’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘۔ پیشگوئی مصلح موعود
تقسیم ہند کے وقت مرکز سلسلہ قادیان سے احمدی آبادی کا انخلا اور پھر نوزائیدہ مملکت پاکستان میں ان کی مناسب آبادکاری کا عظیم کام، نئے مرکز ربوہ کا قیام، ویرانے کو شہر میں بدل ڈالنے کا عزم اور تبلیغ و اشاعت کا کام پہلے سے بڑھ کر کرتے چلے جانا … یہ سب اس پُرآشوب دَور میں حضرت مصلح موعودؓ کے عہد آفریں فیصلوں اور ان کے بسرعت نفاذ، اور جانثاران خلافت کے اپنے اولوالعزم امام کے جلو میں جلد جلد بڑھتے چلے جانے کی ناقابل فراموش داستان ہے۔
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا فروری 1999ء میں مکرم ڈاکٹر سلیم الرحمان صاحب ’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر لاہور میں حضور کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہوکر حضرت مصلح موعودؓ نے جو انقلاب آفریں عہدکیا تھا۔ اُسے 1947ء میں آپؓ نے لاہور میں ہی اُس وقت دوہرایا جب آپؓ کو قادیان سے جدائی اختیار کرنا پڑی۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہوکر یہ عزم کیا تھا کہ:
’’اگر ساری ہی جماعت مرتد ہو جائے، تب بھی میں اس صداقت کو نہیں چھوڑوں گا جو حضرت مسیح موعودـ علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے اور اس وقت تک تبلیغ جاری رکھوں گا جب تک وہ صداقت دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی… لاہور ہی تھا جس میں مَیں نے وہ عہد کیا تھا… اسی لاہور میں اور ویسے ہی تاریک حالات میں، مَیں اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ جماعت کو کوئی بھی دھچکا لگے، مَیں اس کے فضل اور اس کے احسان سے کسی اپنے صدمے یا اپنے دکھ کو اس کام میں حائل نہیں ہونے دوں گا بفضلہٖ تعالیٰ و بتوفیقہٖ و بنصرہٖ جو خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کو قائم کرنے کا میرے سپرد کیا ہے‘‘۔
قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی جب قتل و غارت کا بازار گرم ہونے لگا تو حضورؓ نے پہلے جماعت کا مرکزی خزانہ بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان منتقل کردیا اور پھر حضرت ام المومنین اور خواتین مبارکہ کو بسوں کے ذریعہ لاہور بھجوا دیا۔ 31؍اگست 1947ء کو بعض صائب الرائے افراد کے مشورہ پر حضرت مصلح موعودؓ قادیان سے سوا دو بجے روانہ ہوکر سہ پہر ساڑھے چار بجے لاہور پہنچ گئے۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’یہاں پہنچ کر مَیں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں، بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے‘‘۔
لاہور پہنچنے کے اگلے ہی روز حضورؓ نے جودھامل بلڈنگ میں ایک فوری میٹنگ طلب فرماکر ’’صدر انجمن احمدیہ پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی اور حسابات کی نگرانی اور غیرمسلم آبادی کی متروکہ جائیدادوں کو قانوناً حاصل کرنے کی فوری ہدایات دیں۔ اس کے بعد روزانہ دس بجے سے بارہ بجے دوپہر تک صدرانجمن احمدیہ کا اجلاس ہونے لگا۔ حضورؓ کی آمد کے اگلے ہی روز سے لنگرخانہ بھی کام کرنے لگا۔ ابتدائی مہینوں میں اشیاء پرمٹ پر ملا کرتی تھیں اور لنگر سے روزانہ چار سو افراد کھانا کھاتے تھے۔ ایک سال بعد ستمبر 1948ء میں یہ تعداد کم ہوکر تین سو روزانہ ہوگئی۔
7؍ستمبر کو پہلی مجلس شوریٰ کا انعقاد لاہور میں ہوا جس میں حضورؓ نے پانچ گھنٹے تک خطاب فرمایا۔ اس مجلس شوریٰ میں پاکستان میں نیا مرکز ڈھونڈنے، قادیان سے عورتوں اور بچوں کے انخلاء اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے بارہ میں اہم فیصلے کئے گئے۔ مکرم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کو ناظر انخلاء آبادی مقرر کیا گیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ چندے نہیں آ رہے تھے اس لئے حضورؓ نے اخراجات چلانے کے لئے بعض اقدامات کی طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب کو ایک دکان کھلوادی گئی ااور وہ کافی عرصہ یہ کام کرتے رہے۔ اسی طرح مَیں بھی مالٹوں کا ٹرک بھر کر روزانہ واہگہ بارڈر پر جاتا اور اس سے جو آمد ہوتی اس کی رپورٹ حضورؓ کو دیتا۔
