وہ پاک محمدؐ ہے ہم سب کا حبیب آقا

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن سیرۃالنبیﷺ نمبر 6؍اکتوبر 2022ء)

حضرت مسیح موعودؑ کے فارسی منظوم کلام میں سے دو اشعار کا ترجمہ یوں ہے: اگر کوئی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نُور سے آگاہ نہیں ہے تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ادنیٰ اور حقیر لوگوں کی رسائی اعلیٰ ترین وجودوں تک ہوا ہی نہیں کرتی۔ اندھیروں میں بھٹکنے والا اپنی جو بھی جہالت سے بھری رائے دیتا ہے وہ اس لیے ناقابلِ تسلیم ہے کہ اندھوں کی آنکھیں اس آسمانی روشنی سے بےخبر ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ لے کر آئے تھے۔
رسول کریم ﷺ کی بعثت سے جو پاکیزہ عظیم الشان تغیّر دیکھنے میں آیا اُس حوالے سے مکرم فرید احمد نوید صاحب کا ایک مختصر مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء کی زینت ہے جس میں مختلف روایات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ آپؐ سے پہلے کی دنیا اُس دنیا سے بہت مختلف تھی جو آپؐ کی آمد کے بعد وجود میں آئی۔
رسول اللہﷺ نے غریبوں اور لاچاروں کے حقوق کا تعین فرمایا اور بےکسوں اور بےبسوں کا سہارا بنے۔ مسجد کی صفائی کرنے والی ایک غریب عورت چند دن نظر نہ آئی تو پوچھنے پر آپؐ کو اُس کی وفات کا بتایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی، مَیں بھی اُس کے جنازے میں شامل ہوتا۔ پھر فرمایا: شاید تم نے اس کو غریب سمجھ کر حقیر جانا۔ پھر آپؐ اُس عورت کی قبر پر تشریف لے گئے اور اُس کے لیے مغفرت کی دعا کی۔
آپؐ نے اُمّت کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ہر وہ دعوت جس میں غرباءکو نہ بلایا جائے وہ بدترین دعوت ہے۔
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی جس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ ہمارے گھر میں اُس وقت سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا۔ مَیں نے وہی کھجور اُس کو دے دی۔ اُس نے وہ کھجور آدھی آدھی دونوں لڑکیوں کو کھلادی اور پھر چلی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو مَیں نے آپؐ کو یہ واقعہ سنایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس غریب کے گھر میں بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو خداتعالیٰ اُسے قیامت کے دن دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔ پھر آپؐ نے مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ اس عورت کو اس فعل کی وجہ سے جنت کا مستحق بنائے گا۔
اُس زمانے میں معاشرے میں بدکاری اور بے حیائی عام تھی۔ کئی کئی بیویاں رکھنا معمول تھا۔ ایسے میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی پاکر اس تعداد کو ضروریات اور انصاف کی شرائط سے باندھ کر محدود کردیا۔ آپؐ کی تعلیم اور اہل و عیال سے حسن سلوک کی مثالوں نے معاشرے کو یکسر بدل دیا۔ آپؐ جن باتوں پر بیعت لیتے تھے وہ یہ تھیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤگے، چوری نہ کروگے، زنا نہ کروگے، اپنی اولادوں کو قتل نہ کروگے اور بہتان نہ تراشوگے اور معروف باتوں کی نافرمانی نہ کروگے۔ پس جو کوئی تم میں سے اس عہد بیعت کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے۔
اپنے اور پرائے سب آنحضورﷺ کی شرافت، نجابت، صداقت، وسعت حوصلہ اور اعلیٰ اخلاق کے مداح تھے۔ حضرت سائب بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ فتح مکّہ کے دن حضرت عثمان و زبیر رضی اللہ عنہما نے مجھے آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کرکے میری تعریف کرنی شروع کی تو آپؐ نے فرمایا: تم لوگ مجھے بےشک اس کے بارے میں زیادہ نہ بتاؤ۔ یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی تھا۔ سائبؓ کہنے لگے: ہاں، یا رسول اللہ!آپ واقعی کتنے اچھے ساتھی تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اے سائب! دیکھو جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے۔ اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا مثلاً مہمان نوازی، یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ۔
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ مکہ کے ابتدائی زمانے میں سائبؓ آنحضورﷺ کے ساتھ تجارت کیا کرتے تھے۔ فتح مکّہ کے دن سائبؓ نے گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں آپؐ نے کبھی جھگڑا نہیں کیا۔
ابوجہل تو ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اے محمد! ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کو جھوٹا کہتے ہیں جو تُو لے کر آیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے آقاﷺ کے اخلاقِ عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آنحضرتﷺ کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے۔ آپ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوّتِ قدسی اور عقد ہمّت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے۔ غرض ہر طرح اور ہر پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے اندر رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک غبی سے غبی انسان بھی بشرطیکہ اس کے دل میں بےجا غصّہ اور عداوت نہ ہو صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپؐ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں