیکل شفٹ ایجنٹ کا استعمال کیا جسے TMDOTP کہاجاتا ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اس سوڈیم آئن سے مل جاتا ہے جو سیل کے باہر موجود ہوتی ہے اور اس طرح سے ان کی مقناطیسی طاقت میں فرق آجاتا ہے جس کا عکس Spectroscopic Analysis یعنی ’رنگین تصویر‘ کی شکل میں کیا جاسکتا ہے اور جیسے جیسے اس کیمیکل کی مقدار بڑھائی جائے باقاعدہ سوڈیم کی شفٹ کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوڈیم سارے جسم میں اس کیمیکل کے ساتھ سیل کے اندر اور باہر جاسکتا ہے لیکن دماغ میں ایک رکاوٹ موجود ہوتی ہے جس کے باعث یہ کیمیکل دماغ کے خلیوں کے باہر موجود جگہ پر شریانوں سے نکل کر نہیں جاسکتا۔یہ رکاوٹ آپس میں جڑے ہوئے خلیوں کے باعث ہوتی ہے جو دماغ کی شریانوں میں پائی جاتی ہے جس کے باعث یہ کیمیکل باہر نہیں جاپاتے۔ باقی جسم میں ایسی رکاوٹ نہیں پائی جاتی ہے۔
ہم نے سوڈیم کی زیادہ مقدار والے محلول کو دماغ کو جانے والی بڑی شریان (Internal Carotid Artery) کے ذریعہ براہِ راست داخل کیا۔ اپنے تجربہ کیلئے چوہے کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے خوردبینی طریقہ سے یہ محلول براہِ راست دماغ تک پہنچایا تاکہ باقی جسم میں جانے کے باعث اس کی مقدار کم نہ ہوجائے۔ اس سے قبل ہم نے یہی تجربہ ایک نسبتاً سستے محلول سوڈیم فلوروسین کے ذریعہ بھی کیا۔
اس تجزیہ کے بعد ہم نے اپنے تجرباتی جانور کو برین Scanner میں ٹرانسفر کیا اور کیمیکل شفٹ امیجنگ (CSI ) کی تصویر حاصل کی۔ وہ جانور جن میں تجربہ سے پہلے زیادہ سوڈیم والا محلول inject کیا گیا تھا وہاں واضح کیمیکل شفٹ نظرآئی جبکہ کنٹرول والے جانوروں میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔
اس تحقیق کا مقصدیہ تھا کہ دماغ میں CSA کیمیکل شفٹ ایجنٹ کے ذریعہ رسائی کی جاسکتی ہے اور ہم اس تجربہ میں کامیاب رہے۔ اس کیمیکل شفٹ ایجنٹ کے باعث واضح طور پر دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیاجاسکتاہے۔ تاہم جو کیمیکل TMDOPT ہم نے چوہوں میں استعمال کیا چونکہ اس کے زہریلے اثرات انسانوں میں ہوسکتے ہیں لہٰذا انسان میں استعمال کئے جاسکنے والے کیمیل ایجنٹ کاابھی انتظارکرنا ہوگا۔
…٭…اس کے بعد بلال اسلم صاحب نے دنیا کے سب سے بڑے سائنسی ادارہ CERN اور جرمنی کے 25خدام کا اس ادارے کا وزٹ پر اپنی presentation دیتے ہوئے بتایا کہ شعبہ تعلیم جرمنی کا یہ مقصدرہاہے کہ سٹوڈنٹس کو بہترین علم سے نوازاجائے۔ اسی ضمن میں ایک پروگرام2009ء میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں کیاگیاتھا جس میں دنیا بھر سے نامور سائنس دانوں نے شمولیت کی۔ پھر اسی طرح 2010ء میں CERN کے بارہ ایک پروگرام کیا جس میں ایک سائنسدان جو CERN میں کام کرتا تھا شامل ہوا۔ پھر 2011ء میں 25 خدام نے Cern جو کہ سوئٹزرلینڈ میں ہے اس کا دورہ بھی کیا۔
2013ء میں CERN میں جو ایک ذرہ دریافت ہوا اس کے بارے میں دنیا بھر سے نامور سائنس دان آئے اور ہمارے اسٹوڈنٹس کو لیکچردیا۔
موصوف نے بتایاکہ CERN دنیا کا سب سے بڑا سائنسی ادارہ ہے جس میں تخلیقات کی پیدائش وغیرہ پر ریسرچ ہوتی ہے۔ یہ ادارہ 1954ء میں بنا اور 20ممالک نے مل کر اس ادارہ کا آغاز کیا۔ اب 10000(دس ہزار) کے قریب سائنسدان یہاں کام کرتے ہیں۔ اس ادارے میں تین سائنس دانوں کو نوبل انعام ملا ہوا ہے۔
اس دارے کا خاص کام ایٹم کے ذروں کو آپس میں ٹکرانے اور ان سے نئے ذرات پیداکرنا ہے ۔ اس کام کیلئے وہاں دنیا کی سب سے طاقتور مشین بنائی گئی ہے۔ جس کا نام Large Hadrom Accelerator ہے۔ یہ ذرات کو روشنی کی رفتارتک لے جاتا ہے اور ٹکراتا ہے۔ اس طرح توانائی سے ذرات پیداہوتے ہیں جس کی سٹڈی کر کے یہ کائنات کی پیدائش وغیرہ کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بعض طاقتیں ہیں جو ہر چیز کو جوڑے رکھتی ہیں جیسا کہ weak force، electromagn ، gravity اور strong forceہیں۔
ڈاکٹر عبد السلام نے weak force جو ایٹم کے اندر ہوتی ہے کو electro magnents طاقت کے ساتھ ملا کرپیداہونے والی ایک طاقت دریافت کی۔ کیونکہ جب کائنات بنی تو سب طاقتیں ایک تھیں۔ اس لئے یہاں یہ چیز تلاش کی جاتی ہے کہ وہ ایک طاقت کونسی تھی۔
2013ء میں جو Higg ذرّہ دریافت ہوا اس کا تعلق بھی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی theory کے ساتھ تھا۔ اس نئی تھیوری کے مطابق سب ذرات کو ایک فیلڈ وزن دیتی ہے۔ اس فیلڈ کانام ہگز فیلڈہے۔ اس ذرّہ (Higgs) کو 2013ء میںCERNمیںدیکھاگیا۔ اس طرح ایک تھیوری ثابت ہوئی ہے اور انسان کے علم میں اضافہ ہواہے۔
قرآن کریم کا قریباً آٹھواں حصہ علم بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر غور کرنے کا حکم دیتاہے۔ تو یہ علم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہم اللہ کی پیداکردہ کائنات پر غور و فکر کرسکتے ہیں اور ثابت کرسکتے ہیں کہ ہرچیز کو پیداکرنے والا ایک خدا ہے ۔ جیسا کہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے بھی قرآن کا علم حاصل کرکے اپنی theories پیش کیں۔
مجلس سوال و جواب
…٭…ایک طالبعلم نے اسی presentation کے حوالہ سے سوال کیا کہ ایسی دنیا میں جہاں آدھے سے زیادہ لوگوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے وہاں اتنے زیادہ resources کو basic scienceریسرچ پر خرچ کردینے کو کس طرح justify کیاجاسکتاہے؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بھی کہتاہے کہ جو میں نے کائنات بنائی ہے اور جو میں نے سارا زمین و آسمان کا نظام بنایا ہے اس پر غور کرو۔ اور جو لوگ بھوکے مر رہے ہیں وہ اس لئے نہیں مر رہے کہ اس تحقیق میں پیسے خرچ ہورہے ہیں بلکہ وہ تو اس لئے مر رہے ہیں کہ بڑے ملکوں کے ذاتی مفادات ہیں۔ ہزاروں ٹن خوراک گندم یا کسی اور شکل میں بڑے ملکوں میں امریکہ ، کینیڈا اور دیگر ویسٹرن ممالک میں سٹوریج میں پڑے پڑے خراب ہوجاتے ہیں اور پھر وہ اسے سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ ہزاروں ٹن دودھ، مکھن اورگھی ہالینڈ میں اور ان ملکوں میں خراب ہوجاتاہے۔ اگر آپ اس کواستعمال کریں تو غریبوں کا پیٹ بھرسکتے ہیں۔ اور پھر جن ملکوں کو آپ غریب کہتے ہیں وہاں اتنا پوٹینشل ہے کہ اگر وہ ایمانداری سے کام کریں تو خود ہی خوراک پیداکرسکتے ہیں۔ پاکستان جہاں سے آپ آئے ہیں ایک غریب ملک ہے لیکن اس کے پاس اتنے زیادہnatural resourcesہیں کہ اگر وہ ایماندار ہوں اورملک کے حکام سوئس بینکوں میں پیسہ لے کر نہ جائیں تو وہ ملک نہ صرف خود غریبوں کو کھلا سکتا ہے بلکہ اور بھی چار غریب ملکوں کو کھلا سکتاہے۔
