وہ نابغہ روزگارشخص – محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب
پروفیسر لالہ ایش کمار انگریزی کے استاد تھے اور آپکے شاگردوں میں ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل تھے۔ آپ کا بیان ہے کہ دہلی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالسلام کے اعزاز میں نوبل پرائز حاصل کرنے کے بعد ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں وزیراعظم بھارت نے بھی شرکت کی، دو تین ہزار سامعین میں وزیروں ،سفیروں اور امیروں کی صف کے بعد یہ بوڑھا افتاں و خیزاں اپنے شاگرد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے استاد کو پہچان لیا۔ وہ ڈائس سے اتر کر سرخ قالین پر چل پڑے اور اس روز لوگوں نے دیکھا کہ ایک شاگرد نے اپنے ایک غیرمعروف استاد کو وزیر اعظم کے ساتھ کرسی پر لا بٹھایا۔
مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا نے اپنے مجلہ ’’النداء‘‘ کا جنوری تاجون 1997ء کا شمارہ ’’ڈاکٹر عبدالسلام نمبر‘‘ کے طور پر شائع کیا ہے جو اردو اور انگریزی کے یک صد سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور متعدد مضامین، سوانحی خاکوں اور تصاویر سے مزین ہے۔ یہ رسالہ زیادہ تعداد میں شائع کروایا گیا ہے تاکہ داعیین الی اللہ اس سے استفادہ کرسکیں۔ ضرورتمند احباب و مجالس رابطہ کرکے مطلوبہ تعداد میں اس رسالہ کی کاپیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
1971ء میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں اول آنے والے مکرم مرزا منور احمد صاحب نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سمیت کئی اہم جگہوں پر خدمات سرانجام دیں۔ 1974ء کے بعد احمدی ہونے کی بنا پر آپکے خلاف نہایت مکروہ منصوبے بنائے گئے۔ چنانچہ 1976ء میں جب محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پاکستان تشریف لائے تو مکرم مرزا صاحب نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی لمبی کہانی بیان کرکے مشورہ چاہا کہ ’’ان حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ میں یہ محکمہ چھوڑ کر کسی اور ملک میں چلا جاؤں؟‘‘۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے جواباً فرمایا کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، چند روزہ کرسی اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکر زمین پر متکبر بن کر چلنے اور خوفِ خدا بھول کر خدا کی مخلوق کو دکھ دینے والے بالآخر ایک روز اپنے انجام کو ضرور پہنچ جاتے ہیں… ابھی اس ملک کو تمہاری ضرورت ہے۔ اگر تم حوصلہ ہار کر چلے گئے تو ملک نے تمہارے ذمہ جو اہم پراجیکٹ لگایا ہے اس کو کون پایہ تکمیل تک پہنچائے گا؟…۔
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے قائم کردہ انٹرنیشنل سینٹر برائے تھیوریٹیکل فزکس سے ہر سال ھزاروں سائنسدان مستفید ہوتے ہیں مثلاً صرف 1988ء میں 4691 سائنسدان وہاں آئے۔ 1989ء سے 1991ء تک اس ادارے کی ایک لیبارٹری میں مکرم ڈاکٹر انوار احمد شمیم صاحب کو بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب سے پہلی دفعہ ملاقات کرنے سے پہلے بہت جھجک تھی کہ اتنی شہرت، عزت اور مقام کا شخص جانے کیسا سخت گیر اور متکبر ہو لیکن ڈاکٹر صاحب کو بے حد ملنسار، خوش مزاج اور سادہ طبع پایا۔ ہموطن سے ملتے وقت تو ان کی آنکھوں میں بے پناہ اپنائیت کے سوتے پھوٹتے نظر آتے تھے۔… ان سے ملاقات کیلئے اپائنٹمنٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ان کے دفتر کا دروازہ کھلا ہو تو کسی وقت کوئی بھی ان سے ملاقات کر سکتا تھا۔… انہیں مالی اعانت کیلئے ملنے والی درخواستوں کو پڑھنا اور جواب دینا میرے سپرد تھا۔ انہوں نے کبھی کسی ضرورتمند کو انکار نہیں کیا تھا بلکہ فوراً چیک لکھ کر دے دیتے تھے کہ یہ فی الفور بھیج دو۔
مکرم ڈاکٹر مجاہد کامران لکھتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی غیرمعمولی یادداشت کے بارے میں آپکے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز انارکلی لاہور میں سے گزرتے ہوئے جب ہم دوسرے کنارے پر پہنچے تو اچانک میں نے سلام صاحب سے انارکلی کی دائیں طرف کی دوکانوں کے نام بتانے کو کہا۔ یہ بات واقعی حیران کن تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو 90% دوکانوں کے نام یاد تھے …۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بیک وقت گورنمنٹ کالج سٹوڈنٹ یونین کے صدر اور کالج کے رسالہ ’راوی‘ کے اردو اور انگریزی دونوں حصوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہی دنوں آپکا ایک تحقیقی مضمون رسالہ ’’ھمایوں‘‘ میں شائع ہوا کہ غالب نے اپنا تخلص اسد سے غالب لکھنا کب شروع کیا۔ مضمون کی اشاعت کے بعد محترم سلام صاحب اپنے دوست وحید قریشی صاحب کے ہمراہ رسالہ کے ایڈیٹر میاں بشیر احمد صاحب کا شکریہ ادا کرنے گئے۔ وحید قریشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میاں صاحب یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ مضمون نگار ایک نوجوان لڑکا ہے جبکہ ان کو توقع تھی کہ یہ تحریر کسی پچاس سالہ شخص کی ہوگی۔