ٹیلی مواصلات میں غیر معمولی ترقی اور ایم ٹی اے کا تاریخی سنگ میل
لفظ ’’ٹیلی ‘‘ فاصلہ یا دوری کو کہا جاتا ہے جبکہ ’’کیمونی کیشن‘‘ معلومات، پیغامات کے باہمی تبادلے کو کہتے ہیں۔ ٹیلی کیمو نی کیشن کسی بھی قسم کی پیغام رسانی یا معلومات کو تار، ریڈیو یا کسی دوسرے برقی مقناطیسی سسٹم کے ذریعہ بھجوانے یا وصول کرنے کو کہا جاتا ہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21جولائی2004ء میں انجینئر منیر احمد فرخ صاحب کے قلم سے ٹیلی مواصلات میں ممتاز اور حیرت انگیز ترقیات کی تاریخ بیان ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کی نشریات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہی ہیں۔
طویل فاصلوں کے پیش نظر فوری اور تیز رفتار پیغام رسانی کے لئے انسان ابتدا سے ہی مختلف ذرائع کی تلاش میں کوشاں رہا ہے۔ ابتدائی ادوار میں جن مخصوص ذرائع سے کام لیا گیا ان میں ڈھول، آگ، دھواں ، کبوتر ، گھوڑے ، لیمپ، شیشے کا عکس۔ ڈاک سروس شامل ہیں لیکن آج کے دَور میں فوری رابطوں کے لئے سینکڑوں جدید مصنوعی سیارے زمین کے گرد خلا میں گردش کر رہے ہیں۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے جو مراحل راہ میں آئے، اُن کی تاریخی اہمیت یوں ہے:
تصویری زبان میں پیغام رسانی
Optical Telegraphy کا اچھوتا خیال سب سے پہلے ایک انگریز Mr. Robert Hooke نے 1684 ء میں پیش کیا تھا۔ تاہم یہ سسٹم سو سال بعد، 1784 ء میں ایک فرانسیسی سائنسدان Mr. Claude Chappeکے ذریعہ آزمایا گیا۔ بعد ازاں یہ نظام انگلستان جرمنی اور دیگر یورپین ممالک نے بھی اختیار کیا۔ اس نظام میں Visual Signs معین فاصلوں اور مناسب اونچائی پر کھمبوں یا میناروں پر نصب کئے جاتے ہیںجو آنکھوں یا دوربین کی مدد سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ نظام مہنگا ہے کیونکہ اس میں افرادی قوت کی بہت زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ نیز موسمی تغیرات بھی اس نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ اس نظام کے لئے Line of Sight کا ہونا ضروری ہے۔
برقی ٹیلی گرافی
برقی ٹیلی گرافی کی ایجاد ساکن بجلی کے دریافت ہونے کے بعد عمل میں آئی۔ سکاٹ لینڈ کے ایک نامعلوم ذہین شخص نے یہ نظریہ تجویز کیا کہ انگریزی کے ( A to Z) حروف تہجی کی تعداد کے برابر اگر ایک انچ کے فاصلے پر تاریں بچھائی جائیں اورایک طرف سے ’’ برقی رو‘‘ لگائیں تو یہ دوسری جانب پر رکھے کاغذ پر اثر انداز ہوگی۔ اس طریق سے دور دراز فاصلہ تک پیغام پہنچا یا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں اس نظام کو حروف تہجی کے استعمال کے ذریعہ مزید ترقی دی گئی ۔ 1846 ء کے دوران دو برطانوی افراد Mr. Wheatstone اور Mr. Cooke نے اس شعبہ میں غیرمعمولی کام کیا۔ سب سے پہلی تاریخی ٹیلیگراف لائن یکم جنوری 1845ء میں امریکہ کے شہر واشنگٹن اور بالٹی مور کے درمیان بچھائی گئی اور پہلے پیغام کے الفاظ یہ تھے : ’’What bath God Wroght‘‘ ۔ بطور یادگاریہی الفاظ 23؍اگست1963ء کو پہلے خلائی سیارے کے ذریعہ بھیجے جانے والے پیغام میں دہرائے گئے۔ امریکی صدر اور نائیجیریا کے وزیراعظم نے اس مواصلاتی رابطے سے 72000کلو میٹر کے فاصلہ سے ایک دوسرے سے گفتگو کی۔
