وادیٔ کشمیرمیں احمدیت
ماہنامہ ’’النور‘‘ جون و جولائی 2010ء میں مکرم عبدالرحمن فیاض صاحب کے قلم سے ایک تاریخی مضمون شائع ہوا ہے جس میں وادیٔ کشمیرمیں احمدیت کے آغاز کے متعلق بعض معلومات پیش کی گئی ہیں۔
ضلع اننت ناک (اسلام آباد) سرینگر سے 60کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اور اب تین اضلاع (کو لگام، شوپیان اور پلواما) میں تقسیم ہوچکا ہے۔ تینوں ضلعوں میں پرانی اور بڑی جماعتیں قائم ہیں۔ وادیٔ کشمیر کی بعض دیگر بڑی جماعتیں یہ ہیں۔
آسنورضلع کولگام
ہمالیہ کے دامن میں واقع آسنور میں حضرت حاجی خواجہ عمرڈار صاحبؓ (جن کا یادگار کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے) کو سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ کے حُسنِ اخلاق اور بلند کردار سے جلد ہی مضبوط جماعت یہاں قائم ہوگئی۔ آپؓ ایک دیانتدار تاجر تھے۔ جب آپؓ پہلی بار قادیان سے واپس آئے تو اپنے تجارتی شرکت دار کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے بارہ میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے بیعت کرلی ہو تو میری طرف سے ابھی بیعت کا خط لکھ دیں۔ جب کسی نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے بغیر تحقیق کئے کیسے بیعت کرلی تو وہ کہنے لگے کہ ’عمرڈار نے تجارت میں مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا تو مذہب میں میرے ساتھ کس طرح دھوکا کرے گا!‘۔
آسنور چھوٹے قادیان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ یہاں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ماہ قیام رہا تھا۔ یہاں ایک مرکزی اور چار چھوٹی مساجد ہیں نیز وسیع رقبہ پرایک ہائی سکول بھی قائم ہے۔
ریشی نگرضلع شوپیان
دریا ویثو کے کنارے پر یہ گاؤں صدیوں سے آباد ہے۔ یہ پوری بستی ﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدی ہے۔ 1979 ء میں بعض شرپسند عناصر نے اس ساری بستی کو دن دیہاڑے جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ مظلوم احمدیوں نے لاکھوں کروڑوں کی جائیدادیں نذرِ آتش کروالیں لیکن کسی ایک فرد نے ایمانی کمزوری نہ دکھائی۔ تمام افراد تن کے کپڑوں کے سوا ہر چیز سے محروم کردیئے گئے۔ حتّی کہ ان کے پالتو جانور بھی آگ سے ڈر کر بھاگ گئے۔ لیکنآج اس گاؤں میں ﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہر گھر پہلے سے بڑھ کرآسودہ نظر آتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں جماعت کا ایک سکول ہے۔ ایک مرکزی مسجد اور مہمان خانہ کے علاوہ دیگر مساجد بھی ہیں۔
یاری پورہ ضلع کولگام
یاری پورہ قصبہ اپنے علاقہ میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے حضرت راجا عطاء محمد خان صاحبؓ اپنے اخلاص اور تقویٰ میں مشہور تھے جنہیں حضرت مسیح موعودؑنے اپنی طرف سے بیعت لینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہوئی تھی۔
یہاں ایک وسیع رقبہ پر جماعت کا ایک ہائی سکول ہے۔ جس کے ساتھ مسجد نور تعمیر کی گئی ہے۔
یاری پورہ سے ایک کلومیٹر دُور مٹی بوگ گاؤں سے قدرتی چشموں کا پانی واٹر سپلائی محکمہ کے ذریعہ یاری پورہ کی بستی میں پینے کیلئے نلکوں کے ذریعہ تقسیم ہوتا ہے۔ ان چشموں میں ایک چشمہ ’’چشمۂ محمود ‘‘کے نام سے جاری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دورہ کشمیر کے وقت اس چشمہ سے پانی پیا تھا۔
یاری پورہ میں غیرمبائعین کی ایک جماعت بھی قائم ہوئی جن کی اپنی ایک مسجد بھی تھی۔ نیز سرینگر میں بھی ان کی ایک چھوٹی جماعت قائم تھی۔ جموں ریجن میں بمقام عہدہ بھدر واہ چند گھرانے اس جماعت سے وابستہ تھے۔ خلافت کی برکتوں سے محروم یہ جماعت دن بدن گھٹتی اوربکھرتی گئی۔اور آج یاری پورہ میں ان کی مسجد بھی غیر از جماعت کے قبضہ میں ہے۔
اس وقت صرف وادیٔ کشمیر میں 25 احمدی جماعتیں قائم ہیں۔
چک خانصاحب ضلع کولگا م
جماعت احمدیہ چک خانصاحب ایک پرانی اور مضبوط جماعت ہے۔ لوگ پڑھے لکھے اور مہذّب ہیں۔ سرکاری نوکریوں کے علاوہ تجارت اور کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کے نوجوان لڑکے ملٹری اور پولیس میں ملازم ہیں۔ یہاں جماعت کی ایک مرکزی مسجد ہے۔ نیز مہمان خانہ اور دیگر مساجد بھی ہیں۔
ناصرآباد ضلع کولگام
