نینواہ (NINVEH)
مشہور ماہر آثار قدیمہ ہنری لیئرڈ نے 1839ء اور 1840ء کے سالوں میں موصل (عراق) کے گرد و نواح میں قدیم آشوری (Assyrian) تہذیب کے کھنڈرات پر کام کیا تھا۔ آپ نے دو سالوں میں اتنے وسیع پیمانے پر نئی دریافتیں کیں کہ گویا یہ تباہ شدہ بستیاں دوبارہ پلٹ آئی ہوں۔ نینواہ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍فروری 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔
شمالی میسوپوٹیمیا میں آباد آشور کی تہذیب، قدیم تاریخ میں ایک مقام رکھتی ہے۔ تیرہویں صدی قبل مسیح سے ساتویں صدی عیسوی تک یہ مملکت اپنے علاقے کی ایک مضبوط طاقت تھی جس کی سرحدیں مسلسل فتوحات سے بحیرہ روم سے مصر تک اور خلیج فارس سے بابل تک پھیلی ہوئی تھیں اور اس کے بادشاہ اسرائیل سے خراج وصول کرتے تھے۔ اس وسیع سلطنت کا دارالحکومت اکثر نینواہ کا شہر رہا جو اپنی ترقی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ بائبل کے مطابق شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرنے میں تین دن لگ جاتے تھے۔ (اگرچہ محقّقین کے نزدیک بائبل کا یہ دعویٰ غلط ہے یا پھر مبہم ہے)۔ حضرت یونس علیہ السلام اسی شہر کی طرف مبعوث ہوئے۔ حضرت یونسؑ سے عذاب کی پیشگوئی سن کر اگرچہ اس شہر کے باسیوں نے تمسخر کا انداز اختیار کیا لیکن حضرت یونسؑ کی ہجرت کے بعد جب عذاب کے آثار دیکھے تو توبہ کرلی اور خدا تعالیٰ نے عذاب روک لیا۔ اس شہر کی آبادی بائبل میں یوں بیان کی گئی ہے ’’جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے بائیں اور داہنے ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے‘‘ (یوناہ باب 4)۔ بالعموم حضرت یونس کی بعثت نویں صدی قبل مسیح میں سمجھی جاتی ہے۔
مقامی لوگوں کی سینہ بسینہ منتقل ہونے والی روایات کے مطابق نینواہ کا شہر موصل کے بالکل قریب واقع تھا۔ اس مقام پر موجود دو ٹیلوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے نیچے نینواہ کے کھنڈرات موجود ہیں۔ ایک بنی یونس کا ٹیلہ کہلاتا تھا جبکہ دوسرا کوینجک (Kouyunjik)۔ لیئرڈ نے کوینجک کے مقام پر کھدائی کا کام شروع کیا۔ کئی دن کی کھدائی کے بعد یہ معلوم ہوگیا کہ اس عمارت کو نذرآتش کیا گیا تھا۔ عمارت کی طرز تعمیر باقی کھنڈرات کی طرح تھی یعنی کچی اینٹوں کی دیواریں اٹھانے کے بعد اوپر پتھر کی سلیں نصب کی گئی تھیں جن پر مختلف تاریخی مناظر کندہ تھے یعنی جنگ، آشور کی فتح اور لوٹ مار اور قتل و غارت کے مناظر، اور قدیم رسم الخط Cunelfor میں تحریر بھی موجود تھی۔ مستطیل کمرے کے صدر دروازے کے دونوں طرف ایسے بیل کے مجسّمے دریافت ہوئے جس کا سر انسان کا تھا اور دھڑ پر دو بڑے بڑے پر لگے ہوئے تھے۔کُل نو بڑے کمرے دریافت ہوئے۔… پھر برٹش میوزیم کی فراہم کردہ مالی امداد ختم ہوگئی اور کھنڈرات سے دریافت ہونے والے مجسّمے اور تصاویر برطانیہ بھجوانے کے لئے بصرہ پہنچا دیئے گئے۔ یہ علاقہ اس وقت ترکوں کے ماتحت تھا جن کے گورنر کو ان دریافتوں کے برطانیہ بھجوانے پر کوئی اعتراض نہ ہوا لیکن اُسے صرف اس بات سے دلچسپی تھی کہ کوئی سونے کی چیز ملی ہے یا نہیں۔
بنی یونس کے ٹیلہ کی کھدائی وسیع طرز پر ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ اس پر لوگ آباد تھے۔ تاہم یہاں سب سے زیادہ منفرد دریافت ایک وسیع لائبریری کی تھی جس میں موجود مٹی کی چھوٹی بڑی بائیس ہزارتختیوں پر مختلف موضوعات میں تحریریں موجود تھیں۔ بیشتر تحریروں کا تعلق ساتویں صدی قبل مسیح میں ایک بادشاہ آشربنی پال کے عہد سے تھا۔ اس لائبریری سے آشور اور نینواہ کے متعلق وسیع معلومات حاصل ہوئیں۔ ان تختیوں کا پڑھنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ اکثر تختیوں میں جنگوں میں آشوری فوجوں کی اذیت پسندی اور بے رحمی کو دکھایا گیا ہے۔ بارہ تختیوں پر بہت بڑے عالمی طوفان کی کہانی درج ہے۔ مذہباً آشور کے لوگ ہر قسم کے شرک میں مبتلا تھے۔ تحریروں میں ملنے والے توہماتی عقائد سے معلوم ہوتا ہے کہ نینواہ کے لوگ توحید کی نعمت پانے کے بعد زیادہ دیر تک اس پر قائم نہیںرہ سکے تھے۔
نینواہ کے اردگرد کچی اینٹوں کی بہت بلند اور بہت چوڑی فصیل تھی جس پر کئی گیٹ نصب تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہر کا بڑا حصہ فصیل کے اندر واقع تھا چنانچہ جب دشمن کی فوجوں نے نینواہ کا طویل عرصہ تک محاصرہ کئے رکھا تو شہر ان سے محفوظ رہا۔ فصیل کا کُل محیط آٹھ میل سے بھی کم ہے۔ گویا اس کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک جانے کے لئے محض چند گھنٹے درکار ہیں۔
ایک وقت ایسا آیا کہ آشور کی سلطنت اپنے ظلم و ستم کے باعث ایسے مرحلہ پر پہنچ گئی کہ اس میں بسنے والے زیادہ تر محکوم تھے نہ کہ ہموطن اور اس کی سرحدوں پر خائف ہمسائے تھے نہ کہ اتحادی۔ ایسے میں بائبل کے پرانے عہدنامہ میں درج یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ: ’’اور اسور کو نیست کرے گا اور نینواہ کو ویران اور بیابان کی مانند خشک کردے گا اور جنگلی جانور اس میں لیٹیں گے … یہ وہ شادمان شہر ہے جو بے فکر تھا۔ جس نے دل میں کہا کہ میں ہوں اور میرے سوا دوسرا کوئی نہیں … اس سرکش و ناپاک و ظالم شہر پر افسوس‘‘۔ (صفنیاہ باب2،3)۔
آخر ساتویں صدی قبل مسیح میں بابل اور مَید کے بادشاہوں نے مشترکہ طور پر نینواہ پر حملہ کیا اور ایک طویل محاصرہ کے بعد شہر فتح کرلیا۔ پورا شہر نذر آتش کردیا گیا اور اس قوم کی فوجی قوت اور شان و شوکت کی صف ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی گئی۔