انیسویں صدی کے وسط میں یورپ میں ریلوے، اخبارات، حکومتی اداروں اور دفاع کے استعمال کے لئے کثرت سے ٹیلی گراف لا ئنیں بچھائی گئیں ۔ انگلستان اور فرانس کے مابین پہلی زیرآب کیبل 28؍اگست1850ء کو بچھائی گئی۔ تاہم اس کے ذریعہ چند ایک پیغامات ہی پہنچائے جاسکے کیونکہ بد قسمتی سے ایک مچھیرے نے اس کیبل کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بڑے فخر سے بطور ایک نایاب سمندری جنس اپنے لوگوں کو دکھایا۔
بعد ازاں بہت سے مزید کیبل زیر سمندر بچھائے گئے۔ 5؍اگست 1858ء کو دو بجکر پانچ منٹ پر سب سے پہلا پیغام بحر اوقیانوس کے پار 3240 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچا یا گیا۔ یہ کیبل بہت سی کوششوں کے بعد تیسری دفعہ بچھائی گئی تھی۔ اس کیبل پر 14؍اگست 1858ء کو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے امریکی صدر کو مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ اس کیبل کے ذریعہ صرف 400 پیغامات بھیجے جاسکے جن میں سے ایک یہ تھا:”.62Regiment were not to return to England”
اس سروس کی افادیت اس سے ظاہر ہے کہ صرف اس پیغام سے پچاس ہزار سٹرلنگ پائونڈ کی بچت ہوئی۔ بدقسمتی سے صرف بیس روز بعد 3ستمبر 1858ء کو ایک ٹیلی گراف آپریٹر نے غلطی سے طاقتور برقی رو اس میں دیدی جس سے یہ زیر آب کیبل ہمیشہ کے لئے برباد ہوگئی۔
برقی رفتار سے پیغام رسانی کی ترقی کے بعد رفتار کے لئے ’’ ٹیلی گرافی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ 1855ء میں ہندوستان میں ٹیلی گراف سروس پشاور سے لاہور، دہلی ، مدراس اور کلکتہ تک پھیل گئی۔ اعداد وشمار کے لحاظ سے دنیا میں 1865ء تک تقریباً 15000کلو میٹر لائنیں تھیں جن کے ذریعہ ایک سال میں تین کروڑ پیغامات پہنچائے گئے۔1913ء میں لائنوں کی تعداد 7 لاکھ کلو میٹر اور پچاس کروڑ پیغامات پہنچانے کی صلاحیت تک پہنچ گئیں۔
بعد ازاں ایک فرانسیسی Mr. Baud نے 1877ء میں ایک Printing Machine ایجاد کی جو برقی رفتار سے ایک منٹ میں ساٹھ الفاظ Transmit کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔ اس طرح دنیا میں Telex سروس کا آغاز ہوا۔
ٹیلی فون سروس
انگلینڈ میں سادہ دھاگے یا تار کے ذریعہ آواز کو پہنچانے کے سلسلہ میں کئی تجربات کے بعدMr. Robert Hookeنے سترھویں صدی میں لکھا: It is not possible to hear a whisper to a distance of one furlong which can perhaps be increase‘‘۔ اس طرح Opticalٹیلی فون کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں امریکہ میں 1875ء میں ایک سکاٹش Mr. Graham Bell نے ٹیلی گرافی کو ترقی دینے میں بہت کوشش کی اور 10 مارچ 1876ء کو اس نے کامیابی کے ساتھ ٹیلی فون پر اپنے مددگار کو یہ فقرہ کہا: ’’Mr. Watson Come Hear I Want You‘‘۔