یہ بڑا گاؤں کو لگام سے صرف2 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ لوگ تجارت اور ملازمت کے علاوہ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ یہاں چاول کی کثرت سے پیداوار ہوتی ہے۔ اس گاؤں کا نام پہلے کئی پورہ (یعنی پتھروں کی جگہ ) تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے نام نامی کی مناسبت سے ناصر آباد رکھا گیا۔ اس گاؤں کی ساری بستی اﷲتعالیٰ کے فضل سے احمدی ہے۔ یہاں جماعت کا ایک سیکنڈری سکول ہے۔ایک نوتعمیر شدہ مرکزی مسجد اور دو دیگر مساجد ہیں۔
سرینگر
جموں کشمیر گورنمنٹ کا گرمائی (اپریل سے ستمبر تک) دارالحکومت سرینگر میں بہت پرانی اور مضبوط جماعت تھی۔ یہیں سے اخبار ’’اصلاح‘‘ بھی شائع ہوتا تھا۔ 1947ء میں یہاں کے احمدیوں کی اکثریت ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی اور اخبار کی اشاعت بھی بند ہوگئی۔ بعد ازاں جماعت پھر مضبوط قدموں پر کھڑی ہوگئی۔ سرینگر کی حیثیت کی وجہ سے دیگر علاقوں سے بھی کئی احمدی نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوئے۔
یہاں لوکل جماعت کے علاوہ وادی کے مختلف دیہات یہاں مرکزی مسجد ایک اہم مقام پر واقع ہے۔ جس کے وسیع رقبہ میں مرکزی مبلغین کیلئے رہائشی کوارٹرز اور سرینگر آنے والے لوکل احمدی احباب اور بیرون ریاست سے آنے والے مہمانوں کے لئے بھی کوارٹرز بنائے گئے ہیں۔
کاٹھ پورہ (یاری پورہ)
کاٹھ پورہ کی جماعت پانچ بھائیوں کے خاندانوں پر ہی مشتمل ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ابتدائی دورِ خلافت میں یہاں کے ایک رئیس محترم محمد میر بیعت کرکے احمدی ہوئے۔ ان کے دونوں بیٹے بھی احمدی ہوگئے۔ ایک بیٹے محترم میر غلام رسول صاحب نے خواب کے ذریعہ ہدایت پائی (جس کا ذکر بشاراتِ رحمانیہ میں ہے)۔ اُن کی شادی آسنور میں حضرت غلام احمد لون صاحب کی بیٹی تاجہ بیگم صاحبہ کے ساتھ 1924 ء میں ہوئی جو اُس زمانہ میں میٹرک پاس تھیں اور محکمہ تعلیم میں ہیڈمسٹریس تھیں۔ وہ موصیہ تھیں اور انہوں نے اپنا سارا زیور مسجد برلن کی تحریک میں دے دیا تھا۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی اور انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی غلام محمد لون کی پرورش کی تھی۔
محترم محمدمیر صاحب ایمانی جرأت رکھنے والے ایک مخلص احمدی تھے۔ غالباً1951 ء میں احمدیہ مسجد یاری پورہ کے بالمقابل قائم غیرازجماعت کی مسجد میں ایک مخالف مولوی غلام حسن شاہ خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں بدزبانی کیا کرتے تھے۔ وہ اپنی عمر کے آخری ایّام میں سخت بیمار ہوئے اور بستر کے ہی ہو کر رہ گئے۔ جس کی وجہ سے بستر اور کمرہ بدبُو سے بھرا رہتا تھا۔ اس پر محمدمیرصاحب اس مولوی کے گھر پہنچے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر اونچی آواز سے کہا: غلام حسن شاہ! میں تمہاری عیادت کرنے نہیں آیا ہوں۔ نِیں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ تم نے اپنی ساری عمر حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف گندی گالیوں میں ضائع کردی جس کا نتیجہ تم دیکھ رہے ہو کہ تم جو جھوٹا گندا الزام حضرت مسیح موعودؑ کے نام لگا رہے تھے آج اُس گندے الزام کا عذاب تمہیں یہاں بستر پر مل رہا ہے اور اس سے کئی گُنا زیادہ آخرت میں ملے گا۔…
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار چودہ سال کا تھا تو 1952ء سے لے کر1960 ء تک مرکز قادیان کے دفاتر میں خدمت سلسلہ کی توفیق پائی۔ اور وصیت کے نظام میں بھی اس وقت سے شامل ہوں۔ میرے والد محترم غلام محمد لون صاحب اُنیس سال تک جماعت احمدیہ یاری پورہ میں نائب سیکریٹری مال رہے۔ آپ نے 1954ء سے 1994 ء تک بلاناغہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی توفیق پائی۔ آپ کا جوان بیٹا محمد اقبال (جوجی) دسمبر 1988ء میں کار کے حادثہ میں وفات پاگیا۔ اُس وقت بھی آپ یہ کہتے ہوئے جلسہ پر جانے کی تیاری میں لگ گئے کہ میرا بیٹا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، مَیں جلسہ سالانہ کی برکات کیوں چھوڑ دوں۔ آپ کی وفات 27 جون 1995ء کو ہوئی۔ کشمیر میں ملٹری کا دَور چل رہا تھا اس لئے آپ کو آپ کے باغ میں امانتًا دفن کرنا پڑا۔ 27دسمبر 2007ء کو بارہ سال بعد آپ کی قبرکشائی کی گئی تو تابوت ایسی حالت میں تھا جیسے ایک ہفتہ پہلے دفن کیا ہو۔ 28دسمبر 2007ء کو جلسہ گاہ قادیان میں ہزاروں افراد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور بہشتی مقبرہ میں دفن کردیا گیا۔