ٹائی کا استعمال اور حضرت مصلح موعودؓ
جماعت احمدیہ امریکہ کے دو ماہی ’’النور‘‘ جنوری وفروری 2006ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں ایک واقعہ درج ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضورؓ اپنے متبعین کے صحیح مشورہ کو ماننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بیان فرماتے ہیں کہ 1955ء میں حضورؓ کے دورۂ یورپ کے موقع پر مَیں بھی آپؓ کے ہمراہ تھا۔ ایک روز حضورؓ کی حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ سے انگریزی لباس سے متعلق بات چیت چل پڑی۔ حضورؓ کا انگریزی لباس کو ناپسند کرنے سے متعلق مؤقف یہ تھا کہ یہ لباس ہماری قوم کی غلامانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے اور انگریزوں نے ہمارا لباس اس لئے نہیں اپنایا کہ اُسے وہ اپنے لئے ذلّت کا موجب سمجھتے رہے۔ چودھری صاحبؓ نے عرض کی کہ اب وہ صورت باقی نہیں رہی اور انگریزی لباس بھی ایک بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ نیز مشرقی لباس سے سستا بھی پڑتا ہے اور یورپین ممالک میں مشرقی لباس کو صاف ستھرا رکھنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ ہاں ایسی صورت میں تو کوئی قابل اعتراض بات نہیں رہتی البتہ ٹائی لگانے کے متعلق مجھے یہ تردّد ہے کہ کہیں یہ صلیب کی علامت نہ ہو۔ چودھری صاحب نے عرض کیا کہ ٹائی صلیب کی علامت یقینا نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہودی قوم اسے کبھی نہ اپناتی۔ نیز ٹائی اُس رومال کی بدلی ہوئی صورت ہے جو گردن کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس استدلال کو قبول کرتے ہوئے حضورؓ نے نہ صرف اس کی اجازت عطا فرمائی بلکہ محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ کو ٹائی کا تحفہ بھی مرحمت فرمایا۔