اس غربت کا جواب یہ نہیں ہے کہ ریسرچ کیوں کررہے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو بڑے لوگ ہیں، سیاستدان ہیں، جن کے ہاتھوں میں حکومتیں ہیں وہ بجائے اس کے کہ باقاعدہ پلاننگ کریں اپنے آپ کو selfish بنا رہے ہیں۔ وہ صرف اُن کو فِیڈ کرتے ہیں جن کے ساتھ ان کے مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ جن کے ساتھ مفادات نہیں ہوتے ان کو وہ فیڈ نہیں کرتے۔ اگر proper planning ہو تو دنیا میں کوئی بھی بھوکا نہیں رہ سکتا۔ ابھی بھی زمین دنیا کی دیکھ لیں۔ اتنی وسیع زمین ہے جو بالکل unutilised ہے۔ اگراس کو استعمال کیاجائے تو میرے نزدیک بلکہ جیساکہ میں نے کہاکہ میں ثابت کرسکتاہوں کہ اگر ایمانداری پیداکریں تو پاکستان کے پاس اتنے sources ہیں کہ اپنے آپ کو فیڈ کرنے کے بعدبھی چار ملکوں کو فیڈ کرسکتاہے۔ اس لئے آپ کا کام ہے کہ خود بھی ایماندار ہوں اور تبلیغ کر کے احمدیت کا پیغام بھی پہنچائیں اور دنیامیں انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں اور قربانی کا جذبہ پیداکریں۔اس طرح سارے لوگ بھوکے مرنا بند ہوجائیں گے۔
…٭…پھر ایک طالبعلم نے سوال کیاکہ جینیٹک تھراپی کی اسلام کس قدر اجازت دیتا ہے۔یہاں جرمنی میں جس وقت جب بچہ پیدا ہوتاہے تو DNA ٹیسٹ کرواسکتے ہیں کہ کس قسم کی بیماریاں ہیں وغیرہ۔ اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ جب بچہ develop ہورہاہو تو ان بیماریوں کا علاج بھی کرلیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس طالبعلم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:اگر وہ علاج کرسکتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ بچہ جب پیدا ہوگا تو وہ صحت مند پیداہوگا۔ اس میں ایک جینیٹک تھراپی ہے اور stem cell تھراپی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر اچھی چیز ہے اور اس سے فائدہ ہورہاہے تو پھر پادری جو مرضی کہتے رہیں۔ اگر ایک انسانی جان بچ رہی ہے اوراس کے بعد ایک فائدہ مند وجود پیدا ہونا ہے تو اس میں حرج کیاہے؟
…٭…اس پر طالبعلم نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ خداتعالیٰ کی قدرت میں دخل اندازی ہے۔
اس کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پھر تو جو بعض epidemic بیماریاں آتی ہیں ان کا علاج بھی نہ کروایا کریں۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ جب بیماریاں آتی ہیں تو میں شفا بھی دیتاہوں۔ تو شفا دینا بھی خداتعالیٰ کی قدرت ہے۔
…٭…پھر طالبعلم نے کہا کہ بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ والدین کہیں گے کہ ہمارے بچے کی آنکھیں نیلی ہونی چاہئیں یا اس کے اندر یہ خواص ہونے چاہئیں۔
اس کے متعلق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس طرح کرنے سے خداتعالیٰ کی مخلوق میں تبدیلیاں کرنے سے آہستہ آہستہ کلوننگ کی طرف چلے جائیں گے۔ اور یہ چیز غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ کر توسکتے ہو لیکن اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ وہ پھر صرف blue eyes تک نہیں رہے گا بلکہ بہت کچھ ہوجائے گا۔ کہیں گے کہ میرے دو کی بجائے تین ہاتھ ہونے چاہئیں۔ ایک ہاتھ کی دس انگلیاں ہونی چاہئیں۔ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے اسی میں خوبصورتی ہے۔ اسی میں حسن ہے اور اسی میں perfection ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں دخل اندازی نقصان دہ ہوتی ہے۔