سب سے پہلا فون ایکسچینج امریکہ کے شہر New Havenمیں 1878ء میں نصب کیا گیا۔ صارفین کی تعداد صرف 21تھی۔انگلستان میں 1883ء میں اور جاپان میں 1890ء میں پہلا ٹیلی فون ایکسچینج میں قائم ہوا۔ اوائل میں ٹیلی فون سروس کو ٹیلی گرافی کی ’’حریف سروس‘‘ گردانا جاتا تھا اور اس کی مخالفت کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب 1927ء میں ریڈیو ٹیلی گرافی کے ذریعہ امریکہ اور برطانیہ کا رابطہ قائم ہوا۔
1885ء میں پچاس ممالک میں ٹیلی فون سروس شروع ہوچکی تھی اور چھوٹے ایکسچینجوں کی تعداد 1868 تھی جبکہ صارفین کی تعداد 68845 تھی۔ شروع میں ٹیلی فون کی سہولت دینے کے لئے لوہے کی تاریں استعمال کی جاتی تھیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں سائنسی ایجادات میں غیرمعمولی ترقی ہوئی۔ ٹیلیفون کے شعبہ میں اس زمانہ میں سب سے پہلے ایک امریکی Mr. Strowger نے خود کار سوئچ ایجاد کیا جو گویا خودکار ایکسچینج کا آغاز تھا۔ 28دسمبر1895ء پیر س میں متحرک تصویر کا مظاہرہ ہوا اور اس طرح Cinema کا آغاز ہوا۔ X-Raysجرمنی میں ایجاد ہوئیں۔ فرانس میں ریڈیو کے شعبہ میں غیرمعمولی ترقی ہوئی۔ پھر مشہور سائنسدان مارکونی نے پہلی بار سمندر پار وائرلیس ٹیلی گرافی کے ذریعہ برطانیہ سے 105کلو میٹر فاصلہ تک کامیابی کے ساتھ پیغام رسانی کا تجربہ کیا۔ 1899ء میں امریکی جہاز ’’S.T. Pall‘‘ پہلا بحری جہاز تھا جس پر پیغام رسانی کے لئے وائر لیس نصب کیا گیا۔
وائرلیس کی اہمیت
23جنوری1909ء کی صبح ’’Republic‘‘ نامی ایک بحری جہاز، امریکی ساحل سے 280کلو میٹر دُور شدید دھند کی وجہ سے اطالوی بحری جہاز ’’Florada‘‘ سے ٹکرا گیا۔ وائر لیس کے ذریعہ مدد مانگنے پر ’’Baltic‘‘ نامی بحری جہاز سب سے پہلے مدد کے لئے پہنچا اور 1700انسانی زندگیوں کو بچانے میں کامیاب ہوا۔ شدید ترین دھند اور طغیانی میں یہ بروقت مدد صرف وائر لیس کے ذریعہ ممکن ہوئی۔ اسی طرح 1912ء میں ’’Titanic‘‘ جہاز کی غرقابی کے سانحہ میں ریڈیو ٹیلی گرافی پر مدد مانگی گئی تو 1503 مسافروں میں سے 710 مسافروں کو بچالیا گیا۔
جولائی 1910ء میں ایک مشہور زمانہ بدنام قاتل Dr. Clippin اپنی سیکرٹری کے ہمراہ ایک’’Canadian‘‘بحری جہاز کے ذریعہ فرار ہوگیا لیکن جہاز کے کپتان کو جب اُس کی نقل و حرکت پر شبہ ہوا تو اس نے اپنی کمپنی کے ہیڈکوارٹر سے وائر لیس کے ذریعہ رابطہ کیا۔ اس پیغام رسانی کے نتیجے میں دونوں قاتل ساحل سمندر پر اُترتے ہی گرفتار کرلئے گئے۔
زمانہ جنگ میں ٹیلی مواصلات
چھٹی صدی عیسوی میں چین نے پیغام رسانی کے لئے ایسی پتنگیں استعمال کیں جن پر لیمپ روشن تھے۔ 1588ء میں برطانیہ نے روشنی کے الائو جلاکر ہسپانوی بحری بیڑے کے خطرہ کی سمندر پار خبر پہنچائی۔ لیکن جدید دَور میں جنگ میں برقی ٹیلی گرافی کا استعمال سب سے پہلے برطانیہ نے 1854ء میں کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی ہند میں انگریزوں کی کامیابی صرف اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ کلکتہ کا دوسری برطانوی چھائونیوں سے ٹیلی گراف لائن کے ذریعہ مکمل رابطہ قائم تھا۔ دونوں عالمگیر جنگوں میں پیغام رسانی کے لئے ریڈیو ٹیکنالوجی میں غیر معمولی فنی مہارت حاصل ہوئی۔ نیز دنیا بھر میں خبریں پہنچانے کے ذرائع میں بھی غیرمعمولی ترقی ہوئی۔