جلد ہی حضورؓ کے حکم پر لاہور ریڈیواسٹیشن سے روزانہ شام سوا آٹھ بجے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور قادیان کے حالات کے بارہ میں تازہ صورتحال پیش کرنے لگے۔ نیز ایک روزانہ بلیٹن کی اشاعت بھی شروع کردی گئی۔
13؍ ستمبر سے بذریعہ ہوائی ڈاک انگلستان کے احمدیہ مشن کو اطلاعات بھجوانے کی ہدایت حضورؓ نے دی تاکہ وہاں سے تمام ممالک کے سفیروں کو مطلع کرکے احمدیوں کی مشکلات کے ازالہ کی کوششیں کی جاسکیں۔
15؍ستمبر سے پاکستان سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ کی اشاعت کا کام شروع ہوا۔ اکثر اداریے حضرت مصلح موعودؓ کے تحریر کردہ ہوتے تھے گو مصلحتاً ان پر آپؓ کا نام نہیں ہوتا تھا۔
12؍ستمبر کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے جماعت سے دو سو ٹرکوں کی فراہمی کا مطالبہ فرمایا تاکہ قادیان سے احمدی اور غیراحمدی عورتوں اور بچوں کو بحفاظت نکالنے کا کام کیا جاسکے۔ جماعت نے فوری طور پر حضور کی اس تحریک پر لبیک کہا۔
اسی اثناء میں حضورؓ کو جب فتح پور چوڑیاں کے مسلمانوں کے محاصرہ میں آنے کی خبر ملی اور معلوم ہوا کہ وہ لوگ خوراک کی قلّت کے باعث موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں تو حضورؓ کے ارشاد پر ایک ہوائی جہاز کے ذریعہ پناہ گزینوں کو خوراک پہنچائی گئی اور اخبار ’’انقلاب‘‘ نے یہ خبر ’’پناہ گزینوں پر روٹیوں کی بارش‘‘ اور ’’احمدی طیارے کا کارنامہ‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔
20؍ستمبر 1947ء کو احمدی افراد کی ساری امانتیں بحفاظت پاکستان منتقل کردی گئیں۔ حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں یہ معرکہ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ نے سرانجام دیا۔
جلد ہی نور ہسپتال کا از سرِ نَو اجراء بھی ہوگیا اور حضورؓ کی ہدایت پر 2؍اکتوبر سے کارکنان کی ورزش جسمانی کا انتظام بھی محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے زیر انتظام رتن باغ میں ہونے لگا۔
اس عرصہ میں حضورؓ نے نہایت قیمتی ارشادات فرمائے جن میں سے بعض یہ ہیں:-
٭ ’’ہر مبلغ جو اخبار لیتا ہے اس کا فرض ہے کہ اہم مضامین کے کٹنگ وہ (یہاں) بھیجے‘‘۔
٭ ’’ایک چیز ہے جس پر اگر زور ہو تو میرا خیال ہے کہ جماعت تباہی سے بچ جائے گی، وہ نماز باجماعت کی ادائیگی ہے۔ اس سے وقت کی پابندی لازم ہوگی اور پھر اس سے ہر کام بروقت ہوگا‘‘۔
٭ ’’شام والوں کو لکھا جائے کہ کبابیر والوں کو کسی نہ کسی طرح اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں، صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کبابیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں‘‘۔
٭ ’’کارکنان کو رخصت رعایتی جبراً دی جایا کرے تاکہ دماغ تازہ ہو جایا کرے‘‘۔
نومبر 1947ء کے وسط میں دونوں ادارے جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ لاہور میں جاری کردیئے گئے۔
یکم دسمبر 1947ء سے 17؍جنوری 1948ء تک مختلف اوقات میں حضورؓ نے لیکچروں کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں پاکستان کے مستقبل کے حوالہ سے نہایت اہم ہدایات دیں۔ ان لیکچروں کی صدارت کرنے والوں میں جسٹس محمد منیر، سر فیروز خان نون، میاں سر فضل حسین، شیخ سر عبدالقادر وغیرہ شامل تھے۔ سر فیروز خان نون نے کہا ’’حضرت صاحبؓ کے دماغ کے اندر علم کا ایک سمندر موجز ن ہے۔ انہوں نے تھوڑے وقت میں ہمیں بہت کچھ بتایا ہے‘‘۔
اپنے تیسرے لیکچر میں حضورؓ نے فرمایا تھا: ’’مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ اس سلسلہ میں مشرقی پاکستان پر زور نہ دیا جائے کہ وہ ضروری اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے ورنہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائے گا کیونکہ وہاں کے باشندوں کو بنگالی زبان سے ایک قسم کا عشق ہے‘‘۔ وائے افسوس کے ناخدایان ملت نے اس نابغہ روزگار وجود کی بصیرت افروز رہنمائی سے اپنی راہ عمل کے چراغ روشن نہیں کئے۔