…٭…پھر ایک طالبعلم نے سوال کیاکہ حضورانور نے فرمایاتھا کہ روحانیت کا تعلق دل سے ہے۔ اور ایک جاپانی سائنسدان کا حوالہ بھی دیا تھا۔ تو کیا اس سارے process کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ہر چیز پہلے کانشش میں جاتی ہے اور پھر وہاں سے دل میں جاتی ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اب تو میں نے ایک اور آرٹیکل بھی پڑھ لیا ہے۔ اب وہ اس طرف آرہے ہیں کہ آرڈرز پہلے دل کو جاتے ہیں اور پھر وہاں سے دماغ کو جاتے ہیں اور پھر body کوجاتے ہیں۔ اب صرف جاپانی نہیں باقی سائنسدان بھی اس طرف ریسرچ کرنے لگ گئے ہیں۔ تو جس طرح آپ کہہ رہے ہیں اس طرح تو دماغ پہلے آگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ وحی دل پر آتی ہے اور پھر دل سے دماغ پر جاتی ہے اور پھر زبان پر یا جسم کے کسی دوسرے حصہ پر اس کا اثر ہوتاہے۔ روحانیت پر ابھی سائنسدان ریسرچ نہیں کرسکتے۔ وہ تو کسی روحانی آدمی سے ہی پوچھا جاسکتاہے۔ اس لئے الہامی کیفیت بہرحال دل کے اوپر پہلے ہوتی ہے۔ یہ ایک حالت ہے، ایک کیفیت ہے جو دل پر طاری ہوتی ہے۔ انبیاء کی حالت کے بارے میں بھی آتاہے ۔ بعض صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی کیفیت کا بھی ذکرکیاہے کہ جب الہامی کیفیت طاری ہوتی تھی تو بالکل مختلف صورت ہو جاتی تھی۔ تو اس وقت جو صورتحال ہوتی ہے وہ اس دنیا کی صورت سے باہر ہوتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بعض ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہاکہ تم ان کے متعلق نہ سوچو تو زیادہ بہترہے۔
…٭…پھر اکنامک کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک خادم نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ ان کو اپنے اس شعبہ میں زیادہ کس فیلڈ کی طرف فوکس کرنا چاہئے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس بات پر زیادہ فوکس کرنا چاہئے کہ interest free بینکنگ کو کس طرح develop کرسکتے ہیں۔ موجودہ فنانشل سسٹم میں interest free بینکنگ کس طرح ہو سکتی ہے۔ دنیا کا بہت بڑا حصہ جن کے ہاتھ میں تجارت ہے اور پیسہ ہے وہ سارے interest کے اوپر چل رہے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: مجھے کسی نے ایک آرٹیکل بھیجاتھا ۔ کسی یورپین کا ہی آرٹیکل تھا اس نے انٹرسٹ فری بینکنگ پر لکھاہے ۔ وہ چھوٹی سی کتاب جو اس نے لکھی ہے وہ انٹرنیٹ پر بھی available ہے۔ اس کے علاوہ جماعت نے بھی ایک رپورٹ تیار کر لی ہے۔ جماعت کے مختلف اکانومی کے ایکسپرٹ اور فنانشل ایکسپرٹ ہیں جنہوں نے یہ رپورٹ تیارکی ہے۔ وہ رپورٹ مجھے مل چکی ہے۔
اسی طرح بعض اسلامی بینک بھی ہیں لیکن وہ بھی sugar-coated ہی ہیں۔ اصل میں وہ بھی انٹرسٹ کے اوپر ہی ہیں۔ لیکن میرے پاس کچھ مواد ہے جو میں نے اپنے احمدی experts سے تیارکروایاہے وہ اگر چاہئے تو میں آپ کو بھیج دوں گا۔