سب سے پہلا براڈکاسٹنگ ادارہ امریکہ میں 1922ء میں قائم ہوا۔ جبکہ سب سے پہلی براڈکاسٹنگ سروس برطانیہ میں 1923ء میں قائم ہوئی۔ (BBC کا قیام 1927ء میں عمل میں آیا)۔
ریڈار کا نظام 1934ء میں ایجاد ہوا۔
ٹیلی مواصلات کے نظام کو دونوں عالمگیر جنگوں کے نتیجہ میں سخت بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ صرف فرانس میں جنگ عظیم دوم میں ٹیلی مواصلات کی دو سو عمارتیں تباہ ہوئیں، 90ہزار کلومیٹر لمبی ٹیلیفون تار تباہ ہوئی۔ تیس شہروں میں زیر زمین کیبل تباہ ہوئی۔ ساٹھ نشری ادارے اور 110 ٹیلی گراف کے دفتر تباہ ہوئے۔ پچاس سمندری کیبل کٹ گئے۔ فرانس کے 42 نشریاتی اداروں میں سے 38 تباہ ہوگئے۔
ٹیلی ویژن
1900ء کے اوائل میں Mr. Paul Nipkowsنے سب سے پہلے ٹیلی ویژن ایجاد کیا۔ 1936ء میں برطانیہ اور جرمنی میں ٹیلی ویژن کی باقاعدہ نشریا ت کا آغاز ہوا۔
خلائی ٹیلی مواصلات
اکتوبر 1957ء میں پہلا خلائی سیارہ روس نے خلاء میں چھوڑا۔ یہ کامیابی ریڈیو اور راکٹ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہی ممکن ہو سکی۔ 1960ء میں پہلا ٹیلی مواصلاتی سیارہ Echo-1 کامیابی سے چھوڑا گیا۔ یہ پہلا قدم تھا جس کے ذریعہ زمین سے باہر رابطہ کیا گیا۔ پھر امریکی نیوی نے فضائی رابطوں کے لئے 1960ء میں پہلی دفعہ چاند کو پیغام رسانی کے لئے Reflecting Objectکے طور پر استعمال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
Telstar-1 نامی مصنوعی سیارہ Bell ٹیلی فون کمپنی اور NASAنے مشترکہ تعاون سے 1962ء میں خلاء میں چھوڑا جس کے بعد متعدد سیاروں نے فضا کا رُخ کیا جس کے نتیجہ میں آج ریڈیو لہریں اپنے دامن میں سینکڑوں زبانوں میں کروڑوں پیغامات کا ایک لامتناہی سلسلہ اٹھائے ہوئے ہمارے چاروں طرف بغیر کسی احساس کے رواں دواں ہیں۔
ٹیلی مواصلات کا مستقبل
تقریباً100سال قبل برطانوی پوسٹ آفس کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا: ’’وہ دن دور نہیں جب تم ایک چھوٹا سا آلہ اپنی جیب سے نکال کر نہ صرف دنیا میں کسی بھی جگہ بات کر سکو گے بلکہ جس سے تم بات کر رہے ہو گے اس کی رنگین تصویر بھی دیکھ سکو گے‘‘۔ یہ بیان کس قدر مبنی بر حقیقت ہے۔
آج دنیا میں Global سیٹلائٹ اور Video ٹیلی فون کی شکل میں ٹیلی مواصلات اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ الیکٹرانک ڈیجیٹل ٹیلی فون سروس کے ذریعہ جدید سروسز جو ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا حاصل ہو چکی ہیں۔
ٹیلی مواصلات کے شعبہ میں غیر معمولی ترقی کوئی اتفاقی امر نہیں ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال قبل آنحضور ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ اسلام کی ترقی کے دوسرے دَور میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں غیر معمولی ترقی ہوگی اور زمین اپنے راز اگل دے گی۔ پس ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ ترقی خداتعالیٰ کی سکیم کا ایک حصہ ہے۔قرآن کریم کی متعدد پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کے دوسرے دور میں ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقیات ہوں گی۔ چنانچہ عین اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوتا ہے: ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔
