نیند
امریکہ کے ماہر علم الابدان کلائٹ مین کا کہنا ہے کہ نیند انسانی نشو و نما کے اولین دور کی حالت کا نام ہے۔ یہ انسانی حیات و بقا کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے چنانچہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جو جانور بیس بیس دن بغیر کھائے پیئے گزارہ کر لیتے ہیں وہ صرف چار پانچ دن کی بے خوابی کے باعث ہی لقمہ اجل بن گئے۔ انسان کیلئے بھی ممکن ہے کہ وہ چھ ہفتے کی فاقہ کشی برداشت کرلے لیکن اگر اسے مسلسل دس دن بیدار رہنا پڑے تو وہ شائد ہی زندہ رہ سکے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍فروری1998ء میں، مکرم چودھری رشید احمد جاوید صاحب کا ترجمہ کردہ، یہ مضمون ماہنامہ خالد کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
اگر آپ بغیر الارم کے صحیح وقت پر صبح بیدار ہو جاتے ہیں اور بوقت بیداری چاق و چوبند رہتے ہیں تو آپ کی نیند تسلی بخش ہے۔ تاہم دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد چند منٹ کے لئے سستالینا بہت فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ اگر کبھی ایک ہفتہ آپ معمول سے ایک دو گھنٹہ کم سوتے رہے ہیں تو تلافی مافات کے طور پر ایک صبح دیر تک سونے سے یہ قرضہ اتارا جاسکتا ہے۔
نیند کا دورانیہ عمر کے ساتھ نسبت رکھتا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے نیند کی حاجت کم ہوتی جاتی ہے حتی کہ بالکل پیرانہ سالی میں انسان بہت ہی کم سوتا ہے۔ نوزائیدہ بچے دن کا دو تہائی وقت سونے میں گزارتے ہیں۔ 6 سالہ بچے کی نیند قریباً گیارہ گھنٹے اور 10 سالہ کی دس گھنٹے ہوتی ہے جبکہ 15 سال میں نو اور 20 سال میں سوا آٹھ گھنٹے رہ جاتی ہے۔ بیدار ہونے کے بعد سستانا اچھی عادت نہیں ہے اس سے سستی پیدا ہوتی ہے۔
چند افراد میں کافی، چائے اور کولا میں شامل کیفین نیند پر اثرانداز ہوتی ہے جبکہ اکثر کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بعض حالات میں خواب نیند پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اکثر غم و تفکر نیند اڑادینے کا باعث بنتا ہے۔
ڈاکٹر میکڈانل کا خیال ہے کہ پہلو کے بل سونا بہت مفید ہے۔ اگر کمر یا سینہ کے بل سویا جائے تو جوڑوں میں تناؤ پیدا ہونے اور بعد ازاں مستقل درد پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ کمر کے بل سونے سے ایڑیوں کی نسیں پھیل کر کمر میں تناؤ پیدا کردیتی ہیں۔ سینہ کے رُخ پر لیٹنے والے کو گردن موڑ کر سر کو پہلو کے رُ خ پر کرنا پڑتا ہے۔ خوابگاہ کا موزوں ترین درجہ حرارت 55 درجہ فارن ہیٹ ہے۔ کم روشنی اور کم شور بھی اچھی نیند لاتے ہیں۔
نیند سے اچانک بیداری درست نہیں۔ الارم کی آواز اگر مدہم اور لمبی ہو تو وہ زیادہ موزوں ہے۔