…٭…پھر ایک طالبعلم نے homosexuality کے بارہ میںسوال کیا کہ سائنسدانوں نے ریسرچ کی ہے کہ انسان کے اندر کوئی gene ہے جوانسان کے اندر homosexuality کی وجہ بنتاہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ:اگر کوئی ایسا پیدائشی طورپر تھا بھی تو اس کو legalise کرکے ، قانون کا حصہ بنا کر، اس کی پبلسٹی کرکے اس بے حیائی کو پھیلاناشروع کردیاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں پانچ چھ سال پہلے جب کینیڈا میں گیا تو وہاں میری ان کے پرائم منسٹرصاحب سے بات ہورہی تھی اور اس زمانہ میں انہوں نے پارلیمنٹ میں اس حوالہ سے قانون پاس کیاتھایا کرنے کی کوشش ہورہی تھی۔ اس وقت debate ہو رہی تھی اور سارے اس کی favour میں جارہے تھے۔ ان کو میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مسئلہ کیاہے؟ اگر کوئی ایساچھپاہوا ہے تو اسے چھپا ہوارہنے دیں۔ ضروری تو نہیں کہ اس کی اشتہاربازی کرکے باقیوں کو بھی encourage کیاجائے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کے پاس ڈیٹا موجودہے؟ آپ کے ملک میں کتنے ایسے لوگ ہیں جن کی وجہ سے آپ یہ homosexuality کا قانون پاس کررہے ہیں؟ تو وہاں ان کا سیکرٹری بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق یہاں اس طرح کے کیسز کی تعداد پانچ سو ہے۔ اب پانچ سو کی خاطر قانون پاس کرکے پورے ملک کو اس طرف لگادیاہے اور اس کے بعد سے جس طرح فیشن کی بھیڑچال چلتی ہے اس طرح یہ اب ایک فیشن بھی ہوگیاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تو ہمیں یہ کہتاہے کہ لوط کی قوم میں ایسی باتیں تھیں جو تباہ ہوگئی۔ قرآن شریف میں لکھاہے کہ یہ ایک بے حیائی ہے ۔ اگر تم کسی کو اس بے حیائی میں دیکھو تو اس کو سزادو۔ مذہبی لحاظ سے تو بہرحال یہ ایسی چیز ہے جو اسلام میں منع ہے اور سختی سے منع ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اتنی ناپسند ہے کہ ایک قوم کو بھی تباہ کردیا۔ تویہ لوگ بہت ساری برائیوں میں تو آگے بڑھ رہے ہیں تو اس برائی میں بھی آگے چلتے چلے جائیں گے۔ اوربے حیائی کو ہوادیتے چلے جائیں گے اور اس کو قانونی حیثیت دے دیں گے۔ قانونی حیثیت دے کر پوری قوم اس برائی میں شامل ہورہی ہے ۔ تو پھر قوموں کی تباہی اس طرح ہی آیاکرتی ہے۔ اور اس کا بھی انجام یہی ہوگا۔ وہاں بھی میں نے ان کو بڑا کھل کر کہہ دیاتھا وزیرِ اعظم صاحب کو کہ آپ لوگ اس قانون کو پاس کرکے اپنی قوم کی تباہی نہ کروائیں۔ خیرقوم کی تباہی تو نہیں ہوئی ۔ نیک بھی ہوں گے جو بچے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کی پارٹی سیاست میں سے ایسے غائب ہوئی ہے حالانکہ وہ رولنگ پارٹی (ruling party) تھی کہ اس کو اب کوئی جانتابھی نہیں ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: باقی احمدیوں میں سے اگر کسی کے دل میں ایسے خیالات پیداہوتے ہیں تو اس کو استغفار کرنا چاہئے ۔ اپنے آپ کو اس چیز سے دور کریں۔ اپنے اندر نفرت پیداکریں۔ پھر آہستہ آہستہ دل سے خیالات نکل جاتے ہیں لیکن اگر اس کی طرف توجہ ہی رہے گی تو پھر بہرحال خیالات بڑھتے چلے جائیں گے۔ باقی جو سائنسدان ریسرچ کررہے ہیں، دیکھتے ہیں وہ اس میں سے کیا نکالتے ہیں۔
…٭…اسی طالبعلم نے پوچھاکہ homosexuality کو ایک بیماری کے طور پر بھی کہا جاسکتا ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ اس کو disease کے طور پر نہیں کہہ سکتے۔ شاید اِکّا دُکّا کسی میں بیماری کے طور پر بھی ہو ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ایسی چیز ہے کہ میں اس کی وجہ سے قوموں کو تباہ کردیتا ہوں تو یہ بیماری تو نہیں ہے۔ یہ خود ماحول کی پیداکردہ چیز ہے۔ بعض لوگ اس مخصوص ماحول میں رہتے ہیں کہ نفسیاتی اثر ایسا پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک دوسرے کی طرف attractionپیدا ہوجاتی ہے۔ یہ نفسیاتی اثر ہے۔ لیکن جب اس کو آپ قومی characterبنالیتے ہیں تو وہی چیز تباہی لے آتی ہے۔