یہ الفاظ ایک علیم وخبیر خدا کی طرف سے آپ کو قادیان جیسی گمنام بستی میں الہام کئے گئے جس میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔ بجلی تک کی سہولت موجود نہیں، چہ جائیکہ جدید ٹیلی مواصلات کی سہولیات کی بات کی جائے۔ سڑک اور ریل کے ذریعہ بھی دوسرے شہروں سے رابطہ نہیں۔ لیکن بصیرت کی آنکھ محو حیرت ہے کہ کس طرح الٰہی نوشتوں کے عین مطابق قدرت کے ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خداتعالیٰ کی ہستی کو ماننے والے بھی اور نہ ماننے والے بھی، ہزاروں سائنسدانوں اور انجینئر وں کو اس امر پر مامور کردیا جاتاہے کہ وہ سائنس کے رازوں اور قدرت کے عجائبات کو ظاہر اور اجاگر کریں۔ چنانچہ آج ٹیلی مواصلات کی جدیدسہولیات کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے کناروں تک MTA کے ذریعے خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا جارہا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کو 12دسمبر1902ء کو الہام ہوا:
یُنَادِیْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ
یعنی ایک منادی آسمان سے پکارے گا۔
نیز فرمایا: ’’مدبروں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی گویا مسیح موعود بارش کی طرح فرشتوں کے بازوئوں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے آئے گا۔انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازوئوں پر اس کا ہاتھ نہ ہوگا اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی۔ اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دم میں سب طرف چمک جاتی ہے۔ یہی حال اس زمانہ میں واقعہ ہو گا۔ اس وقت مشرق اور مغرب شمال اور جنوب کے فرقے خداکے حکم سے جمع ہوجائیں گے‘‘۔ (خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن نمبر16، صفحہ 284)
اجتماع مشرق ومغرب
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں : ’’جب قائم آل محمد ؐ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اہل مشرق و مغرب کو جمع کر دے گا‘‘۔ (ینابیع المودۃ جلد3، صفحہ 90)
نواب نور الحسن خان صاحب امام مہدی کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک عا م ندا ہوگی جو ساری زمین والوں کو پہنچے گی ۔ ہر زبان والا اپنی اپنی زبان میں اس کو سنے گا… آسمان سے ایک منادی بنام مہدی ندا کرے گا۔ مشرق و مغرب والے اس کو سنیں گے، کو ئی سوتا نہ رہے گا مگر جاگ اٹھے گا۔ کوئی کھڑانہ ہوگا مگر بیٹھ جائے گا۔ کوئی بیٹھا نہ ہوگا مگر دونوں پائوں پر کھڑا ہو جاوے گا۔ یہ ندا اُس ندا کے سوا ہے جو بعد ظہور مہدی کے ہوگی‘‘۔
(اقترب الساعہ صفحہ 67، مطبع مفید عام، 1301ھ)
ہم چھوٹے تھے تو سنا کرتے تھے کہ جب امام مہدیؑ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو بیک وقت کئی زبانوں میں گفتگو فرمائیں گے۔آج یہ عقدہ کھلا ہے کہ MTA پر آٹھ زبانوں میں حضور کے خطبات اور فرمودات کا ساتھ ساتھ ترجمہ ہو رہا ہوتا ہے۔