…٭…پھر ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ وہ سیاسی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے متعلق حضورانور کیاخیال ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ملک میں جو نظام چل رہاہے وہ democraticنظام ہے اور اس میں پولیٹیکل پارٹیز ہیں۔ اب ہر پارٹی کا ایک manifesto ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی پارٹی کوچلاتے ہیں اور لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں ۔ اگر کسی کو پسند آتا ہے وہ manifesto تو وہ ملک کی خدمت کیلئے، انسانیت کی خدمت کے لئے اچھی چیز ہے۔ تو انفرادی طور پر اگر آپ اس میں شامل ہوجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ جماعت احمدیہ ایک پارٹی کوسپورٹ کرلے تویہ نہیں ہوتا اور نہ ہوگا کبھی۔ ہر ایک شہری ہونے کی حیثیت سے اپنی اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دے سکتاہے۔ لیکن ایک احمدی کو یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ ہر اس شخص کو ووٹ دیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو جو پڑھا لکھا ہے،broad-minded ہے، ملک کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس کی بیک گراؤنڈ اس لحاظ سے اچھی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو فائدہ دے گا۔ اس کے اپنے خیالات اچھے ہیں کہ آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں اور اپنے ملک کے علاوہ مجموعی طور پر انسانیت کیلئے فائدہ مند ہے ۔ دنیا کے امن کیلئے فائدہ مند ہے، غریب ملکوں کی امداد کیلئے فائدہ مند ہے تو ایسے لوگوں سے تعلق بڑھانے چاہئیں اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور ان کو ووٹ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ ہرایک کا اپنا انفرادی فعل ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: بیس، پچیس آدمی ایک شہر میں رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں وہاں پارٹی کا فلاں ممبر جماعت کیلئے بھی اور ملک کیلئے ، دنیاکیلئے بھی اور انسانیت کیلئے بھی فائدہ مند ہے یا اس پارٹی کا منشور فائدہ مند ہے تو اس کو اکٹھے بھی ووٹ دے سکتے ہیں لیکن کسی کو کوئی پابند نہیں کیاجاسکتا کہ ضرورتم نے فلاں جگہ جاناہے یانہیں جانا۔ تو آپ اگر کسی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو بے شک ہوں۔ اچھی بات ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: افریقہ میں اور بالخصوص غانا میں کیونکہ وہاں احمدیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، وہاں دو تین پارٹیاں ہیں اور ہمارے احمدی اپنی پسند کے لحاظ سے مختلف پارٹیوں میں شامل ہیں اور وہ لوگ اس لیول کے ہیں کہ ان میں سے ممبر آف پارلیمنٹ تو بنتے ہی ہیں لیکن وہ منسٹرز بھی بن جاتے ہیں ۔ ایک گورنمنٹ آتی ہے تو اس میں بھی ہمارے احمدی منسٹرز ہوتے ہیں ، دوسری گورنمنٹ آتی ہے تو اس میں ہمارے احمدی ہوتے ہیں۔ لیکن یہی لوگ جب مسجد میں آتے ہیں تو وہاں پولیٹیکل rivalry نہیں چل رہی ہوتی بلکہ وہ ایک احمدی ہوتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں